تحریر:ارشد رسول
قارئین موجودہ دور میں جہاں سوشل میڈیا نے پوری دنیا میں ایک دائرے میں سمیٹ لیا ہے تاہم آج بھی ریڈیو ایک اپنی اہمیت رکھتا ہے ۔ وادی کشمیر میں جہاں جغرافیائی دوری، محدود رسائی اور طویل تنازع نے سماجی روابط کو متاثر کیا ہے، ”وہاں کمیونٹی ریڈیو اسٹیشن“ایک بار پھر عوامی آواز کے طور پر ا ±بھر رہے ہیں۔ یہ ریڈیو چینل نہ تجارتی مفاد رکھتے ہیں اور نہ ہی قومی سطح کے نشریاتی اداروں جیسی یکطرفہ ترجیحات،بلکہ یہ وہ میڈیا ہیں جو اپنی کمیونٹی کے دل کی دھڑکن ہوتے ہیں، اسی زبان میں بولتے ہیں، وہی مسائل ا ±ٹھاتے ہیں اور وہی امید جگاتے ہیں جو لوگ خود محسوس کرتے ہیں۔کمیونٹی ریڈیو کا بنیادی مقصد مقامی لوگوں تک صحت، تعلیم، زراعت اور سرکاری خدمات سے متعلق معلومات پہنچانا، مقامی زبانوں اور ثقافت کا تحفظ کرنا، اور عوام کو نشریاتی عمل میں براہِ راست شریک کرنا ہے۔ وادی کے دور دراز علاقوں میں جہاں انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن ابھی بھی غیر یقینی ہیں، ریڈیو آج بھی معلومات کا وہ ذریعہ ہے جو ہر گھر تک پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں کمیونٹی ریڈیو نہ صرف سماجی ہم آہنگی کا ذریعہ ہے بلکہ ترقی اور آگاہی کی ایک مضبوط لکیر بھی کھینچ رہا ہے۔دور دراز علاقوں میں ریڈیو آج بھی لوگوں کی زبان ہے خاص کر کمونٹی ریڈیو تو لوگوں کے معاملات ، ثقافت اور کلچر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ ریڈیو چینل مقامی بولیوں،جیسے کشمیری، شینا اور پہاڑی،میں پروگرام نشر کرتے ہیں، جس سے زبان اور ثقافت کے گم ہو جانے کے خطرات کم ہوتے ہیں۔ قدرتی آفات، بندشوں یا کرفیو کے دوران یہ چینل ہنگامی پیغامات، موسمی اطلاعات اور ضروری ہدایات دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ نوجوانوں کی رہنمائی، ذہنی صحت، تعلیم اور روزگار سے متعلق پروگرام ان کے لیے سمت متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔کمیونٹی ریڈیو کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ یہ عام لوگوں کو بولنے کا حق دیتے ہیں۔ خواتین، نوجوان، مزدور، کسان، اور وہ لوگ جن کی آواز اکثر نظرانداز ہو جاتی ہے،سب کو اپنی بات کہنے کا موقع ملتا ہے۔ اس ادارے نے امن سازی اور سماجی ہم آہنگی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے، مختلف طبقات کو گفتگو کی مشترکہ جگہ دے کر۔ اسی طرح مقامی فنون، لوک گیت، داستانیں اور خطے کی روایات بھی ریڈیو کے ذریعے نئی نسل تک پہنچتی ہیں، جس سے شناخت کا احساس مزید مضبوط ہوتا ہے۔وادی میں کمیونٹی ریڈیو کا روشن ترین نمونہ 88.8 ایف ایم شینا گلگت ریڈیو اسٹیشن ہے، جسے ”گریز کی دھڑکن“ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹیشن گریز اور ہمسایہ علاقوں کی شینا بولنے والی درد کمیونٹی کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارتی فوج کی جانب سے آپریشن صدبھاو ¿نا کے تحت قائم کیا گیا یہ ریڈیو چینل پہلی مرتبہ اس محروم خطے کو اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے لیے ایک مو ¿ثر پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ شینا زبان، جس کی جڑیں چھٹی اور ساتویں صدی تک جاتی ہیں، آج اپنی بقا کے چیلنج سے دوچار ہے۔ایسے میں 88.8 ایف ایم نئی نسل کو اپنی لسانی شناخت سے جوڑنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔
یہ ریڈیو اسٹیشن نہ صرف زبان کی احیا کا مرکز ہے بلکہ خواتین کی بااختیاریت، صحت، تعلیم، مقامی مسائل، زرعی رہنمائی اور ثقافتی اظہار کے لیے بھی مسلسل سرگرم ہے۔ دور دراز علاقوں میں جہاں میڈیا کی رسائی ہمیشہ محدود رہی، وہاں اس چینل نے درد شینا لوگوں کی آواز کو پہلی بار باقاعدہ شناخت دی ہے۔ مقامی فنون، لوک موسیقی، روایتی قصے اور اجتماعی دانش آج اسی اسٹیج سے دوبارہ زندہ ہو رہے ہیں۔
کمیونٹی ریڈیو صرف نشریاتی ادارے نہیں،یہ تبدیلی کے محرک ہیں۔ کشمیر میں ان کی موجودگی سماجی رشتوں کو مضبوط کرنے، گم ہوتی زبانوں کو بچانے، نوجوانوں کو نئی راہیں دکھانے اور محروم طبقات کو بااختیار کرنے میں مددگار ہے۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، کمیونٹی ریڈیو کے کردار کو بھی نئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہوگا، مگر اس کی اصل روح،مقامی لوگوں کی آواز بننا،ہمیشہ قائم رہنی چاہیے۔آج بھی اکثر لوگ ریڈیو کو ہی صحیح اور معتبر ذریع رسانی سمجھ رہے ہیں ۔
تحریر:ارشد رسول
قارئین موجودہ دور میں جہاں سوشل میڈیا نے پوری دنیا میں ایک دائرے میں سمیٹ لیا ہے تاہم آج بھی ریڈیو ایک اپنی اہمیت رکھتا ہے ۔ وادی کشمیر میں جہاں جغرافیائی دوری، محدود رسائی اور طویل تنازع نے سماجی روابط کو متاثر کیا ہے، ”وہاں کمیونٹی ریڈیو اسٹیشن“ایک بار پھر عوامی آواز کے طور پر ا ±بھر رہے ہیں۔ یہ ریڈیو چینل نہ تجارتی مفاد رکھتے ہیں اور نہ ہی قومی سطح کے نشریاتی اداروں جیسی یکطرفہ ترجیحات،بلکہ یہ وہ میڈیا ہیں جو اپنی کمیونٹی کے دل کی دھڑکن ہوتے ہیں، اسی زبان میں بولتے ہیں، وہی مسائل ا ±ٹھاتے ہیں اور وہی امید جگاتے ہیں جو لوگ خود محسوس کرتے ہیں۔کمیونٹی ریڈیو کا بنیادی مقصد مقامی لوگوں تک صحت، تعلیم، زراعت اور سرکاری خدمات سے متعلق معلومات پہنچانا، مقامی زبانوں اور ثقافت کا تحفظ کرنا، اور عوام کو نشریاتی عمل میں براہِ راست شریک کرنا ہے۔ وادی کے دور دراز علاقوں میں جہاں انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن ابھی بھی غیر یقینی ہیں، ریڈیو آج بھی معلومات کا وہ ذریعہ ہے جو ہر گھر تک پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں کمیونٹی ریڈیو نہ صرف سماجی ہم آہنگی کا ذریعہ ہے بلکہ ترقی اور آگاہی کی ایک مضبوط لکیر بھی کھینچ رہا ہے۔دور دراز علاقوں میں ریڈیو آج بھی لوگوں کی زبان ہے خاص کر کمونٹی ریڈیو تو لوگوں کے معاملات ، ثقافت اور کلچر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ ریڈیو چینل مقامی بولیوں،جیسے کشمیری، شینا اور پہاڑی،میں پروگرام نشر کرتے ہیں، جس سے زبان اور ثقافت کے گم ہو جانے کے خطرات کم ہوتے ہیں۔ قدرتی آفات، بندشوں یا کرفیو کے دوران یہ چینل ہنگامی پیغامات، موسمی اطلاعات اور ضروری ہدایات دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ نوجوانوں کی رہنمائی، ذہنی صحت، تعلیم اور روزگار سے متعلق پروگرام ان کے لیے سمت متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔کمیونٹی ریڈیو کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ یہ عام لوگوں کو بولنے کا حق دیتے ہیں۔ خواتین، نوجوان، مزدور، کسان، اور وہ لوگ جن کی آواز اکثر نظرانداز ہو جاتی ہے،سب کو اپنی بات کہنے کا موقع ملتا ہے۔ اس ادارے نے امن سازی اور سماجی ہم آہنگی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے، مختلف طبقات کو گفتگو کی مشترکہ جگہ دے کر۔ اسی طرح مقامی فنون، لوک گیت، داستانیں اور خطے کی روایات بھی ریڈیو کے ذریعے نئی نسل تک پہنچتی ہیں، جس سے شناخت کا احساس مزید مضبوط ہوتا ہے۔وادی میں کمیونٹی ریڈیو کا روشن ترین نمونہ 88.8 ایف ایم شینا گلگت ریڈیو اسٹیشن ہے، جسے ”گریز کی دھڑکن“ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹیشن گریز اور ہمسایہ علاقوں کی شینا بولنے والی درد کمیونٹی کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارتی فوج کی جانب سے آپریشن صدبھاو ¿نا کے تحت قائم کیا گیا یہ ریڈیو چینل پہلی مرتبہ اس محروم خطے کو اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے لیے ایک مو ¿ثر پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ شینا زبان، جس کی جڑیں چھٹی اور ساتویں صدی تک جاتی ہیں، آج اپنی بقا کے چیلنج سے دوچار ہے۔ایسے میں 88.8 ایف ایم نئی نسل کو اپنی لسانی شناخت سے جوڑنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔
یہ ریڈیو اسٹیشن نہ صرف زبان کی احیا کا مرکز ہے بلکہ خواتین کی بااختیاریت، صحت، تعلیم، مقامی مسائل، زرعی رہنمائی اور ثقافتی اظہار کے لیے بھی مسلسل سرگرم ہے۔ دور دراز علاقوں میں جہاں میڈیا کی رسائی ہمیشہ محدود رہی، وہاں اس چینل نے درد شینا لوگوں کی آواز کو پہلی بار باقاعدہ شناخت دی ہے۔ مقامی فنون، لوک موسیقی، روایتی قصے اور اجتماعی دانش آج اسی اسٹیج سے دوبارہ زندہ ہو رہے ہیں۔
کمیونٹی ریڈیو صرف نشریاتی ادارے نہیں،یہ تبدیلی کے محرک ہیں۔ کشمیر میں ان کی موجودگی سماجی رشتوں کو مضبوط کرنے، گم ہوتی زبانوں کو بچانے، نوجوانوں کو نئی راہیں دکھانے اور محروم طبقات کو بااختیار کرنے میں مددگار ہے۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، کمیونٹی ریڈیو کے کردار کو بھی نئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہوگا، مگر اس کی اصل روح،مقامی لوگوں کی آواز بننا،ہمیشہ قائم رہنی چاہیے۔آج بھی اکثر لوگ ریڈیو کو ہی صحیح اور معتبر ذریع رسانی سمجھ رہے ہیں ۔

