• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Saturday, December 13, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home اردو خبریں

کشمیر میں منشیات کا بڑھتا سایہ

گھر، والدین اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری

Advocate Safa by Advocate Safa
December 9, 2025
in اردو خبریں
A A
The Silent Epidemic: How Drug Abuse is Ravaging Kashmir’s Youth While Authorities Turn a Blind Eye
FacebookTwitterWhatsapp

تحریر:ایڈوکیٹ صفا

اسسٹنٹ ایل اے ڈی سی ، ڈی اے ایل ایس اے

قارئین کشمیر کی وادی ہمیشہ اپنی قدرتی خوبصورتی، ثقافتی رنگوں اور صدیوں پرانی روایات کے باعث دنیا بھر میں پہچانی جاتی ہے۔ لیکن انہی پہاڑوں کے دامن میں پچھلے چند برسوں سے خاموشی کے ساتھ ایک ایسا طوفان جنم لے رہا ہے جو کسی دھماکے کی آواز نہیں رکھتا مگر اس کی تباہی کہیں زیادہ گہری ہے۔ منشیات کی لعنت ایک سائے کی طرح بڑھتی ہوئی نسلِ نو کو اپنے گھیرے میں لے رہی ہے۔ یہ مسئلہ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ پورے معاشرے، ہر گلی، ہر اسکول اور ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ اور ایسی دستک جو نظرانداز کرنے کی گنجائش نہیں رکھتی۔

یہ حقیقت تلخ ہے کہ کشمیر پہلے ہی کئی دہائیوں سے سیاسی تنازعات، بے یقینی، نفسیاتی دباو ¿ اور معاشی اتار چڑھاو ¿ کا سامنا کرتا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں نوجوان سب سے زیادہ حساس اور سب سے زیادہ کمزور ہوتے ہیں۔ جب انہیں رہنمائی، تحفظ اور مثبت مواقع کم ملیں، تو غلط راستوں کے دروازے خود کھلنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منشیات کا بڑھتا اثر اب ایک سنگین سماجی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے، اور اس بحران کو روکنے کے لیے سب سے پہلی ذمہ داری گھر سے شروع ہوتی ہے۔قارئین گھر وہ جگہ ہے جہاں بچہ دنیا کو سمجھتا ہے، اپنے خوف بیان کرتا ہے، اپنی امیدیں ب ±نتا ہے اور اپنی شخصیت تراشتا ہے۔ کشمیر جیسے معاشرے میں جہاں خاندان بڑے اور رشتے گہرے ہوتے ہیں، والدین کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ ایک ماں کے بدلتے رنگِ چہرہ، ایک باپ کی خاموشی، یا گھر میں بڑھتی دوریاں،یہ سب بچوں کی ذہنی کیفیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ آج کے دور میں وہ والدین کامیاب ہیں جو بچوں کی زندگی میں صرف نظم و ضبط نافذ نہیں کرتے بلکہ ان کے دوست بن کر ان کے ذہنی سفر کا حصہ بنتے ہیں۔ ایسے والدین ہی وہ چھوٹے مگر اہم اشارے محسوس کر لیتے ہیں جو منشیات کی طرف بڑھتے قدموں کی خبر دیتے ہیں۔ جیسے اچانک مایوسی، پڑھائی سے لاتعلقی، راتوں کو جاگنا، پیسے کی غیر ضروری طلب، یا ایسے لوگوں کی صحبت جو پہلے کبھی دکھائی نہ دی ہو۔قارئین کو بتادیں کہ لیکن صرف نگرانی کافی نہیں ہوتی۔ بچوں کے ساتھ روزمرہ گفتگو، ان کی الجھنیں سننا، انہیں غلطی کرنے کے باوجود یہ یقین دینا کہ گھر ان کے لیے محفوظ جگہ ہے ۔یہ سب عناصر مل کر وہ حصار کھڑا کرتے ہیں جسے توڑ کر منشیات تک پہنچنا آسان نہیں رہتا۔ گھر کے ماحول میں اعتماد کی کمی، سختی کا غلبہ اور مکالمے کی کمی، یہ تین چیزیں بچوں کو چپ کرواتی ہیں، اور وہ خاموشی ہی منشیات کا پہلا دروازہ کھولتی ہے۔والدین کے ساتھ ساتھ پورا معاشرہ بھی اس جنگ کا مستقل حصہ ہے۔ کشمیر جیسے خطے میں کمیونٹی کا کردار محض رسوم یا رواج تک محدود نہیں، بلکہ یہاں لوگوں کی زندگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ گاو ¿ں کا بزرگ، محلے کا امام، مدرسے کا استاد، کالج کا لیکچرر، یا بازار میں بیٹھا عام دکاندار—ہر کوئی نوجوانوں کے رویوں میں تبدیلی کو محسوس کرتا ہے۔ یہی اجتماعی شعور اصل میں معاشرے کی وہ قوت ہے جو کسی بھی بگاڑ کو بروقت پہچان سکتی ہے۔

سول انتظامیہ اس پورے نظام کی بنیاد ہے۔ پالیسی سازی سے لے کر ری ہیبیلیٹیشن مراکز تک، آگاہی مہمات سے لے کر سکولوں اور کالجوں میں تعلیمی پروگراموں تک،یہ سب ریاستی ذمہ داریوں کا حصہ ہیں۔ اگر یہ مہمات صرف سرکاری کاغذوں میں رہیں تو فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب ایک ڈاکٹر گاو ¿ں کے اسکول میں جا کر بچوں کو حقیقت بتاتا ہے، جب محکمہ صحت دیہی خواتین کے گروپوں کے ساتھ آگاہی نشستیں کرتا ہے، جب ضلعی انتظامیہ ایک نوجوان کے لیے کونسلنگ کا بندوبست کرتی ہے۔تو اس کا اثر پورے معاشرے میں محسوس ہوتا ہے۔قارئین منشیات کا کاروبار محض ایک معاشرتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک منظم مجرمانہ نیٹ ورک ہے، جسے توڑنے کے لیے پولیس کا کردار بنیادی ہے۔ جموں و کشمیر پولیس نہ صرف اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے بلکہ کمیونٹی انگیجمنٹ کے ذریعے عوام کو خود اس مہم کا حصہ بنا رہی ہے۔ اسکول وزٹس، یوتھ کنیکٹ پروگرام، اور ماو ¿ں کے ساتھ خصوصی نشستیں وہ پہلو ہیں جو اس مسئلے کو محض جرم سے ہٹا کر انسانی مسئلہ بناتے ہیں۔اور یہی اصل تبدیلی ہے۔ جب ایک نوجوان کو یہ احساس ہو جائے کہ پولیس اسے مجرم نہیں سمجھ رہی بلکہ اسے بچانے کی کوشش کر رہی ہے، تو وہ خود بھی مدد کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے۔اسی طرح مذہبی شخصیات کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ کشمیر میں مسجد صرف عبادت کی جگہ نہیں بلکہ سماجی رہنمائی کا مرکز بھی ہے۔ ایک امام کا منبر سے دیا گیا پیغام، ایک بزرگ کا مسجد کے باہر نوجوان کو دیا گیا مشورہ، یا ایک مذہبی اسکالر کی تقریر—یہ سب دلوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ منشیات کے خلاف لڑائی میں جب مذہبی اور سماجی آوازیں انتظامیہ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں تو پیغام کہیں زیادہ مضبوط، قابلِ قبول اور اثر انگیز بن جاتا ہے۔

تعلیمی ادارے نوجوانوں کے مستقبل کا سب سے مضبوط ستون ہیں۔ جب اسکول اور کالج صرف کتابی تعلیم تک محدود نہیں رہتے بلکہ نوجوانوں کے احساسات، اضطراب، دباو ¿ اور ذہنی تھکن کو بھی سمجھتے ہیں، تو اصل میں وہ نسل کو محفوظ بنا رہے ہوتے ہیں۔ ورکشاپس، انٹرایکٹو ڈسکشن، کھیلوں کی سرگرمیاں، آرٹ اور سماجی پروجیکٹس نوجوانوں میں وہ خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں جو انہیں غلط راستوں سے دور رکھتی ہے۔لیکن سب سے اہم پہلو وہ ہے جو اکثر نظرانداز ہو جاتا ہے۔قارئین وادی کشمیر میں محلہ کلچر ابھی زندہ ہے۔ پڑوسی ایک دوسرے کو جانتے ہیں، بازار میں بیٹھا دکاندار روزانہ نوجوانوں کو دیکھتا ہے، کرکٹ کھیلنے والے گروپ ایک دوسرے کی حالت محسوس کرتے ہیں۔ یہی لوگ وہ پہلے فرد ہوتے ہیں جو منشیات کے ابتدائی اشارے دیکھتے ہیں۔ اس لیے انہیں اعتماد دینا ضروری ہے کہ اطلاع دینا بدنامی نہیں بلکہ بچاو ¿ ہے۔ یہ سمجھانا ضروری ہے کہ مقصد کسی کو سزا دلوانا نہیں بلکہ وقت سے پہلے بچا لینا ہے۔کشمیر میں منشیات کا مسئلہ صرف قانون کا نہیں، صرف والدین کا نہیں، صرف انتظامیہ کا نہیں،یہ پورے معاشرے کا امتحان ہے۔ ایک خاندان، ایک گاو ¿ں، ایک اسکول، ایک پولیس اسٹیشن، ایک مسجد، ایک استاد،سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوں تو ہی یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے چلائے جانے والے پروگرام، جیسے ، نوجوانوں کے لیے تعلیمی و تفریحی سرگرمیاں، وہ مثبت سمت فراہم کرتی ہیں جس کی نوجوانوں کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔کشمیر کی وادی اگر منشیات کے اس بڑھتے طوفان سے بچنا چاہتی ہے تو اسے اپنی پوری روح کے ساتھ متحد ہونا ہوگا۔ ایک ہاتھ والدین کا، ایک معاشرے کا، ایک پولیس کا، ایک انتظامیہ کا، اور ایک مذہبی و تعلیمی رہنماو ¿ں کاجب سب ہاتھ مل کر ایک ڈھال بنائیں گے تب ہی وادی کے نوجوان محفوظ رہیں گے۔ کیونکہ یہ جنگ گولیوں سے نہیں جیتی جاسکتی، یہ جنگ ،شفقت، آگاہی اور اجتماعی ذمہ داری سے

 جیتی جائے گی۔

تحریر:ایڈوکیٹ صفا

اسسٹنٹ ایل اے ڈی سی ، ڈی اے ایل ایس اے

قارئین کشمیر کی وادی ہمیشہ اپنی قدرتی خوبصورتی، ثقافتی رنگوں اور صدیوں پرانی روایات کے باعث دنیا بھر میں پہچانی جاتی ہے۔ لیکن انہی پہاڑوں کے دامن میں پچھلے چند برسوں سے خاموشی کے ساتھ ایک ایسا طوفان جنم لے رہا ہے جو کسی دھماکے کی آواز نہیں رکھتا مگر اس کی تباہی کہیں زیادہ گہری ہے۔ منشیات کی لعنت ایک سائے کی طرح بڑھتی ہوئی نسلِ نو کو اپنے گھیرے میں لے رہی ہے۔ یہ مسئلہ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ پورے معاشرے، ہر گلی، ہر اسکول اور ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ اور ایسی دستک جو نظرانداز کرنے کی گنجائش نہیں رکھتی۔

یہ حقیقت تلخ ہے کہ کشمیر پہلے ہی کئی دہائیوں سے سیاسی تنازعات، بے یقینی، نفسیاتی دباو ¿ اور معاشی اتار چڑھاو ¿ کا سامنا کرتا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں نوجوان سب سے زیادہ حساس اور سب سے زیادہ کمزور ہوتے ہیں۔ جب انہیں رہنمائی، تحفظ اور مثبت مواقع کم ملیں، تو غلط راستوں کے دروازے خود کھلنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منشیات کا بڑھتا اثر اب ایک سنگین سماجی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے، اور اس بحران کو روکنے کے لیے سب سے پہلی ذمہ داری گھر سے شروع ہوتی ہے۔قارئین گھر وہ جگہ ہے جہاں بچہ دنیا کو سمجھتا ہے، اپنے خوف بیان کرتا ہے، اپنی امیدیں ب ±نتا ہے اور اپنی شخصیت تراشتا ہے۔ کشمیر جیسے معاشرے میں جہاں خاندان بڑے اور رشتے گہرے ہوتے ہیں، والدین کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ ایک ماں کے بدلتے رنگِ چہرہ، ایک باپ کی خاموشی، یا گھر میں بڑھتی دوریاں،یہ سب بچوں کی ذہنی کیفیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ آج کے دور میں وہ والدین کامیاب ہیں جو بچوں کی زندگی میں صرف نظم و ضبط نافذ نہیں کرتے بلکہ ان کے دوست بن کر ان کے ذہنی سفر کا حصہ بنتے ہیں۔ ایسے والدین ہی وہ چھوٹے مگر اہم اشارے محسوس کر لیتے ہیں جو منشیات کی طرف بڑھتے قدموں کی خبر دیتے ہیں۔ جیسے اچانک مایوسی، پڑھائی سے لاتعلقی، راتوں کو جاگنا، پیسے کی غیر ضروری طلب، یا ایسے لوگوں کی صحبت جو پہلے کبھی دکھائی نہ دی ہو۔قارئین کو بتادیں کہ لیکن صرف نگرانی کافی نہیں ہوتی۔ بچوں کے ساتھ روزمرہ گفتگو، ان کی الجھنیں سننا، انہیں غلطی کرنے کے باوجود یہ یقین دینا کہ گھر ان کے لیے محفوظ جگہ ہے ۔یہ سب عناصر مل کر وہ حصار کھڑا کرتے ہیں جسے توڑ کر منشیات تک پہنچنا آسان نہیں رہتا۔ گھر کے ماحول میں اعتماد کی کمی، سختی کا غلبہ اور مکالمے کی کمی، یہ تین چیزیں بچوں کو چپ کرواتی ہیں، اور وہ خاموشی ہی منشیات کا پہلا دروازہ کھولتی ہے۔والدین کے ساتھ ساتھ پورا معاشرہ بھی اس جنگ کا مستقل حصہ ہے۔ کشمیر جیسے خطے میں کمیونٹی کا کردار محض رسوم یا رواج تک محدود نہیں، بلکہ یہاں لوگوں کی زندگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ گاو ¿ں کا بزرگ، محلے کا امام، مدرسے کا استاد، کالج کا لیکچرر، یا بازار میں بیٹھا عام دکاندار—ہر کوئی نوجوانوں کے رویوں میں تبدیلی کو محسوس کرتا ہے۔ یہی اجتماعی شعور اصل میں معاشرے کی وہ قوت ہے جو کسی بھی بگاڑ کو بروقت پہچان سکتی ہے۔

سول انتظامیہ اس پورے نظام کی بنیاد ہے۔ پالیسی سازی سے لے کر ری ہیبیلیٹیشن مراکز تک، آگاہی مہمات سے لے کر سکولوں اور کالجوں میں تعلیمی پروگراموں تک،یہ سب ریاستی ذمہ داریوں کا حصہ ہیں۔ اگر یہ مہمات صرف سرکاری کاغذوں میں رہیں تو فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب ایک ڈاکٹر گاو ¿ں کے اسکول میں جا کر بچوں کو حقیقت بتاتا ہے، جب محکمہ صحت دیہی خواتین کے گروپوں کے ساتھ آگاہی نشستیں کرتا ہے، جب ضلعی انتظامیہ ایک نوجوان کے لیے کونسلنگ کا بندوبست کرتی ہے۔تو اس کا اثر پورے معاشرے میں محسوس ہوتا ہے۔قارئین منشیات کا کاروبار محض ایک معاشرتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک منظم مجرمانہ نیٹ ورک ہے، جسے توڑنے کے لیے پولیس کا کردار بنیادی ہے۔ جموں و کشمیر پولیس نہ صرف اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے بلکہ کمیونٹی انگیجمنٹ کے ذریعے عوام کو خود اس مہم کا حصہ بنا رہی ہے۔ اسکول وزٹس، یوتھ کنیکٹ پروگرام، اور ماو ¿ں کے ساتھ خصوصی نشستیں وہ پہلو ہیں جو اس مسئلے کو محض جرم سے ہٹا کر انسانی مسئلہ بناتے ہیں۔اور یہی اصل تبدیلی ہے۔ جب ایک نوجوان کو یہ احساس ہو جائے کہ پولیس اسے مجرم نہیں سمجھ رہی بلکہ اسے بچانے کی کوشش کر رہی ہے، تو وہ خود بھی مدد کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے۔اسی طرح مذہبی شخصیات کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ کشمیر میں مسجد صرف عبادت کی جگہ نہیں بلکہ سماجی رہنمائی کا مرکز بھی ہے۔ ایک امام کا منبر سے دیا گیا پیغام، ایک بزرگ کا مسجد کے باہر نوجوان کو دیا گیا مشورہ، یا ایک مذہبی اسکالر کی تقریر—یہ سب دلوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ منشیات کے خلاف لڑائی میں جب مذہبی اور سماجی آوازیں انتظامیہ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں تو پیغام کہیں زیادہ مضبوط، قابلِ قبول اور اثر انگیز بن جاتا ہے۔

تعلیمی ادارے نوجوانوں کے مستقبل کا سب سے مضبوط ستون ہیں۔ جب اسکول اور کالج صرف کتابی تعلیم تک محدود نہیں رہتے بلکہ نوجوانوں کے احساسات، اضطراب، دباو ¿ اور ذہنی تھکن کو بھی سمجھتے ہیں، تو اصل میں وہ نسل کو محفوظ بنا رہے ہوتے ہیں۔ ورکشاپس، انٹرایکٹو ڈسکشن، کھیلوں کی سرگرمیاں، آرٹ اور سماجی پروجیکٹس نوجوانوں میں وہ خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں جو انہیں غلط راستوں سے دور رکھتی ہے۔لیکن سب سے اہم پہلو وہ ہے جو اکثر نظرانداز ہو جاتا ہے۔قارئین وادی کشمیر میں محلہ کلچر ابھی زندہ ہے۔ پڑوسی ایک دوسرے کو جانتے ہیں، بازار میں بیٹھا دکاندار روزانہ نوجوانوں کو دیکھتا ہے، کرکٹ کھیلنے والے گروپ ایک دوسرے کی حالت محسوس کرتے ہیں۔ یہی لوگ وہ پہلے فرد ہوتے ہیں جو منشیات کے ابتدائی اشارے دیکھتے ہیں۔ اس لیے انہیں اعتماد دینا ضروری ہے کہ اطلاع دینا بدنامی نہیں بلکہ بچاو ¿ ہے۔ یہ سمجھانا ضروری ہے کہ مقصد کسی کو سزا دلوانا نہیں بلکہ وقت سے پہلے بچا لینا ہے۔کشمیر میں منشیات کا مسئلہ صرف قانون کا نہیں، صرف والدین کا نہیں، صرف انتظامیہ کا نہیں،یہ پورے معاشرے کا امتحان ہے۔ ایک خاندان، ایک گاو ¿ں، ایک اسکول، ایک پولیس اسٹیشن، ایک مسجد، ایک استاد،سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوں تو ہی یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے چلائے جانے والے پروگرام، جیسے ، نوجوانوں کے لیے تعلیمی و تفریحی سرگرمیاں، وہ مثبت سمت فراہم کرتی ہیں جس کی نوجوانوں کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔کشمیر کی وادی اگر منشیات کے اس بڑھتے طوفان سے بچنا چاہتی ہے تو اسے اپنی پوری روح کے ساتھ متحد ہونا ہوگا۔ ایک ہاتھ والدین کا، ایک معاشرے کا، ایک پولیس کا، ایک انتظامیہ کا، اور ایک مذہبی و تعلیمی رہنماو ¿ں کاجب سب ہاتھ مل کر ایک ڈھال بنائیں گے تب ہی وادی کے نوجوان محفوظ رہیں گے۔ کیونکہ یہ جنگ گولیوں سے نہیں جیتی جاسکتی، یہ جنگ ،شفقت، آگاہی اور اجتماعی ذمہ داری سے

 جیتی جائے گی۔

Previous Post

Elderly Srinagar Man Goes Missing in Delhi; Family Urges J&K Govt, LG Admin for Immediate Help

Next Post

Crime Branch Kashmir Nails Multi-Truck Rice Scam; Senior FCS&CA Officers in Dock

Advocate Safa

Advocate Safa

Next Post
Former Cooperative MD Convicted for Forgery in Service Extension Case: EOW Kashmir

Crime Branch Kashmir Nails Multi-Truck Rice Scam; Senior FCS&CA Officers in Dock

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.