وادی کشمیر میں زرعی سرگرمیاں صدیوں سے جاری ہے اور یہاں کے مکینوں کےلئے کاشتکاری ہی زندگی کو چلانے کےلئے ایک اہم وسیلہ رہا ہے ۔اس میں خاص طور پر باغبانی کی سرگرمیاں یہاں پر ہزاوں سال سے جاری ہے ۔وادی کشمیر کو قدرت نے اپنے بیش بہا خزانوں سے مزین کیا ہے اور ان نعمتوں میں یہاں کی زرخیزی بھی ایک بڑی نعمت ہے ۔ زرخیز زمین ہونے کی وجہ سے یہاں پر کاشتکار پھل پھول رہی ہے تاہم کچھ اہم شعبوں میں کاشتکاری میں کافی گنجائش ہے ۔ جیسے کہ باغبانی کا شعبہ ہے باغبانی وادی کشمیر کا اہم سیکٹر ہے ۔ یہاں پر باغبانی قدیم زمانے سے رائج ہے اور کلہن کی تاریخ سے لیکر مووجدہ دور تک وادی کشمیر میں باغبانی کا عمل جاری ہے اور قدیم زمانے میں پودوں کو بطور ادویات استعمال کیا جاتا تھا اور پوری دنیا کی طرح وادی کشمیر میں بھی جڑ بوٹیوں سا علاج کا رواج عام تھا ۔ باغبانی کی وجہ سے نہ صرف وادی کشمیر میں اقتصادی ترقی ہوئی بلکہ اس سے روز گار کے وسائل بھی پید ا ہوئے ہیں ۔ ہارٹیکلچر کا لفظ ”ہارٹس اور کلٹرا“ جو لاطینی الفاظ ہے سے ماخوذ ہے جس کا مطلب باغ بانی کی کاشت اور جسم او ر روح کی پرورش کے طور پر مانے جاتے ہیں ۔ وادی کشمیر میں دیگر زرعی سرگرمیاںں بھی رائج ہے جن میں میوہ کاشت کاری ، دھان ، سروسو ں وغیرہ کی کاشت بھی کی جاتی ہے وہیں باغبانی کا شعبہ بھی اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے ۔ سیب اور اخروٹ کے سبز باغوں سے لے کر پھولوں کی چمکدار رنگت تک، کشمیر کا باغبانی پینورما قدرت کے فضل اور انسانی ذہانت کا ثبوت ہے۔ چھوٹے پلاٹوں اور مخلوط فصلوں پر اپنی توجہ کے ساتھ باغبانی پیداواری صلاحیت کو جمالیات کے ساتھ جوڑتی ہے، اور زمین کو ایک ہم آہنگ پناہ گاہ میں تبدیل کرتی ہے۔جہاں تک کشمیر میں باغبانی کی تاریخ کی بات ہے تو باد شاہ نارا کے دور سے لیکر لل تا دتہ اور مغل دور سے موجودہ جمہوری دور تک باغبانی کا شعبہ پھیل پھول رہا ہے ۔ کشمیر کی وادی کو مزید خوبصورت باننے میں باغبانی کی اہمیت خاصی ہے ۔ پھلوں اور پھولوں کی کاشت کشمیری ثقافت میں گہرائی سے جڑی ہوئی ہے۔ کشمیری قدیم تاریخی اوراق میں خاص طور پر ”راج ترنگنی “ میں کشمیری باغبانی اور میوہ کاشت کا ذکر ہے جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ باغبانی کی صنعت کی گہرائی تواریخ میں پیوست ہے ۔ آج باغبانی کشمیر کی معیشت کا ایک ستون ہے سیاحت کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تقریباً 10,000 کروڑ روپے کی سالانہ آمدنی اور مجموعی ریاستی گھریلو پیداوار معیشت میں 8 فیصد کے تعاون کے ساتھ باغبانی کا شعبہ 7.5 لاکھ خاندانوں کی روزی روٹی فراہم کرتا ہے ۔چونکہ باغ کا ہر ہیکٹر سالانہ 400 دن کا روزگار فراہم کرتا ہے باغبانی سماجی و اقتصادی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک وسیلہ کے طور پر ابھرتی ہے۔سرسبز وادیوں اور برف پوش چوٹیوں کے درمیان سیب اور اخروٹ کشمیر کے باغبانی کے فضل کے تاج کے زیور کے طور پر سب سے زیادہ راج کرتے ہیں۔ باغات بارہمولہ، اننت ناگ، سری نگر، اور پلوامہ کے اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کی شاخیں امبری، لذیذ اور ”امریکن تریل“ سیبوں سے لدی ہوئی ہیں۔ اسی طرح، کاغذی، برزل اور وونتھ اخروٹ کی مخصوص قسمیں ذائقوں کا ایک دلفریب ذائقہ فراہم کرتی ہے ۔ اگرچہ وادی کشمیر میںشعبہ باغبانی اپنے آپ میں ایک مضبوط سیکٹر ہے تاہم اس کو آج بھی کئی طرح کی چلینجوں کا سامنا ہے ۔ سب سے بڑا چلینج موسم میں تغیر و تبدل ہے کیوں کہ بے وقت بارش اور بے موسم بادل اور شدت کی گرمی کا اثر براہ راست زرعی سرگرمیوں پر پڑتا ہے ۔
جبکہ بیرونی میوہ جات کی درآمدات اس شعبے کی ترقی کےلئے سم قاتل ہے اس کے علاوہ دیگر کئی اور مسائل ہے جن میں باہر کی منڈیوں تک رسائی بھی ایک مسئلہ ہے جس میں سرینگر جموں شاہراہ کی ناگفتہ حالت بھی ایک اہم چیز ہے ۔ اس کے علاوہ باغاتی اراضی میں تعمیراتی سرگرمیاں بھی سب سے بڑا چلینج ہے کیوں کہ روزافزوں زرعی اراضی خاص کر باغاتی اراضی پر تعمیرات اور دیگر ڈھانچوں کا قیام جاری ہے ۔ اگر ہم بادام اور اخروٹ کی کاشت پر نظر دوڑائیں گے تو بادام کے باغات اب دھیرے دھیرے کم ہوتے جارہے ہیں جبکہ اخروٹ کے درخت بھی بتدریج گم ہوتے جارہے ہیں۔ جہاں وادی کشمیر میں مختلف پھلوں کی کاشت کی جاتی ہے وہیں جموں میں بھی کئی اہم میوہ جات کاشت ہوتے ہیں ان میں امرود، رسیلے آم وغیرہ شامل ہے ۔ جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ باغبانی شعبے کو کئی طرح کی چلینجوں کا سامنا ہے اس لئے ضرور ت اس بات کی ہے کہ ان چلینجوں سے نمٹنے کےلئے زمینی سطح پر اقدامات اُٹھائے جائیں ۔ اس پھلتے پھولتے زمین کی تزئین و آرائش کے لیے، باغبانوں کو بااختیار بنانے اور مارکیٹ تک رسائی کو بڑھانے کے لیے ٹھوس کوششیں جاری ہیں۔ سبسڈی اسکیمیں، تعلیمی کیمپس، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے اقدامات کا مقصد اس شعبے کی لچک کو بڑھانا اور ایک پائیدار مستقبل کو یقینی بنانا ہے۔ جدت اور تعاون کی ثقافت کو فروغ دے کر، کشمیر کی باغبانی برادری رکاوٹوں کو دور کرنے اور اپنی زرخیز زمینوں کی مکمل صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتی ہے۔ باغبانی کے شعبے میں کافی گنجائش ہے اس سے نہ صرف جموں کشمیر کی معیشت مضبوط ہوگی وہیں وہیں اس سے لوگوں کو روزگار کے وسائل بھی پیدا ہوں گے ۔ کشمیر کے زرخیز ماحول کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے اور اس شعبے کو مزید بہتر بنانے کےلئے اقدامات اُٹھائے جانے چاہئے ۔