کورونا وائرس کی ویکسین کے بارے میں وسیع پیمانے پر پائی جانے والے بہت سے غلط دعوؤں کی ہم نے جانچ کی ہے جن میں انسانوں کے اندر مائیکروچپ ڈالنے سے لے کر جینیٹک کوڈ کی تبدیلی تک کی بات کہی گئی ہے۔
‘ڈی این اے کو تبدیل کرنے’ کا دعوی
ہم نے سوشل میڈیا پر مستقل طور پر ایسے دعوے دیکھیں ہین جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ویکسین آپ کسی طرح آپ کے ڈی این اے کو بدل دے گی۔
بی بی سی نے اس بارے میں تین آزاد سائنس دانوں سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی ویکسین انسانی ڈی این اے کو تبدیل نہیں کرے گی۔
برطانیہ میں فائزر/ بائیونٹیک کے ذریعہ تیار کردہ نئی ویکسین کے ساتھ کچھ دوسری نئی ویکسین میں وائرس وائرس کے جینیاتی مواد- یا میسنجر آر این اے کے ایک ٹکڑے کا استعمال ہوا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری آلمنڈ کا کہنا ہے کہ ‘کسی شخص میں آر این اے داخل کرنے سے انسانی سیل کے ڈی این اے کے ساتھ کچھ نہیں ہوتا ہے۔’
یہ جسم کو وہ پروٹین تیار کرنے کے لیے ہدایات دینے کا کام کرتا ہے جو کورونا وائرس کی سطح پر موجود ہے۔
اس کے بعد مدافعتی نظام اس پروٹین کو پہچان کر اس کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرنا سیکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ہم نے ان دعوؤں پر غور کیا ہے کہ کورونا وائرس ویکسین ممکنہ طور پر ڈی این اے میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ ہم نے مئی میں اس نظریے کو پھیلانے والی ایک وائرل ویڈیو کی تحقیقات کی تھی۔
پوسٹس میں کہا گيا تھا کہ میسنجر آر این اے (ایم آر این اے) ویکسین ٹیکنالوجی کو ‘اس سے پہلے کبھی ٹیسٹ یا منظور نہیں کیا گیا ہے۔’
یہ سچ ہے کہ اب سے پہلے کسی بھی ایم آر این اے ویکسین کی منظوری نہیں دی گئی ہے لیکن گذشتہ چند سالوں میں انسانوں میں ایم آر این اے ویکسین کی متعدد کے متعدد تجربات ہو چکے ہیں۔ اور وبا کی ابتدا کے بعد سے ہی اس کا تجربہ دنیا بھر کے دسیوں ہزار افراد پر کیا گیا ہے اور اسے حفاظتی اقدامات کے سخت عمل سے گزارا گیا ہے۔
دوسری تمام نئی ویکسین کی طرح بڑے پیمانے پر استعمال کی سفارش سے قبل اسے سخت حفاظتی جانچ پڑتال سے گزرنا پڑتا ہے۔
پہلے اور دوسرے مرحلے کے کلینیکل ٹرائلز میں ویکسین کو رضاکاروں کی چھوٹی سی تعداد پر استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کی مناسب خوراک کیا ہے اور وہ کتنی محفوظ ہے۔
تیسرے مرحلے کے ٹرائلز میں اس کا تجربہ ہزاروں لوگوں پر کیا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ وہ کتنی موثر ہیں۔ وہ گروپ جسے ویکسین دی گئی ہے اور ایک کنٹرولذ گروپ جسے پلاسیبو دیا گيا ہے ان کو بغور نگرانی ہوتی ہے کہ ان میں کوئی ضمنی یا منفی رد عمل تو نہیں ہو رہا ہے۔ ویکسین کے استعمال کی منظوری کے بعد بھی حفاظتی نگرانی کا کام جاری رہتا ہے۔
بل گیٹس اور مائیکرو چیپ کے دعوے
اب ایک سازشی نظریہ دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔
اس میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین کے بہانے مائیکرو چیپس لگانے کا منصوبہ ہے اور مائیکرو سافٹ کے شریک بانی بل گیٹس اس کے پیچھے ہیں۔
کوئی بھی ویکسین ‘مائکرو چیپ’ والی نہیں ہے اور نہ ہی اس دعوے کے شواہد ہیں کہ بل گیٹس مستقبل میں ایسا کوئی منصوبہ بنا رہے ہیں۔
بل اور میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ دعویٰ ‘غلط’ ہے۔
افواہوں نے مارچ میں اس وقت سر ابھارا جب مسٹر بل گیٹس نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آخر کار ‘ہمارے پاس کچھ ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ ہوں گے’ جس سے یہ پتا چلے گا کہ اس کا استعمال کرنے کے بعد کون بازیافت ہوا اور بالآخر کس نے ویکسین حاصل کی۔ انھوں نے مائیکروچپس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
اس کی وجہ سے ایک وسیع پیمانے پر مشترک کیا جانے والا مضمون سامنے آیا جس کی سرخی یہ تھی کہ ‘بل گیٹس کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے مائکروچپ ایمپلانٹس کا استعمال کریں گے۔’
اس مضمون میں گیٹس فاؤنڈیشن کی مالی اعانت سے کی جانے والی اس تحقیق کا حوالہ دیا گیا ہے جو کسی انجیکشن کے ساتھ ہی خصوصی سیاہی میں کسی ویکسین کا ریکارڈ رکھ سکتا ہے۔
بہرحال یہ ٹیکنالوجی مائیکروچپ نہیں ہے بلکہ یہ نہ نظر آنے والے ٹیٹو کی طرح ہے۔ اس تحقیق میں شامل ایک سائنسدان اینا جیکلنک کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس کو تیار نہیں کیا گیا ہے اور اس کے تحت لوگوں کو ٹریک کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گا اور نہ ہی ذاتی معلومات کو ڈیٹا بیس میں داخل کیا جائے گا۔
مائکروسافٹ کے ارب پتی بانی اس وبائی امراض کے دوران بہت سی جھوٹی افواہوں کا نشانہ رہے ہیں۔
انھیں صحت عامہ اور ویکسین کی تیاری اور فروغ میں ان کے مخیر کام کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
شواہد کی کمی کے باوجود مئی میں یوگوو کے 1640 افراد کے سروے میں 28 فیصد امریکیوں کا خیال تھا کہ مسٹر گیٹس لوگوں میں مائیکرو چیپس لگانے کے لیے ویکسین کا استعمال کرنا چاہتے ہیں اور رپبلکن میں ایسا یقین رکھنے والے لوگ 44 فیصد تھے۔
جنین خلیے والے دعوی
ہم نے یہ دعوے دیکھے ہیں کہ ویکسین میں ضائع شدہ جنین یا اسقاط حمل والے بچے کے پھیپھڑوں کے خلیوں کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔
ساوتھمپٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر مائیکل ہیڈ کا کہنا ہے کہ ‘کسی بھی ویکسین کی تیاری کے عمل میں جنین کے خلیے کا استعمال نہیں ہوا ہے۔’
ایک خاص ویڈیو جو سب سے بڑے ویکسین مخالف فیس بک پیج پر پوسٹ کیا گیا ہے اس میں اس تحقیق کا حوالہ ہے جس میں راوی اس بارے میں بتاتا ہے کہ ایسٹرا زینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے ذریعہ تیار کردہ ویکسین میں کیا جاتا ہے۔ لیکن راوی کی تشریح غلط ہے کیونکہ اس مطالعے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب لیب میں ویکسین کو انسانی خلیوں سے متعارف کرایا گیا تو کیا ردِ عمل ہوا۔
اس بات سے کنفیوژن پیدا ہو سکتا ہے کہ ویکسین کی تیاری میں لیب میں تیار کیے جانے والے خلیے استعمال ہوتے ہین جو کہ کسی جینین کے خلیوں کے جانشین ہوتے ہیں اور جو بہ صورت دیگر ختم ہوجانے والے ہوتے ہیں۔ یہ تکنیک سنہ 1960 کی دہائی میں تیار کی گئی تھی اور اس تحقیق کے لیے کسی بھی جنین کا اسقاط حمل نہیں کیا گیا تھا۔
برسٹل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس طریقہ کار سے بہت ساری ویکسینیں بنائی جاتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ خلیوں کے کسی بھی نشان کو ویکسین سے ‘غیر معمولی اعلی معیار’ پر عمل کرتے ہوئے جامع طور پر ہٹا دیا جاتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ویکسین کے ڈویلپرز کا کہنا ہے کہ انھوں نے کلون شدہ خلیوں کے ساتھ کام کیا ہے، لیکن یہ خلیے ‘از خود اسقاط شدہ بچوں کے خلیات نہیں ہیں۔’
یہ خلیے کسی فیکٹری کی طرح وائرس کی ایک بہت کمزور شکل تیار کرنے کا کام کرتے ہیں جسے ویکسین کے طور پر کام کرنے کے لیے ڈھال لیا جاتا ہے۔
لیکن اگرچہ کمزور وائرس کو ان کلون شدہ خلیوں کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیا جاتا ہے لیکن جب وائرس کو خالص بنایا جاتا ہے تو اس سیلولر مادے کو پوری طرح اس سے ہٹا لیا جاتا ہے اور اسے ویکسین میں استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔
بازیابی کی شرح کے دعوے
ہم نے سوشل میڈیا پر ایک کووڈ 19 ویکسین کے خلاف وسیع پیمانے پر شیئر کیے جانے والے دلائل دیکھے ہیں جو یہ پوچھ رہے ہیں کہ اگر ہمیں وائرس سے مرنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں تو ہمیں کسی ویکسین کی ضرورت کیوں ہے۔
کورونا کی ویکسین لینے کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جب کورونا سے صحتیابی کی شرح 99.97 فیصد ہے تو پھر ویکسین لینے سے بہتر کورونا ہونا ہے۔
ہم پہلے ہی بتا دیں کہ یہ اعداد و شمار جو میم کے طور پر ‘صحت یابی کی شرح’ کے طور پر بیان کیے جا رہے ہیں کہ یہ جتنے لوگ کورونا کی زد میں آئے ہیں ان میں سے اتنے فیصد محفوظ رہے ہیں یہ درست نہیں ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینیئر شماریات دان جیسن اوکے کہتے ہیں کہ کووڈ کی زد میں آنے والے تقریبا 99 فیصد لوگ اس سے بچ جاتے ہیں۔
یعنی دس ہزار میں سو آدمی مرتے ہیں یہ اس سے کہیں زیادہ جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ دس ہزار میں تین آدمی مرتے ہیں۔
تاہم مسٹر اوکے نے مزید کہتے ہیں کہ ‘تمام معاملات میں خطرات کا انحصار عمر پر بہت زیادہ منحصر ہوتا ہے اور کووڈ 19 سے مختصر اور طویل المدتی ہلاکت کا حساب نہیں رکھا جاتا ہے۔‘
یہ صرف زندہ بچ جانے کے بارے میں نہیں ہے۔ مرنے والے ہر فرد کے علاوہ اور بھی ہیں جنھیں اس کی وجہ سے انتہائی طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے صحت پر دیر پا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس سے کووڈ مریضوں کے ساتھ صحت کی خدمات پر دباؤ پڑتا ہے۔ ہسپتال کے محدود وسائل کی صورت میں دیگر بیماریوں کے علاج پر فرق پڑتا ہے۔
لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے پروفیسر لیام اسمیتھ کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر اموات کی شرح پر اکتفا کرنا یا انفرادی طور پر ویکسین لینے کے سلسلے کو توڑنا ٹیکے دینے کے نقطۂ نظر سے بھٹکنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسے معاشرے کو دوسروں کی حفاظت کی کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
‘برطانیہ میں وبائی مرض کا سب سے خراب دور میں لاکڈاؤن نافذ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ صحت کی خدمات پوری طرح بیٹھ نہ جائیں۔ کیئر ہومز میں رہنے والے بوڑھے اور بیمار جیسے کمزور گروپس میں اگر وائرس آ جائے تو شدید بیمار ہونے کا امکان زیادہ ہوجاتا ہے۔’