بٹ مظفر
کپواڑہ//کلاروس کپوارہ میں واقع گورنمنٹ اسکولوں میں طلباء سے پرنٹنگ چارجز کے نام پر فیس وصولی کا انکشاف ہوا ہے۔جو کہ حکومت کی تعلیمی پالیسی کے خلاف ورزی ہے۔ سرکاری احکامات کے مطابق ملک بھر کے سرکاری اسکولوں میں طلباء سے کسی بھی قسم کی فیس وصولی منع ہے،تاکہ غریب اور کمزور طبقے کے بچوں کو بغیر کسی مالی بوجھ کے تعلیم فراہم کی جا سکے۔ مگر اسکول انتظامیہ نے فی طالب علم 50روپیہ سے 100 روپے فیس وصولی کا فیصلہ کیا ہے۔جس نے والدین اور علاقے کے لوگوں میں غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔اس حوالے سے جب ہمارے نمائندے نے کئ اسکولوں بچوں اوروالدین کے ساتھ بات کی تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ فیصلہ اسکول کےانتظامیہ نے خود کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ”پرائیویٹ اسکول بھی اس طرح کی فیسیں لیتے ہیں اور ہم نے بھی اپنے طور پر یہ اقدام کیا۔” اس بیان نے لوگوں میں مزید اشتعال پیدا کر دیا ہے کیونکہ سرکاری اسکولوں کو پرائیویٹ اسکولوں کی طرح پیسے بٹورنے کے لئے نہیں بنایا گیا۔محکمہ تعلیم کی خاموشی، والدین کی امیدیں دم توڑنے لگیں کئی دن گزر جانے کے باوجود، محکمہ تعلیم کی جانب سے اس معاملے پر تاحال کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے اگر اس طرح غریب بچوں پر مالی بوجھ ڈالیں گے تو مفت تعلیم کے حکومتی دعوے بے معنی ثابت ہوں گے۔ والدین نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر حکومت واقعی مفت تعلیم فراہم کرنے کے دعوے پر سنجیدہ ہے تو کیوں ان اسکولوں میں فیس وصولی جیسے اقدامات کو روکا نہیں جاتا۔والدین کے مطابق، کپواڑہ کے کلاروس کے کئی سرکاری اسکولوں میں مختلف ناموں سے فیسیں وصول کی جاتی ہیں، جن میں بیس روپے، پچاس روپے، یا کبھی کبھی 100 روپے تک کی فیس بھی شامل ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ حکومت ایک طرف میڈے میلز، وردیاں، اور کتابیں مفت فراہم کرنے کے دعوے کرتی ہے، تو دوسری جانب یہ فیسیں کیوں وصول کی جا رہی ہیں؟ مقامی لوگوں نے سوال کیا ہے کہ کیا حکومت کے مفت تعلیم کے دعوے صرف دکھاوے کے لئے ہیں یا عملی طور پر بھی ان پر عمل کیا جائے گا۔
والدین کا اعلیٰ حکام سے مطالبہ
اس معاملے نے نہ صرف کلاروس بلکہ کپواڑہ کے دیگر علاقوں کے والدین میں بھی تشویش پیدا کر دی ہے۔
والدین نے ڈپٹی کمشنر کپواڑہ، چیف منسٹر، اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس غیر قانونی فیس وصولی کا نوٹس لیں اور اسکول انتظامیہ کے خلاف کارروائی کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات سرکاری تعلیمی نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کے سدباب کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔والدین کا کہنا ہے کہ اگر اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ سرکاری تعلیمی اداروں میں کرپشن اور غیر قانونی اقدامات کو فروغ دینے کا سبب بنے گا،
جس سے عوام کا سرکاری تعلیمی نظام پر اعتماد ختم ہو جائے گا۔ اس لئے والدین نے امید ظاہر کی ہے کہ اعلیٰ حکام اس معاملے کا فوری نوٹس لے کر اس کو جلد حل کریں گے اور سرکاری اسکولوں میں بچوں کو بغیر کسی مالی بوجھ کے تعلیم فراہم کرنے کے حکومتی وعدے کو پورا کریں گے