نوجوان صلاحیتوں کے لیے وسعت پاتی ہوئی دنیا
قارئین گزشتہ ایک دہائی میں وادی کشمیر نے جن سماجی و ثقافتی تبدیلیوں کا تجربہ کیا ہے، ان میں کھیلوں کا فروغ سب سے نمایاں مثال بن کر ا ±بھرا ہے۔ اگرچہ یہ خطہ برسوں تک بے یقینی، سیاسی ہلچل اور محدود سہولیات کے باعث دباو ¿ میں رہا، مگر اسی ماحول میں کرکٹ اور فٹبال ایک نئی امید، نئی توانائی اور نوجوان نسل کے لیے نئی سمت کے طور پر سامنے آئے۔ کھیل اب صرف مشغلہ نہیں رہے بلکہ وہ ایک ایسا سماجی پل جس کے ذریعے نئی نسل اپنے امکانات، شناخت اور خوابوں کو نئی جہت دے رہی ہے۔
وادی کے چھوٹے بڑے قصبوں میں کھیل کود ہمیشہ سے روزمرہ کی زندگی کا حصہ رہا ہے، مگر گزشتہ چند برسوں میں کرکٹ اور فٹبال کا جو غیرمعمولی عروج دیکھا گیا ہے، اس نے کشمیر کے نوجوانوں کو نہ صرف اعتماد بخشا بلکہ ا ±ن دنیاوں کے دروازے بھی کھول دیے جو کبھی محض تصور میں تھیں۔ کبھی سنگلاخ پچوں پر ٹینس بال سے کھیلنے والے نوجوان آج باقاعدہ کوچنگ، جدید ٹریننگ اور منظم لیگز کا حصہ بنتے دکھائی دیتے ہیں،یہ وہ منظر ہے جو شاید دس برس پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔قارئین کو پتہ ہوگا کہ کشمیر میں کرکٹ کا ذوق ہمیشہ سے رگوں میں دوڑتا رہا ہے۔ دور دراز دیہات سے لے کر سرینگر کی گنجان بستیوں تک، بچے لکڑی کے بنے بیٹ اور ٹیپ والی گیند کے ساتھ وہی ولولہ محسوس کرتے آئے ہیں جو چھوٹے بڑے میدانوں میں دیکھا جاتا ہے۔ یہاں کرکٹ کسی سرکاری پالیسی کی مرہونِ منت نہیں، بلکہ یہ ہمیشہ ایک خالص عوامی جذبہ رہا ہے۔ حتیٰ کہ وہ مشکل دن بھی جب حالات کشیدہ تھے، اس کھیل نے بچوں کو خوف اور بے بسی کے ماحول سے کچھ دیر کے لیے ہی سہی، مگر چھٹکارا ضرور دیا۔وقت کے ساتھ حالات میں جو بتدریج بہتری آئی، اس نے کرکٹ کو ایک نئی سمت عطا کی۔ میدان بہتر ہوئے، کوچنگ میں نظم آیا، اور مقامی سطح سے ابھرنے والا ٹیلنٹ باقاعدہ نمایاں ہونے لگا۔ اس سفر میں ایک نمایاں نام پرویز رسول کا بھی ہے، جنہوں نے بھارتی ٹیم تک رسائی حاصل کرکے ہزاروں نوجوانوں کی امیدوں کو جگایا۔ ا ±ن کی کامیابی نے ثابت کیا کہ اگر راستہ مشکل بھی ہو تو ایک کشمیری نوجوان اپنی محنت سے قوم کے سب سے بڑے اسٹیج تک پہنچ سکتا ہے۔اگر کرکٹ وادی کی روایت ہے تو فٹبال اب اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نئی شناخت ہے۔ تنگ میدان، کم قیمت کا سامان اور کم وقت میں تیار ہو جانے والے کھیل کی وجہ سے فٹبال کشمیر کے مزاج کے ساتھ خوب مطابقت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں فٹبال کے میدانوں میں بے پناہ ہجوم دیکھنے کو ملا ہے۔ بچوں کے اسکول ٹورنامنٹس ہوں یا مقامی محلے کے میچ، نوجوانوں کی دلچسپی نے ایک پوری فٹبال کلچر کو جنم دیا ہے۔
قارئین کو بتادیں کہ سرینگر کا ٹی آر سی گراو ¿نڈ اس فٹبال انقلاب کی علامت بن چکا ہے، جہاں ریئل کشمیر فٹبال کلب کی موجودگی نے پورے ملک کی نگاہیں وادی کی طرف موڑ دیں۔ اس کلب نے نہ صرف لیگ میں نمایاں کارکردگی دکھائی بلکہ اپنی محنت، سادگی اور عزم کے ذریعے ایک ایسی کہانی رقم کی جو دنیا بھر میں کشمیر کے نوجوانوں کی صلاحیت اور حوصلے کی نمائندگی کرتی ہے۔ریئل کشمیر فٹبال کلب کی کامیابی محض کھیل تک محدود نہیں۔ یہ دراصل اس جذبے اور ثابت قدمی کی تصویریں پیش کرتا ہے جو وادی کے نوجوانوں میں چھپی ہوئی ہے۔ شدید سردیوں میں کھلاڑیوں کا برف ہٹاکر ٹریننگ کرنا، کم وسائل میں مقابلہ کرنا اور پھر قومی سطح پر پہچان حاصل کرنا—یہ سب کچھ اس بات کی علامت ہے کہ اگر راستے میں مشکلات ہوں بھی تو عزم اور نظم انہیں شکست دے دیتے ہیں۔
کلب نے نہ صرف نوجوانوں کو فٹبال کی طرف راغب کیا، بلکہ متعدد نجی اور سرکاری اداروں کو بھی ترغیب دی کہ وہ مقامی سطح پر اکیڈمیاں قائم کریں، کوچز کی تربیت کریں اور بچوں کو سائنسی بنیادوں پر ٹریننگ فراہم کریں۔ آج وادی کے مختلف اضلاع میں فٹبال کی صبح سویرے گونجتی سیٹیاں ایک نئے زمانے کی راہ س ±جھاتی ہیں۔
کشمیر میں کھیلوں کا انفراسٹرکچر جس رفتار سے ترقی کر رہا ہے، وہ ایک مکمل تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ چند برس پہلے تک یہ تصور محال تھا کہ یہاں جدید ٹرف فیلڈز، انڈور اسٹیڈیمز، یا بڑے پیمانے پر اسپورٹس کمپلیکس تیار ہوں گے۔ لیکن آج حقیقت یہ ہے کہ شیخ ا ±ل عالم انٹرنیشنل اسٹیڈیم کی نئی زندگی، اضلاع میں تعمیر ہونے والے اسپورٹس کمپلیکس، اور کرکٹ و فٹبال کی جدید سہولیات نوجوانوں کو وہ پلیٹ فارم فراہم کر رہی ہیں جن کی انہیں برسوں سے کمی محسوس ہو رہی تھی۔یہ تبدیلی صرف کھیل تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس سے تعلق رکھنے والا پورا اسپورٹس اکانومی نظام بھی کھڑا ہو رہا ہے۔ کوچز، فزیوتھراپسٹ، ایمپائرز، آرگنائزرز،ان سب کے لیے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔وادی کے نوجوان برسوں سے ذہنی دباو ¿ اور بے یقینی کے ماحول میں جی رہے تھے۔ کھیلوں نے ان کے اندر وہ اعتماد، نظم اور زندگی کا مقصد پیدا کیا ہے جو شاید پہلے ممکن نہ تھا۔ میدان کی دوڑ، ٹیم کا نظم، جیت کی خوشی اور شکست کا سبق—یہ سب نوجوان ذہنوں میں وہ طاقت پیدا کر رہے ہیں جو انہیں زندگی کے تمام شعبوں میں آگے بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے۔پہلے جہاں والدین کھیل کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے، آج وہ اپنے بچوں کے شوق کو نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ مکمل سپورٹ بھی دیتے ہیں۔ یہ ایک بڑا سماجی تغیر ہے جس کے اثرات آنے والے برسوں میں مزید نمایاں ہوں گے۔سوشل میڈیا نے بھی کشمیر کے کھیلوں کو غیر معمولی شہرت دی ہے۔ مقامی میچوں کے کلپس چند گھنٹوں میں ہزاروں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ چھوٹے گاو ¿ں کے لڑکے اچانک پوری وادی میں جانے جاتے ہیں۔ یہ نئی شہرت نوجوانوں کو مزید محنت کی طرف لے جا رہی ہے اور ایک ایسے صحت مند مقابلے کو جنم دے رہی ہے جس سے مجموعی معیار بہتر ہو رہا ہے۔اگرچہ بہت کچھ بدل گیا ہے، لیکن ابھی بھی کئی رکاوٹیں موجود ہیں—سردیوں میں بند ہوتے میدان، مہنگا سازوسامان، تربیت یافتہ کوچوں کی کمی، اور مالی مشکلات۔ لیکن جو بات سب سے زیادہ حوصلہ دیتی ہے وہ یہ ہے کہ نوجوان اب حل تلاش کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ کہیں برف ہٹا کر پریکٹس ہوتی ہے، کہیں دوست مل کر سفر کا خرچ پورا کرتے ہیں، کہیں کوچز رضاکارانہ محنت کرتے ہیں۔اگر یہی رفتار جاری رہی، تو کشمیر آنے والے برسوں میں کرکٹ اور فٹبال کی ایک بڑی نرسری بن سکتا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کی جسمانی توانائی، بلند پہاڑوں کی ہوا میں تربیت سے پیدا ہونے والی طاقت اور کھیل کے ساتھ جذباتی وابستگی وہ اثاثے ہیں جنہیں درست سمت دی جائے تو وادی کھیلوں کے نقشے پر نمایاں مقام حاصل کر سکتی ہے۔
آج کشمیر میں کھیل صرف کھیل نہیں رہے۔ یہ نئی امید، نئی شناخت اور ایک مضبوط ارادے کا استعارہ بن چکے ہیں۔ وہ میدان جہاں کبھی سناٹے گونجا کرتے تھے، اب نوجوانوں کے نعروں اور تالیوں سے روشن ہیں۔ ہر میچ ایک خواب کی تکمیل کی طرف قدم ہے، ہر دوڑ ایک امید کا اضافہ۔اور یوں لگتا ہے کہ وادی اب ایک نئی کہانی لکھ رہی ہے،وہ کہانی جو بتاتی ہے کہ کشمیر کا حوصلہ، اس کی جوانی اور اس کی صلاحیت کسی بھی موسم سے کمزور نہیں پڑتی۔ اسے صرف ایک میدان چاہیے۔اور یہ میدان اب تیزی سے وسیع ہو رہا ہے۔
نوجوان صلاحیتوں کے لیے وسعت پاتی ہوئی دنیا
قارئین گزشتہ ایک دہائی میں وادی کشمیر نے جن سماجی و ثقافتی تبدیلیوں کا تجربہ کیا ہے، ان میں کھیلوں کا فروغ سب سے نمایاں مثال بن کر ا ±بھرا ہے۔ اگرچہ یہ خطہ برسوں تک بے یقینی، سیاسی ہلچل اور محدود سہولیات کے باعث دباو ¿ میں رہا، مگر اسی ماحول میں کرکٹ اور فٹبال ایک نئی امید، نئی توانائی اور نوجوان نسل کے لیے نئی سمت کے طور پر سامنے آئے۔ کھیل اب صرف مشغلہ نہیں رہے بلکہ وہ ایک ایسا سماجی پل جس کے ذریعے نئی نسل اپنے امکانات، شناخت اور خوابوں کو نئی جہت دے رہی ہے۔
وادی کے چھوٹے بڑے قصبوں میں کھیل کود ہمیشہ سے روزمرہ کی زندگی کا حصہ رہا ہے، مگر گزشتہ چند برسوں میں کرکٹ اور فٹبال کا جو غیرمعمولی عروج دیکھا گیا ہے، اس نے کشمیر کے نوجوانوں کو نہ صرف اعتماد بخشا بلکہ ا ±ن دنیاوں کے دروازے بھی کھول دیے جو کبھی محض تصور میں تھیں۔ کبھی سنگلاخ پچوں پر ٹینس بال سے کھیلنے والے نوجوان آج باقاعدہ کوچنگ، جدید ٹریننگ اور منظم لیگز کا حصہ بنتے دکھائی دیتے ہیں،یہ وہ منظر ہے جو شاید دس برس پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔قارئین کو پتہ ہوگا کہ کشمیر میں کرکٹ کا ذوق ہمیشہ سے رگوں میں دوڑتا رہا ہے۔ دور دراز دیہات سے لے کر سرینگر کی گنجان بستیوں تک، بچے لکڑی کے بنے بیٹ اور ٹیپ والی گیند کے ساتھ وہی ولولہ محسوس کرتے آئے ہیں جو چھوٹے بڑے میدانوں میں دیکھا جاتا ہے۔ یہاں کرکٹ کسی سرکاری پالیسی کی مرہونِ منت نہیں، بلکہ یہ ہمیشہ ایک خالص عوامی جذبہ رہا ہے۔ حتیٰ کہ وہ مشکل دن بھی جب حالات کشیدہ تھے، اس کھیل نے بچوں کو خوف اور بے بسی کے ماحول سے کچھ دیر کے لیے ہی سہی، مگر چھٹکارا ضرور دیا۔وقت کے ساتھ حالات میں جو بتدریج بہتری آئی، اس نے کرکٹ کو ایک نئی سمت عطا کی۔ میدان بہتر ہوئے، کوچنگ میں نظم آیا، اور مقامی سطح سے ابھرنے والا ٹیلنٹ باقاعدہ نمایاں ہونے لگا۔ اس سفر میں ایک نمایاں نام پرویز رسول کا بھی ہے، جنہوں نے بھارتی ٹیم تک رسائی حاصل کرکے ہزاروں نوجوانوں کی امیدوں کو جگایا۔ ا ±ن کی کامیابی نے ثابت کیا کہ اگر راستہ مشکل بھی ہو تو ایک کشمیری نوجوان اپنی محنت سے قوم کے سب سے بڑے اسٹیج تک پہنچ سکتا ہے۔اگر کرکٹ وادی کی روایت ہے تو فٹبال اب اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نئی شناخت ہے۔ تنگ میدان، کم قیمت کا سامان اور کم وقت میں تیار ہو جانے والے کھیل کی وجہ سے فٹبال کشمیر کے مزاج کے ساتھ خوب مطابقت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں فٹبال کے میدانوں میں بے پناہ ہجوم دیکھنے کو ملا ہے۔ بچوں کے اسکول ٹورنامنٹس ہوں یا مقامی محلے کے میچ، نوجوانوں کی دلچسپی نے ایک پوری فٹبال کلچر کو جنم دیا ہے۔
قارئین کو بتادیں کہ سرینگر کا ٹی آر سی گراو ¿نڈ اس فٹبال انقلاب کی علامت بن چکا ہے، جہاں ریئل کشمیر فٹبال کلب کی موجودگی نے پورے ملک کی نگاہیں وادی کی طرف موڑ دیں۔ اس کلب نے نہ صرف لیگ میں نمایاں کارکردگی دکھائی بلکہ اپنی محنت، سادگی اور عزم کے ذریعے ایک ایسی کہانی رقم کی جو دنیا بھر میں کشمیر کے نوجوانوں کی صلاحیت اور حوصلے کی نمائندگی کرتی ہے۔ریئل کشمیر فٹبال کلب کی کامیابی محض کھیل تک محدود نہیں۔ یہ دراصل اس جذبے اور ثابت قدمی کی تصویریں پیش کرتا ہے جو وادی کے نوجوانوں میں چھپی ہوئی ہے۔ شدید سردیوں میں کھلاڑیوں کا برف ہٹاکر ٹریننگ کرنا، کم وسائل میں مقابلہ کرنا اور پھر قومی سطح پر پہچان حاصل کرنا—یہ سب کچھ اس بات کی علامت ہے کہ اگر راستے میں مشکلات ہوں بھی تو عزم اور نظم انہیں شکست دے دیتے ہیں۔
کلب نے نہ صرف نوجوانوں کو فٹبال کی طرف راغب کیا، بلکہ متعدد نجی اور سرکاری اداروں کو بھی ترغیب دی کہ وہ مقامی سطح پر اکیڈمیاں قائم کریں، کوچز کی تربیت کریں اور بچوں کو سائنسی بنیادوں پر ٹریننگ فراہم کریں۔ آج وادی کے مختلف اضلاع میں فٹبال کی صبح سویرے گونجتی سیٹیاں ایک نئے زمانے کی راہ س ±جھاتی ہیں۔
کشمیر میں کھیلوں کا انفراسٹرکچر جس رفتار سے ترقی کر رہا ہے، وہ ایک مکمل تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ چند برس پہلے تک یہ تصور محال تھا کہ یہاں جدید ٹرف فیلڈز، انڈور اسٹیڈیمز، یا بڑے پیمانے پر اسپورٹس کمپلیکس تیار ہوں گے۔ لیکن آج حقیقت یہ ہے کہ شیخ ا ±ل عالم انٹرنیشنل اسٹیڈیم کی نئی زندگی، اضلاع میں تعمیر ہونے والے اسپورٹس کمپلیکس، اور کرکٹ و فٹبال کی جدید سہولیات نوجوانوں کو وہ پلیٹ فارم فراہم کر رہی ہیں جن کی انہیں برسوں سے کمی محسوس ہو رہی تھی۔یہ تبدیلی صرف کھیل تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس سے تعلق رکھنے والا پورا اسپورٹس اکانومی نظام بھی کھڑا ہو رہا ہے۔ کوچز، فزیوتھراپسٹ، ایمپائرز، آرگنائزرز،ان سب کے لیے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔وادی کے نوجوان برسوں سے ذہنی دباو ¿ اور بے یقینی کے ماحول میں جی رہے تھے۔ کھیلوں نے ان کے اندر وہ اعتماد، نظم اور زندگی کا مقصد پیدا کیا ہے جو شاید پہلے ممکن نہ تھا۔ میدان کی دوڑ، ٹیم کا نظم، جیت کی خوشی اور شکست کا سبق—یہ سب نوجوان ذہنوں میں وہ طاقت پیدا کر رہے ہیں جو انہیں زندگی کے تمام شعبوں میں آگے بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے۔پہلے جہاں والدین کھیل کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے، آج وہ اپنے بچوں کے شوق کو نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ مکمل سپورٹ بھی دیتے ہیں۔ یہ ایک بڑا سماجی تغیر ہے جس کے اثرات آنے والے برسوں میں مزید نمایاں ہوں گے۔سوشل میڈیا نے بھی کشمیر کے کھیلوں کو غیر معمولی شہرت دی ہے۔ مقامی میچوں کے کلپس چند گھنٹوں میں ہزاروں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ چھوٹے گاو ¿ں کے لڑکے اچانک پوری وادی میں جانے جاتے ہیں۔ یہ نئی شہرت نوجوانوں کو مزید محنت کی طرف لے جا رہی ہے اور ایک ایسے صحت مند مقابلے کو جنم دے رہی ہے جس سے مجموعی معیار بہتر ہو رہا ہے۔اگرچہ بہت کچھ بدل گیا ہے، لیکن ابھی بھی کئی رکاوٹیں موجود ہیں—سردیوں میں بند ہوتے میدان، مہنگا سازوسامان، تربیت یافتہ کوچوں کی کمی، اور مالی مشکلات۔ لیکن جو بات سب سے زیادہ حوصلہ دیتی ہے وہ یہ ہے کہ نوجوان اب حل تلاش کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ کہیں برف ہٹا کر پریکٹس ہوتی ہے، کہیں دوست مل کر سفر کا خرچ پورا کرتے ہیں، کہیں کوچز رضاکارانہ محنت کرتے ہیں۔اگر یہی رفتار جاری رہی، تو کشمیر آنے والے برسوں میں کرکٹ اور فٹبال کی ایک بڑی نرسری بن سکتا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کی جسمانی توانائی، بلند پہاڑوں کی ہوا میں تربیت سے پیدا ہونے والی طاقت اور کھیل کے ساتھ جذباتی وابستگی وہ اثاثے ہیں جنہیں درست سمت دی جائے تو وادی کھیلوں کے نقشے پر نمایاں مقام حاصل کر سکتی ہے۔
آج کشمیر میں کھیل صرف کھیل نہیں رہے۔ یہ نئی امید، نئی شناخت اور ایک مضبوط ارادے کا استعارہ بن چکے ہیں۔ وہ میدان جہاں کبھی سناٹے گونجا کرتے تھے، اب نوجوانوں کے نعروں اور تالیوں سے روشن ہیں۔ ہر میچ ایک خواب کی تکمیل کی طرف قدم ہے، ہر دوڑ ایک امید کا اضافہ۔اور یوں لگتا ہے کہ وادی اب ایک نئی کہانی لکھ رہی ہے،وہ کہانی جو بتاتی ہے کہ کشمیر کا حوصلہ، اس کی جوانی اور اس کی صلاحیت کسی بھی موسم سے کمزور نہیں پڑتی۔ اسے صرف ایک میدان چاہیے۔اور یہ میدان اب تیزی سے وسیع ہو رہا ہے۔

