تحریر۔محمد یوسف شاہین۔
ماہ شعبان کی آخری شام کو جب آسمان پر جگمگاتے تاروں کے بیچ نیا چاند جلوہ گر ہوتا ہے تو اسی کے ساتھ ہی ماہ رمضان اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے۔ ماہ رمضان کے دوران شیطان کو زندان میں پا بہ جولان کیا جاتا ہے اور اس ایک ایسا حیران کن سماں پیدا ہوتا ہے ک انسان تو کیا حیوان تک سربسجود ہوجاتے ہیں۔ اور انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
ماہ رمضان کی اپنی ایک الگ پہچان ہے، ایک منفرد شان ہے، اسکی اپنی آن بان ہے اسی لیے غیر مسلم لوگ بھی اسکو مان سمان دیتے ہیں اور ابھیمان بھی کرتے ہیں کیونکہ ماہ رمضان ہی وہ ایک مہینہ ہے جو
اصالت والا، اجابت والا، اقامت والا،امامت والا، اعانت والا، استقامت والا، امانت والا، اوقات والا، اشاعت والا، انسانیت والا، اشتیاق والا، اخوت والا، اعتکاف والا، ازکار والا، بشارت والا، بشاشت والا، بصیرت والا، بصارت والا، تربیت والا، ترتیب والا، تہزیب والا، تلاوت والا، تمازت والا، توبہ استغفار والا، تراویح والا، تہارت والا، ثواب والا، ثابت قدم والا، جمال والا،حشمت والا، حیرات والا، حقیقت والا، حکمت والا، والا،خلافت والا، درود و ازکار والا، درجات والا،رحمت والا، راحت والا، رعایت والا، ریاضت والا، رسالت والا، زکوات والا، سخاوت والا، سلامت والا، شہادت والا، شرافت والا، شفاعت والا، شفقت والا، صداقت والا، طراوت والا، عیادت والا، عدالت والا، عزت والا، عفت والا، عنایت والا، عظمت والا، فراغت والا، قدرت والا، قدامت والا، کفایت والا، کرامت والا، محبت والا، مشقت والا، مغفرت والا، محنت والا، معرفت والا، مساوات والا، معزرت والا، مہمان نواز والا، مسرت والا، متانت والا، نزاکت والا، ندامت والا، نظامت والا، نصرت والا، نصیحت والا، نقاب والا، وکالت والا، وصالت والا، وحدت والا، وجاہت والا، ہدایت والا، یقین محکم والا مہینہ ہے۔یہی وہ مہینہ ہے جہاں ایک ہوتے ہیں محمود و ایاز، نہ کویی بندہ نہ کویی بندہ نواز رہتا ہے۔
لیکن میں جب حال کے دریچے سے ماضی کے ماہ رمضان کو ڈھونڈتا ہوں تو وہ مجھے کہیں بھی نظر نہیں آتا ہے۔ نہ وہ افطار کے بعد چھوٹی چھوٹی بچیوں کا اکٹھے ملکر رؤف کرنا، نہ وہ خوشی کے گیت نہ وہ بچوں کی کلکاریاں کانوں میں اب رس گھولتی ہیں۔ ہاے کہاں گیے وہ دن، کہاں گیی وہ راتیں،وہ خوشیاں وہ شادمانیاں۔ غربت تھی مگر دل تو شاد تھے، آسمان سے باتیں کرتی ہویی عمارتیں نہیں تھی، گھاس پھوس یا مٹی کے مکان تھے مگر سکون تھا، مسرت تھی۔ کھانے کو ڈھیر ساری ضیافتیں میسر نہیں تھیں مگر صبر تھا، شکر تھا، اور بیماریوں سے دور تھے۔ دولت نہیں تھی مگر آرام تھا، قرار تھا۔ ایک دوسرے کےلیے دلوں میں عزت تھی۔ حیا تھی، شرم تھی، ایک دوسرے کیلیے محبت تھی، نفرتیں نہیں تھیں، نہ عداوت تھی نہ حسد نہ بغض نہ فرقہ پرستی تھی۔ ہندو مسلم ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔
کاش وہ دن واپس آجاییں تو وہی صحیح معنوں میں عید ہوتی۔ کشمیر پھر سے گلزار بنتا۔ دل سے یہی ایک بات نکلتی ہے
دوڑ پیچھے اے گردش ایام تو۔