”ان پوشہ تلہ ، یئلہ ون پوشہ “یعنی جب تک جنگل ہرے بھرے ہوں گے تب تک ہمیں اناج دستیاب ہوگا۔ یہ کلام 15ویں صدی کے معروف صوفی بزرگ شیخ نورالدین ولی ؒ کا ہے جنہوں نے اپنے دور میں کشمیری معاشرے کی عکاسی کرتے ہوئے ایسے اشعار کہے ہیں جو آج بھی انسانیت کےلئے راہ راست ہیں ۔ ان کا مذکورہ کلام ہمیں جنگلات کی اہمیت خاص کر انسانی زندگی کی بقاءکےلئے جنگلات کے وجود کو بیان کرتا ہے ۔ جنگلات نہ صرف جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کرنے کےلئے ضروری ہے بلکہ جنگلات سے ماحولیات کا توازن بھی برقرار رہتا ہے اس سے خاص بات یہ کہ وادی کشمیر کا وجود بھی ان ہی جنگلات کی وجہ سے ہے اگر جنگلات ختم ہوں گے تو یہاں کی قدرتی خوبصورتی بھی ختم ہوجائے گی ۔
گزشتہ چند دہائیوں سے یہاں کے جنگلات کو کافی نقصان پہنچا یا گیا ہے یا غیر ارادی طور پر جنگلات کو نقصان پہنچا ہے اس کی ایک بڑی وجہ انسانی آبادی میں غیر معمولی اضافہ بھی ہے ۔ انسانی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے ہمارے جنگلاتی اراضی کا ایک بڑا حصہ رہائشی بستیوں میں تبدیل ہوچکا ہے آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ جنگلی جانور اکثر انسانی بستیوں میں نمودار ہوتے ہیں اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہی ہے کہ جنگلاتی راضی پر لوگوں نے قبضہ کیا ہے اور بے شمار درخت تہہ تیغ کردئے گئے ہیں جس کے باعث جنگلی جانوروں کا مسکن مسمار ہوگیا ہے اور انہیں غذا کی قلت کا سامنا ہے ۔ جب جنگلات ہی ختم ہوتے جارہے ہیں تو جنگلی جانوروں کا لفت ہونا لازمی امر ہے ۔ جنگلات کے کٹاﺅ کے نتیجے میںقیمتی جڑی بوٹیاں اور دیگر پیڈ پودوں کو بھی لاتلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔ سال 2001سے 2020تک جموں کشمیر میں 4.20لاکھ درختاں ضائع ہوچکے ہیں جبکہ جموں کشمیر میں سب سے زیادہ جنگلاتی اراضی راجوری میں ہوا ہے جہاں پر 192ہیکٹر کا نقصان ہوا ہے ۔ گزشتہ تین دہائیوں میں جنگلات کو بھاری نقصان پہنچایا گیا جو مقامی سمگلروں کی کارستانی تھی انہوں نے وادی کے جنگلاتی اراضی پر موجودقیمتی درختوں ا بڑی بے دردی کے ساتھ صفایاجاری رکھا ۔ اور نامساعدحالات اور دیگرمسائل کے سبب اس طرف سرکار کی زیادہ توجہ نہیں گئی اس طرح سے جموں کشمیر اور لداخ میں جنگلاتی اراضی کے ایک بڑے حصے کو غیر جنگلاتی اراضی میں تبدیل کیا گیا اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس عرصے میں 680ہیکٹر جنگلاتی اراضی کو تبدیل کیا جاچکا ہے جس کی وجہ سے قریب قریب 2لاکھ درختوں کا صفایا کیا گیا ہے ۔ اگر ہم ملک کے جنگلات پرنظر دوڑائیں گے تو سب سے زیادہ نقصان جموں کشمیر کے جنگلات کو پہنچایاگیا ہے جس میں قیمتی اور صدیوں پُرانے درختوں کو جڑ سے ہی اکھاڑا گیا ہے اس طرح سے نایاب اورقیمتی درختوں کا نام و نشان ہی مٹایا گیا اور یہ تصویر ایک تباہ کن صورتحال کی عکاسی کرتی ہے ۔ اسی طرح سے اگر جنگلات کا خاتمہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر کے جنگلات ریگستانوں کی مانند ہوں گے ۔
فارسٹ سروی و درجہ بندی 1965کے مطابق سابقہ ریاست جموں کشمیر لداخ میں جنگلات کو 8زونوں میں تقسیم کیا گیا تھا جہاں پر 42جنگلاتی اقسام موجود تھے جو برصغیر ایشیاءمیں سب سے زیادہ تھا ۔ اگرچہ بنگال کے جنگلات ملک میں وسیع مانے جاتے ہیں لیکن ریاست کے جنگلات رقبہ کے لحاظ سے اس سے کئی گنا بڑے ہیںجن کا مجموعی رقبہ 20,230مربع کلو میٹر ہے جس میں سے 17,643مربع کلو میٹر غیر درجہ بند جنگلاتی حصہ ہے ۔ اعدادوشمار کے مطابق سال 2010تک سرحدی ضلع کپوارہ میں سب سے زیادہ وسیع جنگلاتی اراضی ہے جو 2551مربع کلو میٹر پر پھیلا ہے جبکہ ضلع میں 36مربع کلو میٹر غیر درجہ بند جنگلات کے زمرے میں آتا ہے ۔ اسی طرح اودھمپور میں 77.5، ریاستی میں 76.3کشتواڑ میں 73.9پھر پھیلا ہے۔ان جنگلات میں جہاں نایاب قسم کے درختاں موجود ہیں وہیں پر ان جنگلات میں کئی نایاب قسم کی جڑی بوٹیاں بھی موجود ہیں جن سے کئی ادویات بھی تیار کی جاتی ہے ۔ جموں و کشمیر فاریسٹ ایکٹ، 1987 واحد ریاستی مخصوص جنگلات ،جنگلی حیات کا ایکٹ یا قاعدہ ہے جو یوٹیز میں موجود ہے۔ دونوں یوٹیز یعنی جموں کشمیر اور لداخ کے پاس جنگلات کے قوانین پر عمل درآمد میں محکمہ کی مدد کرنے اور جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ میں مدد کے لیے ایک فارسٹ پروٹیکشن فورس ہے۔جن کے ذمے فارسٹ اور جنگلی حیات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے ۔
اس کے باجود بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ دن بدن یہاں کے جنگلاتی تنوع میں کمی آرہی ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں جنگلاتی اراضی کے قریب مٹی کی کدھائی ، جنگلوں کے نزدیک یا ان کے بیچ میں سڑکوں کی تعمیر اور جنگلوں کے قریب بستیوں کا بڑھنا حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور پیداواری صلاحیت میں کمی میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ غربت کے خاتمے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے خدشات کو دور کرنے کے علاوہ جنگلات کی ماحولیاتی بحالی سے موسمیاتی تبدیلیوں پر کم اثر پڑے گا۔ مٹھی بھر کارکنوں کی کوششیں اور حکومتی پالیسیاں جن کی رسائی محدود ہے اس تباہ ہوئے اثاثے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔جنگلات کومکمل تحفظ فراہم کرنے اور اس قدرتی اثاثے کو اپنی آنے والی نسلوں کےلئے بچانے کےلئے ہمیں سنجیدگی سے کام کرنا ہوگااور اس کےلئے ایک جامع اور وسیع المفاد لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے جنگلات کا تحفظ اور جنگلی حیات کا بچاﺅ انتہائی اہم اور ناقابل سمجھوتہ ہے کیونکہ یہ نہ صرف بنی نوع انسان بلکہ ہزاروں دیگر انواع کے لیے زندگی کا ذریعہ ہے جو ہمارے ماحولیاتی نظام کو متوازن کرنے میں فائدہ مند کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا، جنگلات کو فعال شراکت کے ساتھ پائیدار طریقے سے محفوظ اور منظم کرنا ہوگا۔ جنگلات کے تحفظ کےلئے پہلے ہی سرکار کی جانب سے پہلے ہی کئی سکیمیں متعارف کی جاچکی ہیں جن میں سب سے اہم شجر کاری مہم ہے تاہم شجر کاری مہم صرف میڈیا میں شو اپ کےلئے نہیں ہونی چاہئے بلکہ جنگلاتی اراضی کو ہرا بھر اکرنے کےلئے ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلاتی اراضی کو بازیاب کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے کیوں کہ جب اراضی ہوگی تبھی اس پر شجر کاری ممکن ہے ۔مزید اقدامات میں سے جنگلات کے تحفظ کے بارے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے عام لوگوں تک جانکاری پھلانا ، سکولوں میںجنگل تحفظ کے حوالے سے نصاب میں شمولیت اور ماحولیاتی ٹاسک فورس کی تشکیل جو جنگلاتی اراضی کو تحفظ فراہم کرنےکے ساتھ ساتھ اس کی ترقی کے اقدامات اُٹھاسکیں۔اس کے علاوہ جنگلاتی نظم و نسق کےلئے جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانا اہم اقدامات میں سے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دور دراز اور دیہی علاقوں میں لوگوں کو ایندھن کے طور پر لکڑی کے بجائے گیس اور بجلی کے استعمال سے متعلق آگاہی بھی لازمی ہے تاکہ وہ بالن کا کم استعمال کرکے کم سے کم درختوں کے کٹاﺅ کا موجب بنیں۔کشمیر اور جموں خطوں کے جغرافیائی رقبے کا 47 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے جو کہ ہمارے کھانے سے لے کر پہننے والے کپڑوں تک بہت سارے وسائل فراہم کرتا ہے۔ اس لیے جنگل کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ بنی نوع انسان کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہمارے جنگلات ایک طرف ہماری روزی روٹی کےلئے اہم ہے وہیں پر جنگلات ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کےلئے بھی انتہائی ضروری ہے اگر قدرتی توازن بگڑ جاتا ہے تو بنی نوع انسان کو خطرے سے دوچار ہونا لازمی ہے ۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جیسا کہ شیخ العالم شیخ نور الدین ولی ؒ نے فرمایا ہے کہ جنگلات کا تحفظ ررق کا تحفظ ہے ”ان پوشہ تلہ ،یلہ ون پوشہ“