جنوبی ایشیا کی بدلتی سیاست کا پیچیدہ باب
قارئین جنوبی ایشیا کا سیاسی منظرنامہ ہمیشہ سے بے چینی، غیر یقینی اور متصادم قومی بیانیوں سے جڑا رہا ہے، اور اس خطے کی تاریخ میں چند تعلقات ایسے بھی ہیں جنہوں نے نصف صدی گزرنے کے باوجود اپنی تلخی کا رنگ نہیں کھویا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کا رشتہ اسی غیر معمولی تاریخی کشمکش کی ایک مثال ہے۔ دونوں ریاستیں کبھی ایک ہی ریاستی ڈھانچے کے دو حصے تھیں لیکن 1971 کی خونی جنگ نے نہ صرف انہیں جدا کیا بلکہ ان کے درمیان ایسی بداعتمادی پیدا کی جس کی بازگشت آج بھی سیاسی فضا میں سنائی دیتی ہے۔ پانچ دہائیاں گزر جانے کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے تضادات، سفارتی تناو ¿ اور اندرونی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے خدشات اسی پرانے زخم کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ حالیہ سیاسی حالات، بعض بیانات اور خفیہ سفارتی سرگرمیوں نے ان اندیشوں کو مزید تقویت دی ہے کہ پاکستان اب بھی بنگلہ دیش کے سیاسی اور نظریاتی ڈھانچے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے، اور یہ کہ بنگلہ دیش کے اندر ایسے حلقے بھی موجود ہیں جو بیرونی مداخلت کو اپنی داخلی سیاسی لڑائیوں کا اسلحہ بنانے کے خواہاں ہیں۔قارئین یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ بنگلہ دیش کی بنیاد اس جدوجہد سے اٹھی جس میں لاکھوں افراد نے جانیں قربان کیں۔ 1971 کی جنگ محض سیاسی علیحدگی کی تحریک نہیں تھی بلکہ انسانیت سوز المیوں کی ایک طویل داستان تھی۔ قتل عام، جبری گمشدگیاں، خواتین کے خلاف منظم تشدد اور سب کچھ چھوڑ کر بھاگنے والے لاکھوں افراد—یہ سب کچھ ایک ایسی قومی شناخت کی تشکیل کا باعث بنے جو پاکستانی ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد ڈھاکا نے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں ہمیشہ محتاط رویہ اختیار کیا۔ باہمی سفارتی بات چیت اگرچہ دوبارہ شروع ہوئی، مگر بنگلہ دیش کی اجتماعی نفسیات میں پاکستان کے کردار پر اعتماد کبھی مکمل طور پر بحال نہ ہو سکا۔
اس کے باوجود پاکستان نے مختلف ادوار میں بنگلہ دیش پر دوبارہ اثر انداز ہونے کے راستے تلاش کیے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بنگلہ دیش کو جنوبی ایشیا میں بھارت کے اثر کو محدود کرنے کے ایک ایسے سٹریٹجک میدان کے طور پر دیکھتی رہی ہے جہاں مذہبی شناخت کی سیاست، مخصوص نظریاتی گروہوں کی سرپرستی اور پراکسی نیٹ ورکس کے ذریعے اثر و رسوخ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی خفیہ حکمت عملی میں ہمیشہ اس کوشش کو مرکزیت حاصل رہی ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارت کے تاریخی کردار کو کمزور کیا جائے اور ایسے بیانیوں کو فروغ دیا جائے جو مذہبی اور نظریاتی وابستگی کے ذریعے پاکستان کے لیے داخلی حمایت کا ماحول تیار کریں۔ اسی پس منظر میں جماعتِ اسلامی اور اس سے منسلک گروہوں کا کردار ہمیشہ اہم رہا۔ اگرچہ بنگلہ دیش نے جنگی جرائم پر سزا دیتے ہوئے ایسی تنظیموں کے اثرات کو کمزور کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کے زیرِ زمین ڈھانچے اب بھی فعال بتائے جاتے ہیں، جنہیں بیرونی فنڈنگ، خفیہ سرپرستی اور نظریاتی روابط حاصل رہتے ہیں۔
ساتھ ہی یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ برسوں میں جعلی کرنسی نیٹ ورکس، دہشت گردی کی مالی معاونت اور انتہا پسند گروہوں سے روابط کے کئی شواہد بنگلہ دیشی اداروں نے منظر عام پر لائے جن کا تعلق پاکستان کے خفیہ حلقوں سے جوڑا گیا۔ ان واقعات نے یہ تاثر مزید گہرا کیا کہ پاکستان کی مداخلت صرف سفارتی یا نظریاتی نہیں بلکہ عملی طور پر اندرونی عدم استحکام کو ہوا دینے کی کوشش بھی ہے۔
قارئین کو بتادیں کہ بنگلہ دیش نے گزشتہ پندرہ برسوں میں ایک نمایاں معاشی و سیاسی تبدیلی دیکھی۔ شیخ حسینہ کے دور میں نہ صرف انتہا پسندی کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے بلکہ معیشت کو خطے کی تیز ترین ترقی یافتہ معیشتوں میں شمار کرایا گیا۔ بھارت، مغربی ممالک اور بحرہند کی نئی جغرافیائی صف بندیوں کے ساتھ بنگلہ دیش کی شراکت داری نے پاکستان کو یہ احساس دلوایا کہ ڈھاکا کا جھکاو ¿ نئی علاقائی سیاست میں ایک ایسی قوت بن سکتا ہے جو اس کے اپنے مفادات کے خلاف جائے۔ جنگی جرائم کے مجرموں کو سزائیں دینا پاکستان کے لیے ایک سیاسی دھچکا تھا، کیونکہ یہ سزائیں اس بیانیے کو مزید تقویت دیتی تھیں کہ 1971 کے واقعات محض جنگ نہیں بلکہ منظم نسل کشی تھے۔ اس تناظر میں پاکستان کی بارہا کی گئی تنقیدوں نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو مزید گہرا کیا۔اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کے اندر سیاسی تقسیم نے بیرونی اثر و رسوخ کے لیے گنجائش پیدا کی۔ اپوزیشن جماعتوں میں سے کچھ حلقے بیرونی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اور یہی وہ فضا ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان نے اپنے آپ کو ایک دوستانہ ملک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اسی دوران پاکستان، ترکی اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون بھی ایک بڑی علاقائی تصویر کا حصہ ہے جس میں جنوبی ایشیا میں بھارت کے اثر کو محدود کرنا بنیادی ہدف ہے، اور اس حکمت عملی میں بنگلہ دیش کو ایک اہم جگہ دی جا رہی ہے۔
یہ صورتحال اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ بنگلہ دیش کے کچھ علاقوں میں سیاسی بے چینی، پ ±رتشدد ہنگاموں اور چھوٹے مگر شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں نے ایسی فضا پیدا کر دی ہے جہاں بیرونی خفیہ نیٹ ورک آسانی سے اپنا اثر بڑھا سکتے ہیں۔ پاکستان کی دلچسپی صرف تعلقات بہتر بنانے تک محدود نہیں بلکہ اس کا مقصد بنگلہ دیش کے نظریاتی اور سیاسی ڈھانچے میں ایسی دراڑیں ڈالنا بھی ہے جو اس کی سیکولر اور جمہوری شناخت کو کمزور کریں۔ ایک ترقی یافتہ، مضبوط اور اعتدال پسند بنگلہ دیش اس تصور کی نفی کرتا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک صرف مذہبی سیاست یا عسکری طاقت کے سہارے ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب یہ خدشات بھی ابھر رہے ہیں کہ عالمی دباو ¿، خاص طور پر جمہوری حقوق اور انتخابات کے حوالے سے بنگلہ دیش پر آنے والی تنقید، اسے بعض بیرونی قوتوں کی طرف جھکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ایسے میں پاکستان اپنی شناخت کو دوبارہ ترتیب دے کر ڈھاکا کے سامنے ایک نئے سفارتی چہرے کے ساتھ پیش آ رہا ہے، لیکن یہ رویہ ان تلخ حقیقتوں کو نہیں مٹا سکتا جو 1971 کی یادداشت میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ڈھاکا کے اندر بھی اس بارے میں شدید اختلافات موجود ہیں۔ کچھ حلقے پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کی قربت کو شہداءکے خون سے غداری سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ اسے وقت کی ضرورت قرار دیتے ہیں۔ یہی داخلی کشمکش بیرونی قوتوں کے لیے راستے کھولتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر پاکستان اپنی مداخلت کو بڑھاتا ہے تو یہ صرف سیاسی اثر و رسوخ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس میں بنگلہ دیش کی قومی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی شامل ہوگی۔ تاریخ کو مسخ کرنا، جنگی مجرموں کو نکاتِ اختلاف میں بدل کر ہیرو بنانا، مذہبی تقسیم کو بڑھا کر معاشرتی ہم آہنگی کو تباہ کرنا—یہ سب کسی بھی آزاد ریاست کے لیے ایک براہ راست حملے سے کم نہیں۔
یہ وقت بنگلہ دیش کے لیے فیصلہ کن ہے۔ دنیا جنوبی ایشیا پر پہلے سے کہیں زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بنگلہ دیش اپنی ترقی، خودمختاری اور سیکولر جمہوری بنیادوں کو قائم رکھ پائے گا، یا بیرونی قوتوں کے کھیل میں استعمال ہونے لگے گا؟ پاکستان کے عزائم اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک بنگلہ دیش اپنی داخلی کمزوریوں کو مضبوط نہ کرے۔ جمہوری اداروں کی تقویت، سیاسی اتفاقِ رائے، غیر جانبدار خارجہ پالیسی اور 1971 کی حقیقت پر غیر متزلزل موقف،یہ سب مل کر ہی بنگلہ دیش کو بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
1971 صرف تاریخ نہیں، ایک سبق ہے—اور وہ سبق یہ بتاتا ہے کہ جب ایک قوم اپنی آواز کھو بیٹھتی ہے، جب داخلی تقسیم حد سے بڑھ جائے اور جب بیرونی قوتوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع مل جائے تو پھر نتائج صرف سیاسی نہیں بلکہ تاریخی اور اخلاقی تباہی کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ آج جب پاکستان دوبارہ اثر و رسوخ کی راہیں تلاش کر رہا ہے، تو بنگلہ دیش کے لیے اس سبق کو یاد رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ جنوبی ایشیا کو ترقی کی ضرورت ہے، سازشوں کی نہیں؛ استحکام کی ضرورت ہے، کشیدگی کی نہیں؛ اور تاریخ کے احترام کی ضرورت ہے، اس کے مسخ ہونے کی نہیں۔قارئین کو یاد ہوگا کہ بنگلہ دیش میں عوامی احتجاج اور شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد بنگلہ دیش میں حالات مسلسل دگرگوں دکھائی دے رہیں اور ملک میں سیاسی انتشار بدستور جاری ہے ۔
جنوبی ایشیا کی بدلتی سیاست کا پیچیدہ باب
قارئین جنوبی ایشیا کا سیاسی منظرنامہ ہمیشہ سے بے چینی، غیر یقینی اور متصادم قومی بیانیوں سے جڑا رہا ہے، اور اس خطے کی تاریخ میں چند تعلقات ایسے بھی ہیں جنہوں نے نصف صدی گزرنے کے باوجود اپنی تلخی کا رنگ نہیں کھویا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کا رشتہ اسی غیر معمولی تاریخی کشمکش کی ایک مثال ہے۔ دونوں ریاستیں کبھی ایک ہی ریاستی ڈھانچے کے دو حصے تھیں لیکن 1971 کی خونی جنگ نے نہ صرف انہیں جدا کیا بلکہ ان کے درمیان ایسی بداعتمادی پیدا کی جس کی بازگشت آج بھی سیاسی فضا میں سنائی دیتی ہے۔ پانچ دہائیاں گزر جانے کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے تضادات، سفارتی تناو ¿ اور اندرونی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے خدشات اسی پرانے زخم کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ حالیہ سیاسی حالات، بعض بیانات اور خفیہ سفارتی سرگرمیوں نے ان اندیشوں کو مزید تقویت دی ہے کہ پاکستان اب بھی بنگلہ دیش کے سیاسی اور نظریاتی ڈھانچے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے، اور یہ کہ بنگلہ دیش کے اندر ایسے حلقے بھی موجود ہیں جو بیرونی مداخلت کو اپنی داخلی سیاسی لڑائیوں کا اسلحہ بنانے کے خواہاں ہیں۔قارئین یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ بنگلہ دیش کی بنیاد اس جدوجہد سے اٹھی جس میں لاکھوں افراد نے جانیں قربان کیں۔ 1971 کی جنگ محض سیاسی علیحدگی کی تحریک نہیں تھی بلکہ انسانیت سوز المیوں کی ایک طویل داستان تھی۔ قتل عام، جبری گمشدگیاں، خواتین کے خلاف منظم تشدد اور سب کچھ چھوڑ کر بھاگنے والے لاکھوں افراد—یہ سب کچھ ایک ایسی قومی شناخت کی تشکیل کا باعث بنے جو پاکستانی ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد ڈھاکا نے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں ہمیشہ محتاط رویہ اختیار کیا۔ باہمی سفارتی بات چیت اگرچہ دوبارہ شروع ہوئی، مگر بنگلہ دیش کی اجتماعی نفسیات میں پاکستان کے کردار پر اعتماد کبھی مکمل طور پر بحال نہ ہو سکا۔
اس کے باوجود پاکستان نے مختلف ادوار میں بنگلہ دیش پر دوبارہ اثر انداز ہونے کے راستے تلاش کیے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بنگلہ دیش کو جنوبی ایشیا میں بھارت کے اثر کو محدود کرنے کے ایک ایسے سٹریٹجک میدان کے طور پر دیکھتی رہی ہے جہاں مذہبی شناخت کی سیاست، مخصوص نظریاتی گروہوں کی سرپرستی اور پراکسی نیٹ ورکس کے ذریعے اثر و رسوخ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی خفیہ حکمت عملی میں ہمیشہ اس کوشش کو مرکزیت حاصل رہی ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارت کے تاریخی کردار کو کمزور کیا جائے اور ایسے بیانیوں کو فروغ دیا جائے جو مذہبی اور نظریاتی وابستگی کے ذریعے پاکستان کے لیے داخلی حمایت کا ماحول تیار کریں۔ اسی پس منظر میں جماعتِ اسلامی اور اس سے منسلک گروہوں کا کردار ہمیشہ اہم رہا۔ اگرچہ بنگلہ دیش نے جنگی جرائم پر سزا دیتے ہوئے ایسی تنظیموں کے اثرات کو کمزور کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کے زیرِ زمین ڈھانچے اب بھی فعال بتائے جاتے ہیں، جنہیں بیرونی فنڈنگ، خفیہ سرپرستی اور نظریاتی روابط حاصل رہتے ہیں۔
ساتھ ہی یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ برسوں میں جعلی کرنسی نیٹ ورکس، دہشت گردی کی مالی معاونت اور انتہا پسند گروہوں سے روابط کے کئی شواہد بنگلہ دیشی اداروں نے منظر عام پر لائے جن کا تعلق پاکستان کے خفیہ حلقوں سے جوڑا گیا۔ ان واقعات نے یہ تاثر مزید گہرا کیا کہ پاکستان کی مداخلت صرف سفارتی یا نظریاتی نہیں بلکہ عملی طور پر اندرونی عدم استحکام کو ہوا دینے کی کوشش بھی ہے۔
قارئین کو بتادیں کہ بنگلہ دیش نے گزشتہ پندرہ برسوں میں ایک نمایاں معاشی و سیاسی تبدیلی دیکھی۔ شیخ حسینہ کے دور میں نہ صرف انتہا پسندی کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے بلکہ معیشت کو خطے کی تیز ترین ترقی یافتہ معیشتوں میں شمار کرایا گیا۔ بھارت، مغربی ممالک اور بحرہند کی نئی جغرافیائی صف بندیوں کے ساتھ بنگلہ دیش کی شراکت داری نے پاکستان کو یہ احساس دلوایا کہ ڈھاکا کا جھکاو ¿ نئی علاقائی سیاست میں ایک ایسی قوت بن سکتا ہے جو اس کے اپنے مفادات کے خلاف جائے۔ جنگی جرائم کے مجرموں کو سزائیں دینا پاکستان کے لیے ایک سیاسی دھچکا تھا، کیونکہ یہ سزائیں اس بیانیے کو مزید تقویت دیتی تھیں کہ 1971 کے واقعات محض جنگ نہیں بلکہ منظم نسل کشی تھے۔ اس تناظر میں پاکستان کی بارہا کی گئی تنقیدوں نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو مزید گہرا کیا۔اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کے اندر سیاسی تقسیم نے بیرونی اثر و رسوخ کے لیے گنجائش پیدا کی۔ اپوزیشن جماعتوں میں سے کچھ حلقے بیرونی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اور یہی وہ فضا ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان نے اپنے آپ کو ایک دوستانہ ملک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اسی دوران پاکستان، ترکی اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون بھی ایک بڑی علاقائی تصویر کا حصہ ہے جس میں جنوبی ایشیا میں بھارت کے اثر کو محدود کرنا بنیادی ہدف ہے، اور اس حکمت عملی میں بنگلہ دیش کو ایک اہم جگہ دی جا رہی ہے۔
یہ صورتحال اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ بنگلہ دیش کے کچھ علاقوں میں سیاسی بے چینی، پ ±رتشدد ہنگاموں اور چھوٹے مگر شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں نے ایسی فضا پیدا کر دی ہے جہاں بیرونی خفیہ نیٹ ورک آسانی سے اپنا اثر بڑھا سکتے ہیں۔ پاکستان کی دلچسپی صرف تعلقات بہتر بنانے تک محدود نہیں بلکہ اس کا مقصد بنگلہ دیش کے نظریاتی اور سیاسی ڈھانچے میں ایسی دراڑیں ڈالنا بھی ہے جو اس کی سیکولر اور جمہوری شناخت کو کمزور کریں۔ ایک ترقی یافتہ، مضبوط اور اعتدال پسند بنگلہ دیش اس تصور کی نفی کرتا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک صرف مذہبی سیاست یا عسکری طاقت کے سہارے ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب یہ خدشات بھی ابھر رہے ہیں کہ عالمی دباو ¿، خاص طور پر جمہوری حقوق اور انتخابات کے حوالے سے بنگلہ دیش پر آنے والی تنقید، اسے بعض بیرونی قوتوں کی طرف جھکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ایسے میں پاکستان اپنی شناخت کو دوبارہ ترتیب دے کر ڈھاکا کے سامنے ایک نئے سفارتی چہرے کے ساتھ پیش آ رہا ہے، لیکن یہ رویہ ان تلخ حقیقتوں کو نہیں مٹا سکتا جو 1971 کی یادداشت میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ڈھاکا کے اندر بھی اس بارے میں شدید اختلافات موجود ہیں۔ کچھ حلقے پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کی قربت کو شہداءکے خون سے غداری سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ اسے وقت کی ضرورت قرار دیتے ہیں۔ یہی داخلی کشمکش بیرونی قوتوں کے لیے راستے کھولتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر پاکستان اپنی مداخلت کو بڑھاتا ہے تو یہ صرف سیاسی اثر و رسوخ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس میں بنگلہ دیش کی قومی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی شامل ہوگی۔ تاریخ کو مسخ کرنا، جنگی مجرموں کو نکاتِ اختلاف میں بدل کر ہیرو بنانا، مذہبی تقسیم کو بڑھا کر معاشرتی ہم آہنگی کو تباہ کرنا—یہ سب کسی بھی آزاد ریاست کے لیے ایک براہ راست حملے سے کم نہیں۔
یہ وقت بنگلہ دیش کے لیے فیصلہ کن ہے۔ دنیا جنوبی ایشیا پر پہلے سے کہیں زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بنگلہ دیش اپنی ترقی، خودمختاری اور سیکولر جمہوری بنیادوں کو قائم رکھ پائے گا، یا بیرونی قوتوں کے کھیل میں استعمال ہونے لگے گا؟ پاکستان کے عزائم اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک بنگلہ دیش اپنی داخلی کمزوریوں کو مضبوط نہ کرے۔ جمہوری اداروں کی تقویت، سیاسی اتفاقِ رائے، غیر جانبدار خارجہ پالیسی اور 1971 کی حقیقت پر غیر متزلزل موقف،یہ سب مل کر ہی بنگلہ دیش کو بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
1971 صرف تاریخ نہیں، ایک سبق ہے—اور وہ سبق یہ بتاتا ہے کہ جب ایک قوم اپنی آواز کھو بیٹھتی ہے، جب داخلی تقسیم حد سے بڑھ جائے اور جب بیرونی قوتوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع مل جائے تو پھر نتائج صرف سیاسی نہیں بلکہ تاریخی اور اخلاقی تباہی کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ آج جب پاکستان دوبارہ اثر و رسوخ کی راہیں تلاش کر رہا ہے، تو بنگلہ دیش کے لیے اس سبق کو یاد رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ جنوبی ایشیا کو ترقی کی ضرورت ہے، سازشوں کی نہیں؛ استحکام کی ضرورت ہے، کشیدگی کی نہیں؛ اور تاریخ کے احترام کی ضرورت ہے، اس کے مسخ ہونے کی نہیں۔قارئین کو یاد ہوگا کہ بنگلہ دیش میں عوامی احتجاج اور شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد بنگلہ دیش میں حالات مسلسل دگرگوں دکھائی دے رہیں اور ملک میں سیاسی انتشار بدستور جاری ہے ۔
