وادی کشمیر عالمی سربراہی اجلاس کےلئے بالکل تیار ہے ، گزشتہ 70برس میں یہ پہلا ایسا موقع ہے جب وادی کشمیر میں اس طرح کی کوئی بین الاقوامی تقریب منعقد ہورہی ہے ۔ اس عالمی سربراہی اجلاس G20سے نہ صرف جموں کشمیر میں عالمی سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ اس سے معاشی طور پر کشمیر کو فائدہ ملنے کی امید ہے کیوں کہ اس سربراہی اجلاس میں مندوبین بذات خود یہاں کے حالات کا مشاہدہ کریں گے اور اس پروپگنڈا سے بھی پردہ اُٹھ جائے گا جو کشمیر دشمن ممالک چلاکر عالمی سطح پر کشمیر کو ایک شورش زدہ علاقہ قراردینے کی سعی کررہے ہیں ۔ اسکی اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ گئی ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اس کی تھیم یعنی موضوع سنسکرت کے مشہور محاورے ”واسو دایاوا ،کٹمبکم“رکھا ہے جس کے معنی ایک زمین ایک خاندان اور ایک ماضی ہے۔اس موضوع کو جی 20اجلاس میں عملانے کی بھر پور کوشش کی جاے گی اس سے قبل جی 20گروپ کے جتنے بھی اجلاس منعقد ہوئے ان میں اس طرح کی تھیم کو شامل نہیں کیا گیا یعنی ماحولیات اور اس سے جڑے دوسرے معاملات کے بارے میں کبھی بھی تبادلہ خیال نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ کسی پروگرام کا حصہ بنایا گیا لیکن انڈونیشیا سے صدارت حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے بحیثیت صدر جی 20گروپ عالمی سطح پر ماحولیات کے چلینجز کا مقابلہ کرنے کیلئے اسی کو اگلی کانفرنس کا موضوع بنانے کا فیصلہ کرکے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کرلی۔اس سربراہی اجلاس سے بیرون ملکی سرمایہ کاری کےلئے بھی راہیں ہموار ہوجائیں گی کیوں کہ جی 20گروپ ایسے بیس ملکوں کاگروپ ہے جن میں سے بیشتر ترقی پذیر ممالک شامل ہیں جبکہ کئی ایک ترقی یافتہ ہیں جن کی مدد و اعانت سے بہت سے ایسے معاملات جو بظاہر پیچیدہ نظر آرہے ہیں کا حل نکالنے میں مدد مل سکتی ہے اور ممبرملکوں کی معیشت کو فروغ بھی مل سکتا ہے اور استحکام بھی حاصل ہوسکتاہے۔وادی میں سرمایہ کاری کے دروازے کھل جائیں گے اور مقامی نوجوانوں کےلئے روزگار کے مواقعے بھی پیدا ہوں گے ۔ مجموعی طور پر اگر کہا جائے تو G20کانفرنس کشمیر کےلئے ایک ایسا سنہرا موقع ہے جس سے نہ صرف سیاسی طور پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے بلکہ معاشی لحاظ سے بھی بہتری آئے گی۔ اگر ہم اس گروپ کے قیام کی بات کریں تو یہ گروپ سال 1999میں وجود میں لایا گیا میں جو ممبران شامل ہیں ان میں بھارت اس کے بانی ممبروں میں شامل ہے ایک طرف اگر امریکہ ،برطانیہ اور یورپی یونین اس کے ممبران ہیں تو دوسری طرف چین ،بھارت ،سعودی عرب اور انڈو نیشیا بھی شامل ہیں افریقی ممالک میں جنوبی افریقہ اس میں شامل ہیں غرض یہ گروپ ان ملکوں پر مشتمل ہے جوواقعی تیز تر ترقی کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہیں اور جن کا مقصد اپنے اپنے ملکوں کے عوام کو ایک خوشحال مستقبل فراہم کرنا ہے اس مقصد کے لئے بھارت نے جو تھیم مقرر کی ہے اور جس موضوع کو لے کر جی 20گروپ بھارت کی صدارت میں آگے بڑھ رہا ہے وہ موجودہ حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر اہم اور لازمی ہے ادھر اس گروپ کا اجلاس سرینگر میں 22سے 24مئی تک سرینگر میں منعقد ہورہا ہے۔گروپ سیاحت کے فروغ کیلئے آپس میں تبادلہ خیال کرے گا اور اس سے امید پیدا ہوگئی ہے کہ وادی ایک خوشحال مستقبل کی طرف گامزن ہوگی۔یوں تو وادی کشمیر میں گزشتہ کچھ برسوں سے سیاحت کی صورتحال کافی بہتر دکھائی دے رہی ہے تاہم بین الاقوامی سطح پر سیاحت کو مزید تقویت ملے گی ۔ اس اجلاس سے ایسے ممالک بھی اپنے ملکوں کے شہروں کو وادی آنے کی ترغیب دیں گے جنہوں نے نامساعد حالات کے سبب کشمیر کے سیر پر ایڈوائزری جاری کی تھی اور یہ ایڈوائزری بھی اب ختم ہوگی کیوں کہ اس اجلاس سے جو عالمی سطح پر پیغام جائے گا وہ یہی ہوگا کہ وادی کشمیر میں امن و سلامتی کا نیا دور شروع ہوچکا ہے اور حالات معمول پر ہے جو سیاحت کےلئے موزون جگہ ہے ۔ دوسری جانب اگر ہم مقامی سطح پر بات کریں تو لوگوں میں بھی اس اجلاس کے حوالے سے کافی امیدیں وابستہ ہیں کیوں کہ ذرائع ابلاغ کی جانب سے منفی پروپگنڈا کی وجہ سے عالمی سطح پر جو کشمیر کی تصویر پیش کی گئی تھی وہ بھی صاف ہوجائے گی اور وادی کشمیر عالمی سطح پر امن کا گہوارہ مانا جائے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس ہوگا ۔ آج سے پہلے کسی بھی سرکار نے اس طرح کی کوئی عالمی تقریب یہاں پر منعقد نہیں کرائی تھی اور یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی کاوشوں کا صلہ ہے کہ جموں کشمیر اب اس کے قابل بن گیا ہے کہ یہاں پر اس طرح کی عالمی تقاریب کا اہتمام ہوسکتا ہے اور مندوبین یہاں کی قدرتی خوبصورتی اور لوگوں کی مہمان نوازی کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔