جنوبی ایشاءمیںکشمیر ایک ایسا خطہ ہے جو قدرت نے جنت کے طرز پر سجایا ہے یہ خطہ روح کو سکون فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک وسیع العریض قدرتی وسائل سے بھرا پڑا ہے ۔ یہاں کی برف پوش پہاڑی چوٹیاں، سبزہ زار، ندی نالے ، آسمان سے باتیں کرتے دیودار کے درخت ، ہرے بھرے جنگلات ، صاف اور میٹھے پانی کے چشمے ، بہتی ندیاں،جھرمت کرتے ہوئے جھرنے ، جنگلی حیات غرض یہ خطہ ایک جنت کانظارہ پیش کرتا ہے جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیاں بسا ہوا ہمالیائی خطہ ہے جو طویل عرصے سے تنازعات سے گھرا ہوا ہے ۔ یہ دنیا کا خوبصورت ترین میدان جنگ ہے جہاں پر فوجی تعیناتی نئی نئی کہانیاں پیش کرتی ہے جس میں قربانی، کامیابی اور حفاظتی اقدامات کے واقعات ہیں ۔ وردیوں میں ملبوس اہلکار خطے کے لوگوں کی حفاظت میں اپنی زندگی کا اہم حصہ صرف کرتے ہیں وہ اپنے گھروں سے دور پہاڑی چوٹیوں اور برفیلے میدانوں میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں جس کے سبب خطے میں امن و سلامتی یقینی بن جاتی ہے ۔ وادی کشمیر کے سرحدی علاقوں میں پہاڑی دروں پر فوجی اہلکار روزمرہ کی زندگی گزارتے ہیں اور سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں یہ دل کو چھولینے والا نظارہ ایک خواب جیسا لگتا ہے لیکن ان کےلئے یہ حقیقت سے لبریز لمحہ ہوتا ہے ۔ فوجی چوکیوں میں تعینات فوجی اہلکار دن رات سخت چوکسی رکھتے ہیں اور ہر مشکوک نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے حدود کی نگرانی کرتے ہیں ۔ موسم کی تبدیلی ان کےلئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتی کیوں کہ وہ سخت موسم میںبھی اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتے ہیں اور بھاری برفباری ، تیز ترار بارش ، آندھی طوفان ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھارتے ہیں ۔
وادی کشمیر میں کئی دہائیوں سے حالات مخدوش رہے ہیں اور خطے میں شورش نے اس جنت بے نظیر کو کئی مشکلات سے دوچار کیا جس کے باجود بھی فوجی اہلکار اپنے فرائض کی تندہی سے حفاظت کرتے ہیں بقائے امن کےلئے ان کی خدمات میں یہ مشغول رہتے ہیں ۔ سپاہی پہلی ترجیح عام انسانوں کی حفاظت اور امن کو دیتے ہیں انہیں اپنی جانوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی بلکہ ان کا مقصد بے گناہ افراد کی حفاظت کویقینی بنایا اور دشمن کا دلیرانہ مقابل ہوتا ہے ۔ فوجی اہلکار نہ صرف شدت پسندی کے ساتھ نبرد آزما رہتے ہیں بلکہ مقامی لوگوں کے ساتھ تعلقات اور ان کی مدد ان کی ترجیح ہوتی ہے ۔ فوجی اہلکار لوگوں کے ساتھ گل مل جاتے ہیں وہ ان کے ساتھ کھیتوں، کھلیانوں ، بازاروں میں ان کے ساتھ بے تکلفی کے ساتھ بات چیت کرتے رہتے ہیں جس کی بدولت فوج اور عوام کے درمیان ایک پل بن جاتا ہے اور وہ سماجی حصہ کے طور پر مقامی لوگوں کے کاموں میں حصہ داری نبھاتے ہیں جو ایک ایسی موجودگی کو مجسم بناتے ہیں جس کی تعریف نہ صرف ہتھیاروں کی طاقت سے ہوتی ہے بلکہ دلوں اور دماغوں کی ہمدردانہ رسائی سے ہوتی ہے۔
وادی کشمیر کے نظارے دل کو سکون اور روح کو تسکین فراہم کرتے ہیں ، جھیل ڈل کا سکوت سے بھرا پانی ، گہرے جنگلات ، دیودار اور دیگر اقسام کے نایاب درخت ، پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیاں حیرت انگیز نظارے ایک ایسا پس منظر فراہم کرتے ہیں۔کشمیر میں قدرتی نظاروں کے ساتھ ساتھ یہاں کی دستکاری بھی ایک خوبصورت کہانی بیان کرتی ہے ۔جو یہاں کی تواریخ کے اعتبار سے خطے کی منفرد شناخت قائم کرتی ہے ۔ یہاں کی موسیقی اور روایتی طرز زندگی یہاں تعینات فوج کےلئے ایک نئے تجربے میں اضافہ کرتی ہے ۔ جو زمین اور اس کے ورثے کے بارے میں ان کی سمجھ کو تقویت بخشتی ہے۔ فوج مقامی تہذیب اور روایت سے آشنا ہوتے ہیں اور مقامی لوگوں کے تہواریوں میں شامل ہوکر ان کی خوشیوں میں شریک رہتے ہیں اس طرح سے مقامی آبادی کے ساتھ ایک رشتہ قائم ہوتا ہے جو فوج اور عوام کے درمیان گہری سمجھ اور یکسوئی پیدا کرتی ہے ۔ہمالیہ کی چوٹیاں غروب آفتاب کے سامنے چھائی ہوئی ہیں، گہرے عکاسی کا ایک لمحہ خدمت کرنے والوں کے دلوں اور دماغوں کو لپیٹ دیتا ہے۔ شام کی خاموشی میں، دعا کی اذان گونجتی ہے، جو امن کے لیے پائیدار امید کی ایک پ±رجوش یاد دہانی ہے۔ تضادات کی اس سرزمین کے درمیان کھڑے ہوکر، فوجیوں کو مقصد کا زیادہ گہرا احساس، ماضی سے تعلق، اور مستقبل کی امید ملتی ہے۔ کشمیر میں تعینات فوجی اہلکار اپنے سفر میں علاقائی سالمیت اور ملکی دفاع کو مضبوط بناتے ہوئے مقامی برادری کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے اپنا فریضہ انجام دیتے ہیں جو ان کے حوصلے اور ان کی ہمت کی مثال پیش کرتی ہے ۔ سرحدوں پر اپنے فرائض انجام دہی کے دوران انہیں اس جذبے کا احساس دلاتا ہے کہ وہ حفاظت ، خدمت اور قربانی میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ یہ ان کے غیر متزلز حوصلے اپنے ملک کے تئیں خدمت اور اپنے مشن کےلئے ان کی لگن کا مظہر ہے ۔