تحریر:ایڈوکیٹ صفا
قارئین دنیا کے کئی قبائلی خطوں میں آج بھی معیاری تعلیم تک رسائی ایک مسلسل چیلنج بنی ہوئی ہے۔ جہاں تک وادی جموں کشمیر کی بات ہے تو یہاں پر بھی دور دراز علاقے، معاشی رکاوٹیں اور تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی، بچوں کے تعلیمی سفر میں بڑے خلاءپیدا کرتی ہیں۔ مگر ان ہی خطوں میں ایک خاموش مگر بے حد مو ¿ثر تحریک جنم لے رہی ہے۔قبائلی نوجوان اپنی کمیونٹی کے لیے رضاکار استاد بن رہے ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو اکثر خود پہلی نسل کے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، اور اب اپنی محنت سے حاصل کیے گئے علم کو اپنے معاشرے میں واپس لوٹا کر تعلیم کے تصور کو ایک نئی شکل دے رہے ہیں۔یہ نوجوان کبھی محض ٹیوٹر کے طور پر، کبھی رہنما کی صورت اور کبھی باقاعدہ استاد بن کر نہ صرف اساتذہ کی قلت پوری کر رہے ہیں بلکہ اپنی برادری کے تعلیمی اور سماجی نقشے میں بھی نمایاں تبدیلی لا رہے ہیں۔جیسے کہ یہ بات عیاں ہے کہ جموں اور وادی کشمیر کے دور دراز علاقوں میں آج بھی تعلیمی بنیادی ڈھانچہ ناکافی ہے تاہم یہ نوجوان نوجوان خود آگے بڑھ رہے ہیںاور ان علاقوں میں تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ حکومتوں اور این جی اوز کے تعاون سے میٹرک یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ وابستگی کے جذبے کے ساتھ اپنے علاقوں میں واپس آتے ہیں۔ انہیں اپنی کمیونٹی کے مسائل کا گہرا ادراک ہوتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ تعلیم ہی دیرپا تبدیلی کی بنیاد ہے۔ اسی یقین نے انہیں انتظار کرنے کے بجائے خود عملی قدم اٹھانے پر آمادہ کیا ہے۔قبائلی پس منظر کے یہ نوجوان اساتذہ نئی نسل کے لیے صرف پڑھانے والے نہیں بلکہ ایسے رول ماڈل بھی بن جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر بچوں کو احساس ہوتا ہے کہ تعلیم ا ±ن کی بھی پہنچ میں ہے۔ مادری زبان میں بات چیت، مقامی روایات سے آگاہی اور ثقافتی حساسیت ا ±ن کی تدریس کو مزید مو ¿ثر بناتی ہے۔ ایسے اساتذہ کے سامنے بچے جھجھک محسوس نہیں کرتے اور سیکھنے کا عمل زیادہ خوشگوار اور قابلِ فہم ہو جاتا ہے۔بیرونی اساتذہ اکثر دور دراز علاقوں میں مختصر مدت کے لیے تعینات ہوتے ہیں، مگر مقامی نوجوان طویل المدتی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ وہ محض نصابی رہنمائی نہیں دیتے بلکہ بچوں کی تربیت، مشاورت اور اکثر خاندانوں کو تعلیم کی اہمیت سمجھانے تک میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ وابستگی ا ±ن کی تدریس کو محض پیشہ نہیں بلکہ سماجی خدمت کا درجہ دیتی ہے۔جیسے کہ بات ہم جانتے ہیں کہ موسمی ابتر صورتحال اور دیگر معاملات کی وجہ سے ان دور دراز علاقوں میں تعینات اساتذہ اور عملہ اکثر اپنی ڈیوٹی کو نہیں پہنچ پاتے ہیں اس میں مقامی نوجوان اس خلا کو پورا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں ۔اس کے باوجود انہیں کئی چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔ تدریسی تربیت کی کمی، کتابوں یا بنیادی وسائل کی عدم دستیابی، مناسب معاوضے کی عدم موجودگی اور محدود تعلیمی ڈھانچہ ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ لیکن کمیونٹی کے بزرگوں، مقامی تنظیموں اور چھوٹے رضاکارانہ نیٹ ورکس کی مدد سے ان کا حوصلہ برقرار رہتا ہے۔ان نوجوانوں کی کوششوں کے ثمرات نمایاں ہیں۔ اسکول چھوڑنے کی شرح میں کمی، خاص طور پر لڑکیوں میں؛ خواندگی اور سیکھنے کے معیار میں بہتری؛ اور مقامی علم و روایات کی حفاظت، کیوں کہ یہ نوجوان تدریس میں ثقافتی مواد بھی شامل کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف بچوں میں دلچسپی بڑھتی ہے بلکہ اپنی شناخت پر فخر بھی مضبوط ہوتا ہے۔یہ تحریک کمیونٹی کو خودمختاری کا احساس بھی دے رہی ہے۔ تعلیم کے ذریعے بااعتماد اور باصلاحیت نوجوان سامنے آ رہے ہیں جو جدید دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا سکتے ہیں مگر اپنی جڑوں سے بھی وابستہ رہتے ہیں۔ یہی نوجوان مستقبل کے رہنما بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اگر ان نوجوانوں کو سرکاری سطح پر رنمائی ملے اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی ممکن ہو تو یہ بہترین کام انجام دے سکتے ہیں ۔ اگر اس مثبت تبدیلی کو مضبوط بنانا ہے تو حکومتی سرپرستی، تربیتی پروگراموں، اسناد، بنیادی وسائل کی فراہمی اور مقامی اساتذہ کی حوصلہ افزائی ناگزیر ہے۔ انہیں تدریسی شعبے میں طویل المدتی کیریئر کے مواقع بھی فراہم کیے جانے چاہئیں تاکہ یہ سلسلہ مزید پھیل سکے۔قبائلی نوجوانوں کا استاد بن جانا صرف تعلیمی خلا پ ±ر کرنے کی داستان نہیں بلکہ خود انحصاری، بااختیاری اور ثقافتی بقا کا سفر بھی ہے۔ یہ اندر سے ا ±بھرنے والے رضاکار اس تبدیلی کے بیج بو رہے ہیں جو مستقبل میں مضبوط، تعلیم یافتہ اور باوقار کمیونٹیز کی شکل میں پھلے پھولے گی۔ آج کی دنیا میں جہاں محروم طبقات کی آوازیں اکثر دب جاتی ہیں، یہ نوجوان ثابت کر رہے ہیں کہ حقیقی تبدیلی ہمیشہ اندر سے جنم لیتی ہے۔
