ارشید رسول
قارئین جموں کشمیر خاص کر وادی کشمیر میں زراعت اور کاشتکاری نہ صرف آبادی کے ستر فیصدی کو روزگار فراہم کرتا ہے بلکہ یہ اہم ذریعہ معاش بھی ہے تاہم ماحولیاتی آلودگی ، موسمی تبدیلی اور بے وقت بارشیں ، طویل خشک سالی کی وجہ سے زرعی شعبہ کافی حد تک متاثر ہوچکا ہے ۔ جیسے کہ ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں زراعت کے چیلنجوں میں سب سے زیادہ خطرناک وہ عنصر ہے جس کا مقابلہ انسان ہمیشہ سے کرتا آیا ہے۔موسم کی بے رحمی۔ کبھی سردیوں کا بے وقت کہر فصلوں کو منجمد کر دیتا ہے، کبھی گرمی کی تیز لہر سبز پودوں کو جھلسا دیتی ہے، اور کبھی بارشیں اس شدت سے برستی ہیں کہ محنت کی ہوئی پوری زمین پل جھپکتے بہہ جاتی ہے۔ اسی طرح وادی کشمیر میں بھی موسمی بدلاﺅ زرعی سرگرمیوں کےلئے نقصان دن ثابت ہورہا ہے اوران بدلتے حالات نے کسانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں صرف تجربہ یا روایات ان کا ساتھ نہیں دے سکتی تھیں۔ اسی تناظر میں موسمی گرین ہاو ¿س آج کی زراعت میں ایک نئی امید کے طور پر ابھر رہا ہے،ایسا مضبوط اور سمجھ دار زرعی ہتھیار جو فطرت کی شدت کو قابو میں لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اب اس سے نمٹنے کےلئے موسمی گرین ہاوس کو متعارف کیا گیا ہے اورموسمی گرین ہاو ¿س عام طور پر پلاسٹک، پولی کاربونیٹ یا شیشے سے تیار کیے جاتے ہیں، مگر یہ صرف ایک ڈھانچہ نہیں، بلکہ پورا ایک موسمی نظام ہے۔ اس کا مقصد موسم کو بدلنا نہیں، بلکہ فصل کو اس نقصان سے بچانا ہے جو بے وقت ٹھنڈ، غیر معمولی بارش یا تیز ہوا لا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہار کی آمد سے پہلے بوائی کرنا ہو، خزاں کی ٹھنڈ سے فصل کو بچانا ہو، یا سردیوں میں محدود مقدار میں سبزی اگانی ہو،گرین ہاو ¿س ایک ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جس میں پودے بغیر رکاوٹ کے بڑھتے رہیں۔ملک کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر کے کاشتکاروں کی جانب سے بھی اب گرین ہاوس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ قارئین آج جب کسان اپنے کھیتوں میں قدم رکھتے ہیں تو ان کے ذہن میں سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ موسم کب پلٹا کھائے گا۔ مگر گرین ہاو ¿س کے اندر موجود پودے ان خدشات سے بڑی حد تک آزاد ہو جاتے ہیں۔ یہاں نہ بارش براہِ راست زمین پر پڑتی ہے، نہ ژالہ باری انہیں نقصان پہنچاتی ہے، نہ رات کے وقت اچانک درجہ حرارت گرنے سے ان کی نشوونما ر ±کتی ہے۔ گرین ہاو ¿س کے اندر حرارت، نمی اور روشنی ایک متوازن دائرے میں رہتی ہے اور یہی کنٹرول شدہ ماحول پیداوار کو بڑھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے پودے نہ صرف زیادہ صحت مند ہوتے ہیں بلکہ بازار میں بھی بہتر دام لاتے ہیں۔قارئین پانی کی کمی آج دنیا کے کئی خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ ایسے میں گرین ہاو ¿س پانی کے استعمال کو بھی تبدیل کر دیتا ہے۔ چونکہ بخارات بننے کی شرح کم ہوتی ہے اور پانی پودوں کی جڑوں تک براہِ راست پہنچایا جاتا ہے، اس لیے قطرہ قطرہ قیمتی بن جاتا ہے۔ جہاں کھلے کھیت میں روزانہ سینچائی ضروری ہوتی ہے، وہیں گرین ہاو ¿س میں کم مقدار میں بھی پودے اچھی طرح پروان چڑھتے ہیں۔ یہ فرق آج کے دور میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے، خصوصاً وہاں جہاں پانی کے وسائل سکڑتے جا رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ موسمی گرین ہاو ¿س صرف بڑے کسانوں تک محدود نہیں۔ چھوٹے گھرانوں کے باغات ہوں یا محدود زمین رکھنے والے کاشتکار،لو ٹنلز اور کولڈ فریم جیسی چھوٹی ساختیں بھی وہی فائدہ فراہم کرتی ہیں جن کا تجربہ بڑے گرین ہاو ¿سز میں کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف بڑے تجارتی منصوبے، جیسے وسیع ہائی ٹنلز، جدید زراعت کو نئی سمت دے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ انقلابی تصور سولر گرین ہاو ¿س کا ہے، جو اپنے اندر سورج کی حرارت جمع کر کے سرد ترین علاقوں میں بھی فصل اگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ بھی بغیر اضافی ہیٹنگ کے۔
دنیا بھر میں آب و ہوا کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں، اس نے زراعت کو غیر معمولی دباو ¿ میں ڈال دیا ہے۔ کبھی 50 برس میں آنے والی موسمی آفت اب ہر دو تین سال میں سر اٹھا رہی ہے۔ فصلوں کی ناکامی، غذائی قلت، اور زرعی معیشت کی کمزور ہوتی بنیادیں ایک عالمی مسئلہ بنتی جا رہی ہیں۔ وادی کشمیر میں بھی اس طرح کی تبدیلی کا مشاہدہ کیا جارہا ہے اور کبھی سخت سردی اور کبھی سخت گرمی ، کبھی طویل خشک سالی اور کبھی شدید اور متواتر بارشیں ۔ ایسے ماحول میں موسمی گرین ہاو ¿س ایک دفاعی دیوار کی طرح کھڑا نظر آتا ہے۔ یہ صرف ایک ڈھانچہ نہیں بلکہ زرعی بقا کا ایک مو ¿ثر طریقہ ہے جو کسان کو قدرت کے اچانک حملوں کے مقابلے میں مضبوط بناتا ہے۔
اگر زراعت کو مستقبل کے بحرانوں سے بچانا ہے، تو بارشوں، آفتوں اور حرارت کے اتار چڑھاو ¿ سے بے نیاز ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو فصل کو تحفظ بھی دے اور پیداوار بھی بڑھائے۔ موسمی گرین ہاو ¿س اسی فلسفے پر کھڑا ہے۔ ٹیکنالوجی کے سستے ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا استعمال بڑھ رہا ہے اور توقع یہی ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ جدید کاشتکاری کا لازمی حصہ بن جائے گا۔
موسم چاہے جتنا بدل جائے، کسان کا ارادہ نہیں بدلتا۔ موسمی گرین ہاو ¿س اسی ارادے کی نئی شکل ہے،یہ یاد دہانی کہ کسان صرف موسم پر نہیں، علم، ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی پر بھی بھروسہ کر سکتا ہے۔ یہی سوچ زراعت کو آئندہ برسوں میں نہ صرف محفوظ بلکہ زیادہ مضبوط بنا سکتی ہے۔اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کاشتکاروں کو اس کے بارے میں جانکاری دی جائے تاکہ وہ موسمی صورتحال کے بیچ اپنی زرعی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں۔

