از قلم :خضر محمد
قارئین وادی کشمیر میں گزشتہ تین ساڑھے تین دہائیوں کے دوران گن کلچر کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان، بچے ، بوڑھے ، مرد ، خواتین فوت ہوئے یہاں تک کہ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ۔ اس رجحان میں اگرچہ بے حد کمی واقع ہوئی تاہم اب تک دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس کے شکار ہوئے ہیں ۔ اس بیچ “قلم اٹھاو ¿، ہتھیار نہیں” ایک ایسا پیغام ہے جو صدیوں کی دانائی، تاریخ کے تجربے اور انسانی تہذیب کے سفر کا حاصل ہے۔ یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ وہ روشن چراغ ہے جو جنگوں، نفرتوں اور خونریزی کے اندھیروں میں بھی روشنی کی مانند جھلملاتا رہتا ہے۔ دنیا کے ہر دور میں جب انسان طاقت کے نشے میں ڈوب کر دوسروں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے، جب خون کی بو مکالمے کی خوشبو پر بھاری پڑنے لگتی ہے، تب یہ پیغام انسانیت کے زخموں پر نرم ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ اصل طاقت تباہی میں نہیں، تعمیر میں ہے؛ اصل جیت گولی سے نہیں، سوچ سے ہوتی ہے۔
قلم انسان کے سفرِ آگہی کا پہلا زینہ ہے۔ اسی سے تعلیم کا دروازہ کھلتا ہے، اسی سے انسان سوچنے، سمجھنے اور سوال کرنے کے قابل بنتا ہے۔ جب کوئی فرد قلم تھام لیتا ہے تو وہ صرف لکھنا نہیں سیکھتا بلکہ اپنی شخصیت کو نکھارتا ہے، اپنے اندر چھپا چراغ روشن کرتا ہے اور اپنی اور دوسروں کی تقدیر بدلنے کا ہنر اختیار کر لیتا ہے۔ تعلیم انسان میں بردباری، سمجھ داری، ہمدردی اور انصاف پسندی پیدا کرتی ہے۔ وہ معاشرے کو جوڑتا ہے، خاندانوں میں محبت بانٹتا ہے اور اجتماع میں تحمل کی فضا قائم کرتا ہے۔ اس کے برعکس ہتھیار صرف خوف پیدا کرتے ہیں، بدگمانی کو بڑھاتے ہیں اور معاشرے کے رشتوں میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں۔قارئین دنیا کی بڑی تبدیلیاں ہمیشہ قلم سے جنم لیتی رہی ہیں۔ بڑے بڑے مفکر، شاعر، دانشور اور اصلاح پسند وہ لوگ تھے جنہوں نے دلوں پر قبضہ کرنے کے لیے الفاظ کا سہارا لیا، نہ کہ بارود کا۔ غلامی کے خلاف بیداری بھی کتابوں اور تقریروں سے پھوٹی، ظالم حکومتیں بھی تحریروں کے سامنے نہ ٹھہر سکیں، اور قوموں کی سمت بھی انہی لوگوں نے متعین کی جن کے ہاتھ میں قلم تھا، نہ کہ ہتھیار۔ وہ ریاستیں جنہوں نے علم کے چراغ روشن کیے—کتب خانوں، درسگاہوں اور تحقیق گاہوں کو پروان چڑھایا—وہی ترقی یافتہ، پ ±رامن اور مضبوط ہوئیں۔ جبکہ وہ ممالک جو اپنی طاقت کا مرکز صرف جنگی قوت کو سمجھتے رہے، رفتہ رفتہ کمزور پڑتے گئے، ان کی دولت تباہ ہوئی، ان کی نوجوان نسلیں بکھر گئیں، اور ان کی شناخت مٹتی چلی گئی۔
ہتھیار معاشرے میں زخموں کا سلسلہ بڑھاتے ہیں۔ ایک گولی کسی ایک جسم کو ہی نہیں، بلکہ کئی دلوں کو زخمی کرتی ہے۔ جب طاقت مکالمے کی جگہ لے لیتی ہے، تو اعتماد ٹوٹ جاتا ہے، دشمنیاں نسلوں تک منتقل ہو جاتی ہیں، اور خوف روزمرہ کی زندگی میں بس جاتا ہے۔ نوجوان جو روشن مستقبل کے معمار بن سکتے تھے، وہ مایوسی اور انتقام کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ ان کے خواب ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کا سفر ایک ایسے اندھیرے میں بدل جاتا ہے جہاں نہ سکھ ہوتا ہے نہ آخرت۔ طاقت عارضی تسکین دیتی ہے، لیکن تعلیم دیرپا عزت عطا کرتی ہے۔
قلم اس کے برعکس زندگی میں امکانات کے دروازے کھولتا ہے۔ ہر کامیابی، ہر ایجاد، ہر نئی سوچ اور ہر عظیم کارنامہ ابتدا میں چند سطور کی شکل میں جنم لیتا ہے۔ یہ قلم ہی ہے جو انسان کو وہ قوت دیتا ہے کہ وہ زمین سے آسمان تک اپنا سفینہ تعمیر کر سکے۔ سکول میں بیٹھا ہوا ایک بچہ جب پہلا لفظ لکھتا ہے تو دراصل وہ اپنی تکمیل کا پہلا قدم اٹھاتا ہے۔ یہی بچہ آگے چل کر معالج بنتا ہے، معمار بنتا ہے، استاد بنتا ہے، رہنما بنتا ہے، اور اپنے وطن کا سہارا بنتا ہے۔ اس کی قلم کی لکیر مستقبل کے نقشے بناتی ہے، قوموں کو روشنی دیتی ہے، اور انسانیت کو نئی سمت دکھاتی ہے۔
جہاں تعلیم کی کمی ہوتی ہے، وہاں ناامیدی جنم لیتی ہے۔ اور ناامیدی وہ مٹی ہے جس میں تشدد کا بیج آسانی سے پھوٹ پڑتا ہے۔ وہ نوجوان جنہیں بہتر تعلیم، روزگار یا رہنمائی نہ مل سکے، وہ جلد ایسی راہوں کی طرف بڑھ جاتے ہیں جہاں انہیں وقتی طاقت تو نظر آتی ہے لیکن زندگی کا سکون ہمیشہ کے لیے چھن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانا لوگ تعلیم کو ظلم، انتہا پسندی اور جرم کے خلاف سب سے بڑی ڈھال کہتے ہیں۔ ایک باشعور نوجوان کبھی کسی کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نہیں بنتا۔ وہ سوچتا ہے، سمجھتا ہے اور صحیح راستہ چنتا ہے۔
دنیا کے بڑے اختلافات اور جنگیں بھی آخرکار میز پر رکھی تحریروں سے ہی ختم ہوتی ہیں۔ آئین، قانون، معاہدے، اصول،سب قلم سے وجود میں آتے ہیں۔ خاندانوں کے جھگڑے بھی بات چیت سے ختم ہوتے ہیں، قوموں کے تنازعات بھی مکالمے سے سلجھتے ہیں۔ قلم انسان کو کہنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے، دوسروں کو سمجھنے کا ہنر دیتا ہے اور اختلاف میں بھی شائستگی قائم رکھتا ہے۔ ہتھیار خاموشی پھیلاتے ہیں، قلم گفتگو کو زندہ رکھتا ہے۔ترقی کا سفر بھی قلم کے بغیر ممکن نہیں۔ دواو ¿ں سے لے کر زراعت تک، صنعتوں سے لے کر علم و ادب تک، خلا کی کھوج سے لے کر ذہنی صحت تک،ہر قدم قلم کے سہارے اٹھایا جاتا ہے۔ جو قومیں اپنے نوجوانوں کے ذہنوں کو جِلا دیتی ہیں وہی دنیا کی رہنما بنتی ہیں۔ وہی ممالک دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں، وہی امن کے محافظ بنتے ہیں اور وہی دنیا میں عزت پاتے ہیں۔نوجوان کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں قلم دے کر ہم صرف ایک بچے کی نہیں بلکہ پوری سوسائٹی کی تقدیر بہتر کرتے ہیں۔ تعلیم انہیں باشعور، مضبوط، بیدار اور باوقار شہری بناتی ہے۔ وہ اپنے خاندان، اپنے لوگوں اور اپنے خطے کے لیے روشنی بن جاتے ہیں۔ قلم انہیں وہ طاقت دیتی ہے جو ہتھیار کبھی نہیں دے سکتے—سوچنے کی طاقت، سمجھنے کی طاقت، اور صحیح فیصلہ کرنے کی طاقت۔
خواتین کی تعلیم بھی اسی پیغام کی مرکزی روح ہے۔ جب ایک عورت قلم اٹھاتی ہے تو گویا وہ پورے گھر کو روشنی سے بھر دیتی ہے۔ ایک پڑھی لکھی ماں بہتر نسل کی بنیاد رکھتی ہے، صحت مند معاشرہ تشکیل دیتی ہے اور آنے والی نسلوں میں شعور کی روشنی منتقل کرتی ہے۔ جن معاشروں نے عورت کو تعلیم دی، انہیں کبھی زوال نے گھیر نہیں لیا۔
قارئین حکومتی اداروں کی ذمہ داری بھی بہت اہم ہے۔ اگر حکومتیں اسکولوں کو مضبوط کریں، دور دراز علاقوں میں درسگاہیں قائم کریں، اساتذہ کو تربیت دیں، نوجوانوں کو روزگار اور ہنر کے مواقع فراہم کریں، اور علم کو ہر شخص کی دسترس میں لے آئیں، تو قوموں کا مستقبل نئی روشنی میں چمکنے لگتا ہے۔ ترقی کے راستے کھل جاتے ہیں، جرائم کی شرح گھٹ جاتی ہے، اور معاشروں میں امن کی فضا قائم ہوتی ہے۔
“قلم اٹھاو ¿، ہتھیار نہیں” انسانیت کا سب سے خوبصورت اعلان ہے۔ قلم عزت ہے، ہتھیار خوف؛ قلم زندگی ہے، ہتھیار موت؛ قلم امید ہے، ہتھیار اندھیرا۔ جو شخص قلم اٹھاتا ہے وہ پل بناتا ہے، راستے کھولتا ہے، اور مستقبل تراشتا ہے۔
اور جو قوم اپنے نوجوانوں کو قلم پکڑاتی ہے، وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
از قلم :خضر محمد
قارئین وادی کشمیر میں گزشتہ تین ساڑھے تین دہائیوں کے دوران گن کلچر کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان، بچے ، بوڑھے ، مرد ، خواتین فوت ہوئے یہاں تک کہ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ۔ اس رجحان میں اگرچہ بے حد کمی واقع ہوئی تاہم اب تک دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس کے شکار ہوئے ہیں ۔ اس بیچ “قلم اٹھاو ¿، ہتھیار نہیں” ایک ایسا پیغام ہے جو صدیوں کی دانائی، تاریخ کے تجربے اور انسانی تہذیب کے سفر کا حاصل ہے۔ یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ وہ روشن چراغ ہے جو جنگوں، نفرتوں اور خونریزی کے اندھیروں میں بھی روشنی کی مانند جھلملاتا رہتا ہے۔ دنیا کے ہر دور میں جب انسان طاقت کے نشے میں ڈوب کر دوسروں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے، جب خون کی بو مکالمے کی خوشبو پر بھاری پڑنے لگتی ہے، تب یہ پیغام انسانیت کے زخموں پر نرم ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ اصل طاقت تباہی میں نہیں، تعمیر میں ہے؛ اصل جیت گولی سے نہیں، سوچ سے ہوتی ہے۔
قلم انسان کے سفرِ آگہی کا پہلا زینہ ہے۔ اسی سے تعلیم کا دروازہ کھلتا ہے، اسی سے انسان سوچنے، سمجھنے اور سوال کرنے کے قابل بنتا ہے۔ جب کوئی فرد قلم تھام لیتا ہے تو وہ صرف لکھنا نہیں سیکھتا بلکہ اپنی شخصیت کو نکھارتا ہے، اپنے اندر چھپا چراغ روشن کرتا ہے اور اپنی اور دوسروں کی تقدیر بدلنے کا ہنر اختیار کر لیتا ہے۔ تعلیم انسان میں بردباری، سمجھ داری، ہمدردی اور انصاف پسندی پیدا کرتی ہے۔ وہ معاشرے کو جوڑتا ہے، خاندانوں میں محبت بانٹتا ہے اور اجتماع میں تحمل کی فضا قائم کرتا ہے۔ اس کے برعکس ہتھیار صرف خوف پیدا کرتے ہیں، بدگمانی کو بڑھاتے ہیں اور معاشرے کے رشتوں میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں۔قارئین دنیا کی بڑی تبدیلیاں ہمیشہ قلم سے جنم لیتی رہی ہیں۔ بڑے بڑے مفکر، شاعر، دانشور اور اصلاح پسند وہ لوگ تھے جنہوں نے دلوں پر قبضہ کرنے کے لیے الفاظ کا سہارا لیا، نہ کہ بارود کا۔ غلامی کے خلاف بیداری بھی کتابوں اور تقریروں سے پھوٹی، ظالم حکومتیں بھی تحریروں کے سامنے نہ ٹھہر سکیں، اور قوموں کی سمت بھی انہی لوگوں نے متعین کی جن کے ہاتھ میں قلم تھا، نہ کہ ہتھیار۔ وہ ریاستیں جنہوں نے علم کے چراغ روشن کیے—کتب خانوں، درسگاہوں اور تحقیق گاہوں کو پروان چڑھایا—وہی ترقی یافتہ، پ ±رامن اور مضبوط ہوئیں۔ جبکہ وہ ممالک جو اپنی طاقت کا مرکز صرف جنگی قوت کو سمجھتے رہے، رفتہ رفتہ کمزور پڑتے گئے، ان کی دولت تباہ ہوئی، ان کی نوجوان نسلیں بکھر گئیں، اور ان کی شناخت مٹتی چلی گئی۔
ہتھیار معاشرے میں زخموں کا سلسلہ بڑھاتے ہیں۔ ایک گولی کسی ایک جسم کو ہی نہیں، بلکہ کئی دلوں کو زخمی کرتی ہے۔ جب طاقت مکالمے کی جگہ لے لیتی ہے، تو اعتماد ٹوٹ جاتا ہے، دشمنیاں نسلوں تک منتقل ہو جاتی ہیں، اور خوف روزمرہ کی زندگی میں بس جاتا ہے۔ نوجوان جو روشن مستقبل کے معمار بن سکتے تھے، وہ مایوسی اور انتقام کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ ان کے خواب ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کا سفر ایک ایسے اندھیرے میں بدل جاتا ہے جہاں نہ سکھ ہوتا ہے نہ آخرت۔ طاقت عارضی تسکین دیتی ہے، لیکن تعلیم دیرپا عزت عطا کرتی ہے۔
قلم اس کے برعکس زندگی میں امکانات کے دروازے کھولتا ہے۔ ہر کامیابی، ہر ایجاد، ہر نئی سوچ اور ہر عظیم کارنامہ ابتدا میں چند سطور کی شکل میں جنم لیتا ہے۔ یہ قلم ہی ہے جو انسان کو وہ قوت دیتا ہے کہ وہ زمین سے آسمان تک اپنا سفینہ تعمیر کر سکے۔ سکول میں بیٹھا ہوا ایک بچہ جب پہلا لفظ لکھتا ہے تو دراصل وہ اپنی تکمیل کا پہلا قدم اٹھاتا ہے۔ یہی بچہ آگے چل کر معالج بنتا ہے، معمار بنتا ہے، استاد بنتا ہے، رہنما بنتا ہے، اور اپنے وطن کا سہارا بنتا ہے۔ اس کی قلم کی لکیر مستقبل کے نقشے بناتی ہے، قوموں کو روشنی دیتی ہے، اور انسانیت کو نئی سمت دکھاتی ہے۔
جہاں تعلیم کی کمی ہوتی ہے، وہاں ناامیدی جنم لیتی ہے۔ اور ناامیدی وہ مٹی ہے جس میں تشدد کا بیج آسانی سے پھوٹ پڑتا ہے۔ وہ نوجوان جنہیں بہتر تعلیم، روزگار یا رہنمائی نہ مل سکے، وہ جلد ایسی راہوں کی طرف بڑھ جاتے ہیں جہاں انہیں وقتی طاقت تو نظر آتی ہے لیکن زندگی کا سکون ہمیشہ کے لیے چھن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانا لوگ تعلیم کو ظلم، انتہا پسندی اور جرم کے خلاف سب سے بڑی ڈھال کہتے ہیں۔ ایک باشعور نوجوان کبھی کسی کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نہیں بنتا۔ وہ سوچتا ہے، سمجھتا ہے اور صحیح راستہ چنتا ہے۔
دنیا کے بڑے اختلافات اور جنگیں بھی آخرکار میز پر رکھی تحریروں سے ہی ختم ہوتی ہیں۔ آئین، قانون، معاہدے، اصول،سب قلم سے وجود میں آتے ہیں۔ خاندانوں کے جھگڑے بھی بات چیت سے ختم ہوتے ہیں، قوموں کے تنازعات بھی مکالمے سے سلجھتے ہیں۔ قلم انسان کو کہنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے، دوسروں کو سمجھنے کا ہنر دیتا ہے اور اختلاف میں بھی شائستگی قائم رکھتا ہے۔ ہتھیار خاموشی پھیلاتے ہیں، قلم گفتگو کو زندہ رکھتا ہے۔ترقی کا سفر بھی قلم کے بغیر ممکن نہیں۔ دواو ¿ں سے لے کر زراعت تک، صنعتوں سے لے کر علم و ادب تک، خلا کی کھوج سے لے کر ذہنی صحت تک،ہر قدم قلم کے سہارے اٹھایا جاتا ہے۔ جو قومیں اپنے نوجوانوں کے ذہنوں کو جِلا دیتی ہیں وہی دنیا کی رہنما بنتی ہیں۔ وہی ممالک دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں، وہی امن کے محافظ بنتے ہیں اور وہی دنیا میں عزت پاتے ہیں۔نوجوان کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں قلم دے کر ہم صرف ایک بچے کی نہیں بلکہ پوری سوسائٹی کی تقدیر بہتر کرتے ہیں۔ تعلیم انہیں باشعور، مضبوط، بیدار اور باوقار شہری بناتی ہے۔ وہ اپنے خاندان، اپنے لوگوں اور اپنے خطے کے لیے روشنی بن جاتے ہیں۔ قلم انہیں وہ طاقت دیتی ہے جو ہتھیار کبھی نہیں دے سکتے—سوچنے کی طاقت، سمجھنے کی طاقت، اور صحیح فیصلہ کرنے کی طاقت۔
خواتین کی تعلیم بھی اسی پیغام کی مرکزی روح ہے۔ جب ایک عورت قلم اٹھاتی ہے تو گویا وہ پورے گھر کو روشنی سے بھر دیتی ہے۔ ایک پڑھی لکھی ماں بہتر نسل کی بنیاد رکھتی ہے، صحت مند معاشرہ تشکیل دیتی ہے اور آنے والی نسلوں میں شعور کی روشنی منتقل کرتی ہے۔ جن معاشروں نے عورت کو تعلیم دی، انہیں کبھی زوال نے گھیر نہیں لیا۔
قارئین حکومتی اداروں کی ذمہ داری بھی بہت اہم ہے۔ اگر حکومتیں اسکولوں کو مضبوط کریں، دور دراز علاقوں میں درسگاہیں قائم کریں، اساتذہ کو تربیت دیں، نوجوانوں کو روزگار اور ہنر کے مواقع فراہم کریں، اور علم کو ہر شخص کی دسترس میں لے آئیں، تو قوموں کا مستقبل نئی روشنی میں چمکنے لگتا ہے۔ ترقی کے راستے کھل جاتے ہیں، جرائم کی شرح گھٹ جاتی ہے، اور معاشروں میں امن کی فضا قائم ہوتی ہے۔
“قلم اٹھاو ¿، ہتھیار نہیں” انسانیت کا سب سے خوبصورت اعلان ہے۔ قلم عزت ہے، ہتھیار خوف؛ قلم زندگی ہے، ہتھیار موت؛ قلم امید ہے، ہتھیار اندھیرا۔ جو شخص قلم اٹھاتا ہے وہ پل بناتا ہے، راستے کھولتا ہے، اور مستقبل تراشتا ہے۔
اور جو قوم اپنے نوجوانوں کو قلم پکڑاتی ہے، وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
