وادی کشمیر دنیا میں جنت کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس خطے کو قدرت نے بے انتہا خوبصورتی سے نواز ا ہے اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے سبب یہ خطہ مشہور ہے ۔ قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ یہ بھر پور قدیم ورثے کی عکاس بھی ہے ۔ لوک کہانیوں کے ذریعے اس کی تاریخ اور ثقافت کے نشانات ملتے ہیں ۔ یہاں پر کئی لوک کہانیاں مشہور ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے ۔ کشمیری میں کئی لوک کہانیاں لوگوں کو اپنے ماضی سے جوڑتی ہے اور ان کو کشمیر کی تاریخ سے روشناس کراتی ہے یہ لوگوں کو مسحور کرتی ہے۔ یہاں پر کئی ایک مشہور کہانیاں ہیں لیکن ان میں سب سے دلچسپ کہانیوں میں سے ایک ہیمال اور ناگ راج کی کہانی ہے ۔ ہیمال ایک خوبصورت لڑکی اور ناگ راج ناگ شہزادہ ہے اور یہ کہانی ان کی محبت اور ایک دوسرے کےلئے قربانی پر مبنی ہے ۔ داستان کے مطابق ناگرائی کو ہیمال سے پیار ہوتا ہے جس نے ہیمال کے ساتھ رہنے کےلئے ناگ لوک چھوڑ کر انسان کی طرح انسان بن کر رہنے لگا ۔ ان کی کہانی محبت ، جذبہ ایثار، غم و کھ ، خوشیوں اور کئی پیچیدہ پلاٹس پر مبنی ہے ۔ ان کے درمیان سخت محبت ہونے کے باوجود بھی وہ کامیاب نہیں ہوئے کیوں کہ ان کا اتحاد معاشرتی اصولوں اور غلط فہمیوں سے متاثر ہوا، بالآخر ایک المناک انجام تک پہنچا ۔ یہ کہانی کشمیر کے پہاڑیوں ، پیر پنچال اور ہمالیائی ، طلسماتی خوبصورتی کی کا مشاہدہ کراتی ہے ۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس کہانی کو کسی سنت نے تخلیق کیا ہے ۔ لوک کہانیوں کے مطابق ایک سنت پہاڑوں سے سفر کر رہا تھا جب مقامی لوگوں نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی اور طرح طرح سے ستانے لگے تو ا س نے غصے میں آکر بد دعا کی جس کے نتیجے میں یہاں پر سخت سردی شروع ہوئی اور ناموافق موسمی حالات پیدا ہونے لگے ۔ جہاں اس کہانی میں کشمیریوں کی مہمان نوازی کو اُجاگر کیا گیا ہے وہیں کہانی سنتوں اور روحانی شخصیات کے تئیں لوگوں کے احترام کو بھی ظاہر کیا جاگیا ہے ۔یہاں کی کئی ایک دیگر کہانیاں بھی مشہور ہیں جن سنتوں سے منسوب ہے ۔ کیوں کہ یہاں پر کئی ایک ایسے صوفی سنت رہے ہیں جنہوںنے دنیا میں خداپرستی میں نام کمایا ہے ان ہی میں ایک نام لل دید کا ہے جنہیں یہاں پر للیشوری بھی کہا جاتا ہے ۔ لل دید کشمیر کے سب سے زیادہ قابل احترام صوفیانہ شاعروں اور سنتوں میں سے ایک ہے۔ اس کی زندگی اور کام بے شمار افسانوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی بیان کرتی ہے کہ کس طرح اس نے روحانی روشن خیالی کے حصول کے لیے چھوٹی عمر میں اپنا ازدواجی گھر چھوڑ دیا۔لل دید نے انسانیت اور کشمیریت کو زندہ رکھنے کےلئے کشمیر کے متعد د علاقہ جات کا سفر کیا وہ گاﺅ ں گاﺅں اور قریہ قریہ گھومتی رہی ۔ لل دید کی کئی تحایر نے معاشری اصولوں کو چلینج کیا ہے اور دقیانوسی سوچ کی مخالفت کی ہے ۔ لل دید کی نظموں کو کشمیری میں وخس کہا جاتا ہے ان کی شاعری لوگوں کی رہنائی اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ بھائی چارے اور فروعاتی رسموں سے چھٹکارا دلانے کےلئے ترغیب دیتی ہے ۔ اسی طرح سے اگر ہم کشمیر میں شنکر آچاریہ مندر کی کہانی پر بات کریں تو یہ سرینگر کے وسط میں بنی ایک پہاڑی پر واقع ہے کہا جاتا ہے کہ عظیم فلسفی آدی شنکراچاریہ نے آٹھویں صدی میں کشمیر کا دورہ کیا اور اس مقام پر مراقبہ کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی موجودگی اور روحانی توانائی نے اس خطے کو برکت دی ہے۔ شنکر آچاریہ کا مندر بھگوان شیو سے منسوب ہے ۔ یہ مندر مذہبی رواداری اور ملی جلی ثقافت کے طور پر ایک نشانی ہے ۔
اسی طرح سے کشمیر کے دارالخلافہ سرینگر میں یوز آصف کا آستان ہے جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ سلام نے یہاں پر قیام کیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یسوع مسیح نے آخری سالوں میں کشمیر کا سفر کیا تھا ۔ تاہم یہ روایت اگرچہ متضاد ہے اور اس کی کوئی اصل دلیل سامنے نہیں آئی ہے تاہم یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کشمیر شروع سے ہی تصوف اور روحانیت کا مرکز رہا ہے اور یہاں پر شروع سے ہی مذہبی رواداری کی روایت رہی ہے ۔ اسی طرح سے ہم ماتا بھوانی کے مندر جو ضلع گاندربل کے تولہ مولہ میں موجود ہے یہ مندر دیوی راگنیا دیوی سے منسوب ہے ۔ یہ مندر صرف ایک عبادتگاہ نہیں ہے بلکہ بہت سے ساری کہانیاں اور افسانے بھی اس سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ان ہی کہانیوں میں ایک جن کی کہانی ہے جس نے مندر کے آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو کافی ستایا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس مندر کا دفاع کرتے ہوئے وہ مرگیا اور اس کی روح اس مندر میں موجود ہے جو آج بھی اپنے عقیدت مندوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ اس طرح سے کشمیر میں کئی لوک کہانیاں اور داستانیں ہیں جو یہاں کی مذہبی رواداری ، ثقافت ، عقائد اور روحانی اہمیت کو اُجاگر کرتی ہیں۔ یہ کہانیاں کشمیر کی تاریخ اور قدیم روایت کو زندہ رکھتی ہے چاہئے وہ ہیمال اور ناگ راج کی کہانی ہو، لل دید اور دیگر سنتوں سے جڑی کہانیاں ہوں یہ کشمیری ثقافت اور تاریخ کی عکاسی کرتی ہیں۔