از قلم :ایڈوکیٹ صفا
کسی بھی ادارے کی کارکردگی، پیشہ ورانہ معیار اور عملی تیاری کا دار و مدار اس کے اہلکاروں کی مہارتوں پر ہوتا ہے، اور مسلح افواج کے لیے تو یہ ضرورت دوچند ہو جاتی ہے۔ تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجی، جدید جنگی حکمتِ عملی اور متحرک عملی ماحول نے اس امر کو ناگزیر بنا دیا ہے کہ اہلکار مسلسل سیکھتے رہیں، اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں اور بڑھتی ہوئی قومی و دفاعی ذمہ داریوں کے مطابق خود کو ڈھالتے رہیں۔ فوج کے لیے مہارتوں کی تربیت محض ایک پیشہ ورانہ تقاضا نہیں بلکہ قومی خدمت اور عسکری تیاری کا بنیادی ستون ہے۔مہارت سازی کا بنیادی مقصد نظری معلومات کو عملی صلاحیت میں تبدیل کرنا ہے۔ فوج میں یہ سفر ابتدائی تربیتی دور سے شروع ہو کر پوری سروس تک جاری رہتا ہے۔ سپاہیوں سے لے کر جے سی اوز اور این سی اوز تک، سب کو ہتھیاروں کے استعمال، فیلڈ کرافٹ، مواصلاتی نظام، لاجسٹکس، انجینئرنگ اور انتظامی امور میں جامع تربیت دی جاتی ہے۔ یہی مہارتیں انہیں مختلف اور مشکل حالات میں بھی مو ¿ثر کارکردگی کے قابل بناتی ہیں۔
بھارتی فوج میں ملٹی اسکلنگ اور کراس فنکشنل ٹریننگ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ایک سپاہی اپنی بنیادی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اضافی صلاحیتیں بھی سیکھتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر مختلف کردار ادا کر سکے۔ یہی طریقہ کار یونٹوں کے اندر لچک اور خود کفالت پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سگنل مین ڈیٹا کمیونیکیشن اور سائبر سکیورٹی کے اصول سیکھتا ہے، انجینئر جدید تعمیراتی تکنیک اور مشینری کے استعمال میں مہارت حاصل کرتا ہے، جبکہ میڈیکل اسسٹنٹ جدید ابتدائی طبی امداد اور ایواکیوایشن کے طریقوں میں تربیت پاتا ہے۔ ایسی متنوع صلاحیتیں براہ راست فوج کی مجموعی جنگی تیاری کو مضبوط کرتی ہیں۔تکنیکی مہارتوں کے ساتھ ساتھ فوج میں نرم مہارتوں کی نشوونما پر بھی بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ قیادت، نظم و ضبط، ٹیم ورک اور دباو ¿ میں فیصلہ سازی جیسے خصائص وہ بنیاد ہیں جو ایک سپاہی کو جنگی حالات میں بھی سنبھلے رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ رجمنٹل سینٹرز، مختلف کورز کے تربیتی اسکول اور فوجی ادارے ایسے کورسز منعقد کرتے ہیں جو پیشہ ورانہ استعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر بھی مرکوز ہوتے ہیں۔ یہی تربیت اہلکاروں میں وفاداری، جرات اور فرض شناسی جیسے فوجی اقدار راسخ کرتی ہے۔ٹیکنالوجی کی تیزرفتار ترقی نے فوج میں مہارتوں کی تربیت کا دائرہ مزید وسیع کر دیا ہے۔ جدید اسلحہ، نگرانی کے نظام اور ڈیجیٹل کمیونیکیشن نیٹ ورکس کا استعمال اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اہلکار مسلسل اپنی تکنیکی معلومات کو اپڈیٹ رکھیں۔ اس مقصد کے لیے ریفریشر کورسز، سمولیٹر پر مبنی تربیت اور ای لرننگ پلیٹ فارمز سے مدد لی جاتی ہے۔ فوج اپنے اہلکاروں کی تعلیمی اور تکنیکی قابلیت بڑھانے کے لیے اسپانسر شدہ پروگراموں کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے، جس سے فرد اور ادارہ دونوں ترقی کرتے ہیں۔
مہارتوں کی تربیت کا کردار میدانِ جنگ سے آگے بڑھ کر انسانی خدمت تک پھیلا ہوا ہے۔ سیلاب، زلزلہ یا کسی اور قدرتی آفت میں فوجی اہلکار اپنی انجینئرنگ، مواصلاتی اور لاجسٹک مہارتوں کی مدد سے ریسکیو اور ریلیف آپریشن مو ¿ثر انداز میں انجام دیتے ہیں۔ ان کی منصوبہ بندی، رابطہ کاری اور فوری ردعمل کی صلاحیتیں شہری انتظامیہ کے لیے بہت بڑا سہارا بنتی ہیں، اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ فوجی تربیت صرف جنگ کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کے لیے بھی ہے۔فوج میں مہارتوں کی تربیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ اہلکاروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے لیے بھی تیار کرتی ہے۔ نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ کارپوریشن اور ڈائریکٹوریٹ جنرل ری سیٹلمنٹ جیسے ادارے ریٹائرڈ فوجیوں کو ہنر مندی کے سرٹیفکیٹ اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرتے ہیں، تاکہ وہ شہری شعبے میں باعزت روزگار حاصل کر سکیں۔ یوں فوجی اپنی پوری زندگی ملک و معاشرے کے لیے اثاثہ بنے رہتے ہیں۔فوجی یونٹوں میں جدت اور خود سیکھنے کی روایت بھی قابلِ ذکر ہے۔ اہلکاروں کو عملی مسائل کے حل کے لیے نئی اختراعات پر کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ انوویشن سیلز اور تکنیکی ورکشاپس اس سوچ کو فروغ دیتی ہیں کہ بہتر حل ہمیشہ تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ یہی رویہ جدید دفاعی ضروریات کے مطابق ماحول ساز ثابت ہوتا ہے۔
یہاںیہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فوج میں مہارتوں کی تربیت ایک مسلسل، منظم اور مقصدی عمل ہے جو نہ صرف قابلیت بڑھاتا ہے بلکہ اعتماد اور کردار کو بھی مضبوط کرتا ہے۔ یہ نظام جنگی صلاحیت کو مستحکم کرتا ہے، تکنیکی ترقی سے ہم آہنگی پیدا کرتا ہے اور اہلکاروں کو عسکری و شہری دونوں ذمہ داریوں کے لیے تیار کرتا ہے۔ بھارتی فوج کی کامیابیاں اس جامع تربیتی نظام کی بہترین گواہی ہیں، اور یہی تسلسل ایک مضبوط، پیشہ ور اور مستقبل شناس فوج کی بنیاد ہے۔
از قلم :ایڈوکیٹ صفا
کسی بھی ادارے کی کارکردگی، پیشہ ورانہ معیار اور عملی تیاری کا دار و مدار اس کے اہلکاروں کی مہارتوں پر ہوتا ہے، اور مسلح افواج کے لیے تو یہ ضرورت دوچند ہو جاتی ہے۔ تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجی، جدید جنگی حکمتِ عملی اور متحرک عملی ماحول نے اس امر کو ناگزیر بنا دیا ہے کہ اہلکار مسلسل سیکھتے رہیں، اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں اور بڑھتی ہوئی قومی و دفاعی ذمہ داریوں کے مطابق خود کو ڈھالتے رہیں۔ فوج کے لیے مہارتوں کی تربیت محض ایک پیشہ ورانہ تقاضا نہیں بلکہ قومی خدمت اور عسکری تیاری کا بنیادی ستون ہے۔مہارت سازی کا بنیادی مقصد نظری معلومات کو عملی صلاحیت میں تبدیل کرنا ہے۔ فوج میں یہ سفر ابتدائی تربیتی دور سے شروع ہو کر پوری سروس تک جاری رہتا ہے۔ سپاہیوں سے لے کر جے سی اوز اور این سی اوز تک، سب کو ہتھیاروں کے استعمال، فیلڈ کرافٹ، مواصلاتی نظام، لاجسٹکس، انجینئرنگ اور انتظامی امور میں جامع تربیت دی جاتی ہے۔ یہی مہارتیں انہیں مختلف اور مشکل حالات میں بھی مو ¿ثر کارکردگی کے قابل بناتی ہیں۔
بھارتی فوج میں ملٹی اسکلنگ اور کراس فنکشنل ٹریننگ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ایک سپاہی اپنی بنیادی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اضافی صلاحیتیں بھی سیکھتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر مختلف کردار ادا کر سکے۔ یہی طریقہ کار یونٹوں کے اندر لچک اور خود کفالت پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سگنل مین ڈیٹا کمیونیکیشن اور سائبر سکیورٹی کے اصول سیکھتا ہے، انجینئر جدید تعمیراتی تکنیک اور مشینری کے استعمال میں مہارت حاصل کرتا ہے، جبکہ میڈیکل اسسٹنٹ جدید ابتدائی طبی امداد اور ایواکیوایشن کے طریقوں میں تربیت پاتا ہے۔ ایسی متنوع صلاحیتیں براہ راست فوج کی مجموعی جنگی تیاری کو مضبوط کرتی ہیں۔تکنیکی مہارتوں کے ساتھ ساتھ فوج میں نرم مہارتوں کی نشوونما پر بھی بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ قیادت، نظم و ضبط، ٹیم ورک اور دباو ¿ میں فیصلہ سازی جیسے خصائص وہ بنیاد ہیں جو ایک سپاہی کو جنگی حالات میں بھی سنبھلے رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ رجمنٹل سینٹرز، مختلف کورز کے تربیتی اسکول اور فوجی ادارے ایسے کورسز منعقد کرتے ہیں جو پیشہ ورانہ استعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر بھی مرکوز ہوتے ہیں۔ یہی تربیت اہلکاروں میں وفاداری، جرات اور فرض شناسی جیسے فوجی اقدار راسخ کرتی ہے۔ٹیکنالوجی کی تیزرفتار ترقی نے فوج میں مہارتوں کی تربیت کا دائرہ مزید وسیع کر دیا ہے۔ جدید اسلحہ، نگرانی کے نظام اور ڈیجیٹل کمیونیکیشن نیٹ ورکس کا استعمال اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اہلکار مسلسل اپنی تکنیکی معلومات کو اپڈیٹ رکھیں۔ اس مقصد کے لیے ریفریشر کورسز، سمولیٹر پر مبنی تربیت اور ای لرننگ پلیٹ فارمز سے مدد لی جاتی ہے۔ فوج اپنے اہلکاروں کی تعلیمی اور تکنیکی قابلیت بڑھانے کے لیے اسپانسر شدہ پروگراموں کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے، جس سے فرد اور ادارہ دونوں ترقی کرتے ہیں۔
مہارتوں کی تربیت کا کردار میدانِ جنگ سے آگے بڑھ کر انسانی خدمت تک پھیلا ہوا ہے۔ سیلاب، زلزلہ یا کسی اور قدرتی آفت میں فوجی اہلکار اپنی انجینئرنگ، مواصلاتی اور لاجسٹک مہارتوں کی مدد سے ریسکیو اور ریلیف آپریشن مو ¿ثر انداز میں انجام دیتے ہیں۔ ان کی منصوبہ بندی، رابطہ کاری اور فوری ردعمل کی صلاحیتیں شہری انتظامیہ کے لیے بہت بڑا سہارا بنتی ہیں، اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ فوجی تربیت صرف جنگ کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کے لیے بھی ہے۔فوج میں مہارتوں کی تربیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ اہلکاروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے لیے بھی تیار کرتی ہے۔ نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ کارپوریشن اور ڈائریکٹوریٹ جنرل ری سیٹلمنٹ جیسے ادارے ریٹائرڈ فوجیوں کو ہنر مندی کے سرٹیفکیٹ اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرتے ہیں، تاکہ وہ شہری شعبے میں باعزت روزگار حاصل کر سکیں۔ یوں فوجی اپنی پوری زندگی ملک و معاشرے کے لیے اثاثہ بنے رہتے ہیں۔فوجی یونٹوں میں جدت اور خود سیکھنے کی روایت بھی قابلِ ذکر ہے۔ اہلکاروں کو عملی مسائل کے حل کے لیے نئی اختراعات پر کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ انوویشن سیلز اور تکنیکی ورکشاپس اس سوچ کو فروغ دیتی ہیں کہ بہتر حل ہمیشہ تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ یہی رویہ جدید دفاعی ضروریات کے مطابق ماحول ساز ثابت ہوتا ہے۔
یہاںیہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فوج میں مہارتوں کی تربیت ایک مسلسل، منظم اور مقصدی عمل ہے جو نہ صرف قابلیت بڑھاتا ہے بلکہ اعتماد اور کردار کو بھی مضبوط کرتا ہے۔ یہ نظام جنگی صلاحیت کو مستحکم کرتا ہے، تکنیکی ترقی سے ہم آہنگی پیدا کرتا ہے اور اہلکاروں کو عسکری و شہری دونوں ذمہ داریوں کے لیے تیار کرتا ہے۔ بھارتی فوج کی کامیابیاں اس جامع تربیتی نظام کی بہترین گواہی ہیں، اور یہی تسلسل ایک مضبوط، پیشہ ور اور مستقبل شناس فوج کی بنیاد ہے۔
