افغانستان کے بدلتے حالات کا کشمیر پر اثر اندازہونا
افغانستان میں سویت یونین کی فوج کی انخلاءکے بعد افغانستان کے جنگجوﺅں نے پاکستان کے کہنے پر کشمیر کا رُخ کیا تھا اور سال 1993 میں گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی سے منسلک 400 سے زائد افغان باغی کشمیر میں موجود بتائے جاتے تھے۔اس بات میں کتنی سچائی تھی یہ بعد میں پتہ چلا تاہم افغانستان کے متعدد عسکریت پسند 1990کے بعد کشمیر میں موجود پائے گئے جن میں سے بہت سے افغان جنگجو مارے بھی گئے ۔ 1989میں افغانستان سے روسی فوج کے انخلاءکے بعد افغان جنگجو جنگ سے فارغ ہوئے جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پوکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے اُٹھاتے ہوئے ان میں سے کئی ایک کو کشمیر آنے کےلئے مائل کیا ۔ افغان جنگجوﺅں کو کشمیر کے چند نوجوانوں کے ساتھ بھارت کے خلاف درپردہ جنگ کےلئے اُکسایا گیا اور انہیں باور کرایا گیا کہ یہ ایک مقدس جنگ یعنی جہاد ہے ۔ تاہم ایسی کوئی مصدق رپورٹ نہیں ہے کہ افغان جنگجوﺅں نے باضابطہ طور پر کشمیر میں اس پروکسی وار میں حصہ لیا ہو البتہ گنے چنے جنگجوﺅں نے ہی کشمیر کا رُخ کیا تھا جن میں سے اکثر واپس لوٹے اور کئی ایک کو یہاں مار ا گیا ۔ 1889کے بعد کشمیر میں شورش کی وجہ سے حالات یکسر بدل گئے اور حالات بے قابو ہوئے البتہ فوج نے حالات کو سدھارنے کےلئے بہترین کام انجام دیا اس کے علاوہ سیول انتظامیہ کی بھی مدد کی ۔ 1994میں راشٹریہ رافلزکاقیام عمل میں لایا گیا جبکہ سرحدوںپر باڑ لگائی گئی اور سرحدوں پر فوجی نگرانی کو مضبوط کیا گیا جس کی وجہ سے دراندازی کی کوششوں میں کمی ہوتی گئی جس سے وادی میں مسلح شورش میں دھیرے دھیرے کمی واقع ہوئی ۔
اب اگرہم بات کریں افغانستان میں اس وقت کنٹرول سنبھالنے والی طالبان کی تو کشمیر کے حوالے سے موقف کیا ہے یہ انہوںنے کئی بار واضح کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان کشمیر کے بارے میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے ۔ افغانستان میںطالبان نے 20برس بعد کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور امریکی فوج کے اچانک انخلاءکے بعد طالبان نے افغان نیشنل فورسز سے فوری طور پر حکومت پردوبارہ قبضہ کرلیا اور طالبان نے بغیر کسی مزاحمت کے درالحکومت قابل پر قبضہ کرلیا ۔ طالبان کے قبضہ کرنے کے بعد طالبان کے ہاتھ امریکہ اسلحہ کا بڑا ذخیرہ ہاتھ لگا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی لڑائی نہیں ہوئی تھی اور افغان قومی افواج اس سے پہلے کہ طالبان کی افواج افغانستان کے اہم شہروں میں بغیر کسی مزاحمت کے امریکہ کے ملک سے نکلنے کے 72 گھنٹوں میں پہنچ گئی تھیں۔ طالبان نے افغانستان کے تمام علاقوںپر دوبارہ قبضہ کرلیا تاہم پنج شیر ان کے ہاتھ نہیں لگا جہاں پر نادرن اتحادکاکنٹرول ہے اور کئی بار طالبان نے اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے اور کافی خون ریز لڑائی کے بعدطالبان وہاں سے واپس آئے ۔امریکی افوا ج نے کافی مقدار میں اسلح ، گولہ بارود اور دیگر ہتھیار چھوڑے جو طالبان نے اپنے قبضے میںلئے جس سے طالبان کی دفاعی طاقت مزید مضبوط ہوئی ہے ۔
طالبان نے بیس برس بعد افغانستان پر دوبارہ قبضہ تو کرلیا لیکن طالبان نے سابقہ پالیسی میںکچھ نرمی لائی اور دنیا کی مختلف طاقتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی حکمت عملی بھی جاری رکھی ۔ طالبان خارجی سطح پر تمام ممالک بشمول بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے تاہم یہ وقت ہی بتائے گا کہ طالبان کس نیت سے آگے بڑھ رہا ہے اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کس نیت سے کی جارہی ہے۔ طالبان 20 سال کے طویل عرصے کے بعد اقتدار میں آئے ہیں اور اب عالمی سطح پر اپنا امیج بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔
اب اگر ہم طالبان کی جانب کشمیر کی طرف اپنی توجہ کی بات کریں تو ایسا نہیں لگتا کہ طالبان بھارت جیسے بڑے ملک سے دشمنی مول لیں گے کیوں کہ طالبان اس وقت عالمی سطح پر ”دہشت گردی “ کی لیبل کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے اور اگر انہوںنے کشمیر میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تو عالمی سطح پر یہ اس کی مزید بدنامی کا موجب بنے گا جو کہ قطعی طور پر طالبان کے حق میں نہیں ہوگا۔ اسلئے طالبان اس وقت افغانستان میں حکومت کو مضبوط کرنے میں لگی ہے اور عالمی سطح پر اپنی ساخت کو بہتر بنانے کی طرف ان کی توجہ زیادہ ہے ۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان نے طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان خبروں سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان نے وادی پنجشیر میں طالبان کی لڑائی کی حمایت کے لیے نہ صرف اسلحہ اور گولہ بارود بلکہ افغانستان میں اپنی مسلح افواج بھی بھیجی ہیں۔ پاکستان کی طرف سے اس حمایت کا مقصد طالبان قوتوں کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار کرنا ہے جو کہ بدلے میں اس پراکسی جنگ کی حمایت کرے گی جس کی پاکستانی انٹیلی جنس فورسز کشمیر میں حمایت کر رہی ہیں۔ پاکستان کو پہلے ہی ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) نے بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے اس کی خفیہ حمایت کے لیے گرے لسٹ میں رکھا ہوا ہے، لہٰذا ایسی مزید کوئی بھی سرگرمیاں جن میں وہ کشمیر میں بدامنی پھیلانے کے لیے طالبان کی حمایت کرتے ہیںان پر دنیا کی جانب سے شدید مالی پابندیاں عائد ہوں گی۔ اس سے پاکستان کی پہلے سے کمزور معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔ تاہم پاکستان افغانستان میں طالبان کی بحالی کو کشمیر میں باغیوں کو بھیجنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ بہت سی انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق لشکر طیبہ، جی ای ایم اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے سینکڑوں پاکستانی دہشت گرد طالبان کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔ شمالی افغانستان میں طالبان کی لڑائی ختم ہونے کے بعد وہ کشمیر میں جنگ لڑنے کے لیے ہاتھ جوڑیں گے جو کہ بھارتی حکومت کے لیے باعث تشویش ہے۔لیکن ایسا ہونا محال ہے کیوں کہ طلبان کے وزیر خارجہ نے بھارت کے ساتھ اپنے بہتر تعلقات کی خواہش ظاہر کی ہے اور انہوںنے کئی بار اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ طالبان بھارت کے ساتھ کسی بھی طرح کی ناراضگی نہیں رکھتا ہے اور کشمیر کے معاملے میں طالبان مداخلت نہیں کرے گا۔
وادی کشمیر کی موجودہ سیکورٹی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے اور 1889کے حالات اور موجودہ حالات میں کافی فرق ہے ۔ جموں کشمیر میں داخلی اور خارجہ حفاظتی حصار کافی مضبوط ہے خاص کر لائن آف کنٹرول پر دراندازی اب قریب قریب ناممکن ہے کیوں کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی چوکسی اور سمارٹ فنسنگ، نائٹ وژن ڈوائسز، ڈرون اور کیمرہ سسٹم نصب کیاگیا ہے جس سے دراندازی صفر تک پہنچی ہے ۔ نگرانی کا یہ نظام ماضی میں اتنا موثر نہیں تھا جتنا کہ اب ہے۔ نیز وادی میں مختلف تنظیموں کے مربوط کام کی وجہ سے انٹیلی جنس گرڈ میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد ریاست ایک مرکز کے زیر انتظام علاقے کے طور پر آ گئی ہے اور اس وقت مرکزی حکومت کے تحت ہے۔ اس سے مرکز کو وادی میں بے پناہ طاقت ملی ہے جو ماضی میں نہیں تھی۔ وادی میں مسلح افواج کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔اگر ہم 1989کی بات کریں تو اُس وقت قلیل فوج وادی میںتعینات تھی لیکن اس میں اب تک کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے جس سے حالات میں کافی سدھار بھی آیا ہے اور دفاعی صورتحال بھی مضبوط ہوچکی ہے ۔
1998سے لیکر 1996تک وادی کشمیر میں جو بندوق کا خوف تھا وہ دھیرے دھیرے کم ہوتا گیا اور لوگ اب آزادی کے ساتھ چل پھر سکتے ہیں کیوں کہ فوج کی مسلسل کوششوں سے یہاں پر ملٹنسی کا گراف کافی حد تک کم ہوچکا ہے اور اعدادوشمار کے مطابق وادی میں ایک سو سے بھی کم جنگجوسرگرم ہیں جو فوج کے دباﺅ کی وجہ سے اپنی سرگرمیاںمحدود کرنے پرمجبور ہوچکے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر ی عوام کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے اور موجودہ دور میںنوجوان نسل اب نئے کشمیر کا تصور کررہے ہیں جو کہ ماضی میں نہیں تھا کیوں کہ ماضی میں اعلیحدگی پسندی کا غلبہ تھا جو ختم ہوچکا تھا اور اب سوچ بھی مثبت انداز میں تبدیل ہورہی ہے ۔ اگرچہ یہ جذبات اب بھی کچھ لوگوں میں موجود ہیں لیکن یہ تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد مثبت سوچ کے ساتھ چل رہے ہیںاور نئے کشمیر کے وژن کے ساتھ چلتے ہوئے حالات کو تبدیل کرنے میں اپنا حصہ اداکررہے ہیں جو کہ یہاں پر امن و سلامتی کےلئے کافی مفید ثابت ہورہا ہے اور اس سے یہاں پر کاروبارپھل پھول رہا ہے اور سیاحت کو بڑھاوا بھی مل رہا ہے جو یہاں پر اقتصادی مضبوطی کےلئے ایک لازمی جز ہے ۔