کسی بھی ترقی یافتہ ملک کو آگے بڑھانے اور ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچانے میں زرعی سیکٹر کااہم رول رہتاہے۔ کاشتکاری اور زرعی صنعت ملک کو خود کفیل بنانے اور معاشی استحکام کےلئے کافی اہمت ہے۔ ہندوستان میں ہر سال 23دسمبر کو قومی سطح پر ”کسانوں کا دن “ منایا جاتا ہے جس کا مقصد کاشتکاروں کی لگن ، محنت اور ملک کی ترقی میںان کے رول کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ کسانوں کو درپیش مسائل کو اُبھارنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کےلئے راہ ہموارکرنا ہے ۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ نے کسانوں کی معاشی حالات مستحکم کرنے اور ان کے حقوق انہیں دلانے کےلئے انتھک کوششیں کی ہیں اسلئے قومی کسان دن ان کے جنم دن کے موقعے پر منایا جاتا ہے ۔ قارئین جموں کشمیر کی اگر بات کریں تو ہمارے اس خطے میں 70فیصدی لوگ زرعی سرگرمیوں سے جڑے ہیں اور یہاں کی مٹی زرخیز ہونے کی وجہ سے کاشتکاری کی طرف اچھا رجحان ہے اسلئے اس دن کی اہمیت وادی کشمیر میں زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ اس دن پر کشمیری کاشتکاروںکے مسائل اُجاگر کرنے کا موقعہ ملتا ہے اوران کی آواز حکام بالا تک پہنچانے اور مسائل کے حل کےلئے کوششیں تیز کرنے کی یاد دہانی کے طور پر یہ دن کام کرتا ہے۔ جہاں اس دن کاشتکاروں کے مسائل کی طرف توجہ دی جاتی ہے وہیں کشمیر وادی میں جغرافیائی ، موسمی چلینج اور اقتصادی حالات پر غور وخوض کا موقع فراہم کرنے کےلئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے ۔ قارئین جس طرح ملک کے دیگر حصوں کے کسان کئی مسائل سے دوچار ہیں اسی طرح وادی کشمیر کے کاشتکار بھی کئی طرح کے مسائل اور مشکلات کے شکار ہیں ۔ کاشتکار کافی مشکلات میں کام کرکے خطے اور ملک کی ترقی میںکردار اداکرتے ہیں۔وادی کشمیر میں زرعی سیکٹر صرف اشیاءخوردنی کی پیداوار میں کردار نہیں نبھاتا بلکہ یہ کشمیر کی تہذیب، روایت ، سماجی بندھن اور ثقافت کو بھی مضبوطی کے ساتھ اس کے فروغ میں رول اداکرتا ہے ۔یہاں کی کاشتکاری کے ساتھ کئی رسوم جڑی ہیں اور روایتی طرز سماجی اور تہذیبی روایت کو زندہ رکھتی ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر کی مٹی زرخیز ہونے اور موسمی لحاظ سے منفرد ہونے کی وجہ سے یہاں پر کئی چیزوں کی کاشتکاری ہوتی ہے اور مختلف فصل پیدا ہوتے ہیں جن میں سب سے آگے سیب کی کاشتکاری ہے ۔ میوہ جات میںسیب، ناشپاتی، انگور، تربوزے ، خربوزے یہاں پر کاشت کئے جاتے ہیں البتہ سیب کی کاشت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہاں پر نہ صرف روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں بلکہ معاشی استحکام بھی پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح اگر ہم بات کریں دیگر فصلوںکی تو ان میں دھان، زعفران ، بادام ، اخروٹ خوبانی وغیرہ قابل ذکر ہے ۔ قارئین اس خطے کی زرخیز مٹی دریائے جہلم سے حاصل ہونے والے زرخیز ذخائر اور سازگار موسمی حالات کی بدولت مختلف فصلوں کی کاشت کے لیے ایک مثالی مقام ہے۔ جس طرح سے سیب اور دیگر میوہ جات کی یہاں کثرت سے کاشت کی جاتی ہے وہیں چاول بھی زرعی سیکٹر میں اہم فصل ہے ، کشمیری چاول کے کئی اقسام ہیں اور یہ خوشبودار اور ذائقے میں منفر د ہے ۔ جہاں وادی کشمیر میں کئی اہم آبی ذخائر موجود ہیں جن کے ذریعے کسان اپنی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں تاہم سنچائی میں دریائے جہلم ایک اہم کردار اداکرتا ہے ۔ دریائے جہلم جو کہ جنوبی کشمیر سے شروع ہوتا ہوا وسطی کشمیر اور پھر شمالی کشمیر کے راستے آگے بڑھتا ہے قریب قریب 90فیصدی کشمیر کو سیراب کرنے میں کردار اداکرتا ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر ندی نالے بھی کاشتکاروں کے کام آتے ہیں۔ چاول کے بعد یہا ں پر زعفران کی کاشت بھی اہم سمجھی جاتی ہے تاہم یہ موسمی لحاظ سے بالائی علاقوں میں کاشت ہوتی ہے اور زیادہ تر پانپور قصبے میں اس کی کاشت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے کیوں کہ آبپاشی اور موسمی صورتحال کےلئے قصبہ کی زمین کافی موزون ہے ۔ زعفران پوری دنیامیں اپنے ذائقے اور خوشبوکےلئے مشہور ہے ۔ زعفران ایک قسم کیا مصالحہ ہے جس کی کاشت نہ صرف خطے کی معاشی لحاظ سے اہم ہے بلکہ اس سے ہزاروں افراد کی روزی روٹی چلتی ہے ۔ کشمیر ی روایت اور تہذیب کا حصہ کے طور ربھی زعفران نے پوری دنیا میں اپنی پہنچان بنالی ہے ۔ اگرچہ دنیا کے مختلف ممالک میں زعفران کی کاشتکاری ہوتی ہے تاہم کشمیری زعفران کی بات ہی الگ ہے۔ قارئین کشمیر میں میوہ ، چاول اور دیگر فصلوں کے علاوہ سبزیوں کی کاشتکاری بھی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے اور کشمیر سے اب باہر کی منڈیوں تک بھی سبزی برآمد ہوتی ہے ۔ سبزیوں کی کاشتکاری کاجب ذکر آیا ہے تو ان میں ،کشمیری ساگ، کڈم ، ٹماٹر، مولی، سبز مرچ، پھول گوبی ، بند گوبی کے علاوہ بینگن، شملہ مرچ اور دیگر اہم سبزیوں کے ساتھ ساتھ کئی مسالحہ جات بھی پائے جاتے ہیں جن میں سونف، کلونجی وغیرہ بھی شامل ہے ۔ تاہم وادی کشمیر کے کاشتکاروں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے جن میں سب سے بڑا مسئلہ موسمی حالات ہے ۔ موسمی تبدیلی نے کشمیری زرعی سیکٹر کو کافی متاثر کیا ہے ۔ اگرچہ پہلے وادی کشمیر کاآب و ہوا اور موسم کافی بہتر رہتا تھا جو وقت وقت پر کسانوں کےلئے کارآمد ثابت ہوتا تھا لیکن اب بے موسم برفباری، طویل خشک سالی ، حد سے زیادہ بارشیں ، وغیرہ بہت سے چلینج پیدا کرتے ہیں ۔ اس طرح کی موسمیاتی تبدیلی نے فصلوں کی پیداوار بھی متاثر کی ہے کیوں کہ جس موسم میں فصلوںکو دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے اُس وقت برفباری اور غیرمتوقع بارشیں جاری رہیتی ہیں اور جس موسم میں بارش کی ضرورت ہوتی ہے اُ س وقت خشک سالی اور سخت گرمی رہتی ہے جو فصلوں کی پیدوار کونہ صرف متاثر کرتا ہے بلکہ اس سے کئی طرح کی بیماریاں بھی فصلوںکو لگ جاتی ہے ۔ وادی کشمیر کے کاشتکاروں نے رواں سال بھی اس طرح کی صورتحال کا سامنا کیاجو فصلوں خاص کر میوہ جات اور دھان کی فصلوںکےلئے نقصان دہ ثابت ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ موجودہ تکنیک اور جدید سہولیات سے محرومی بھی کشمیری کاشتکاروں کےلئے کافی پریشان کن ثابت ہورہا ہے ۔ اگر یہاں کے کسان جدید تکنیک کااستعمال کرتے ہوئے اپنی کاشتکاری میں جدت لاتے تھے کافی حد تک انہیں فائدہ ملتا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ روایتی اور پُرانی طرز کی کھیتی باڑی اور کاشتکاری ایک تو سخت جسمانی محنت کاکام ہے دوسرا اس سے وقت بھی زیادہ ضائع ہوجاتا ہے ۔ جدید کاشتکاری کےلئے استعمال میں لائی جانی والی مشنری ، جدید فارمنگ سے آج بھی کشمیری کاشتکار محروم ہے یا یوں کہیں کہ اس جانب وہ توجہ نہیں دے رہے ہیں۔
اس رجحان کی وجہ سے ایک تو فصل کی تیاری میں وقت لگتا ہے دوسرا اس میں لاگت بھی زیادہ لگتی ہے جس کے نتیجے میں فصل کوئی زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوتی ۔ قارئین یہاں یہ با ت کہنا ضروری ہے کہ وادی کشمیر میں زرعی اراضی اب ٹکڑوںمیں بٹ رہی ہے جو کاشتکاری کےلئے بلکل بھی صحیح نہیں ہے کیوں کہ زمینوںکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے فصلوں کی پیداوار میں رُکاوٹ بنتے ہیں ۔ اپنے آبا واجداکی چھوڑی ہوئی اراضی کو نئی نسل اپنے اپنے طریقے سے کام پر لگاتے ہیں اور اس صورتحال کی وجہ سے ان چھوٹی زمینوں پر جدید مشنری کا استعمال بھی کم ہوتا ہے ۔ کیونکہ کاشتکار بڑے پیمانے کی معیشتوں سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس سے منافع بھی کم ہوتا ہے اور کسانوں کے لیے کاشتکاری کی بہتر تکنیک یا مشینری میں سرمایہ کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔اگر علاقہ کے کسان ایک دوسری سے جڑی اراضی پر ایک ہی ساتھ کاشتکاری کرکے اس پر ایک جیسا فصل اُگانے کی طرف توجہ دیں گے تو یقینی طور پر فصل میں اضافہ ہوگا جس آمدنی میں اضافے کا بھی ذریعے بنے گا۔ دوسری بات یہ کہ کشمیری کاشتکاروںکومنڈیوں تک رسائی میں کافی دشواریاں بھی پیش آرہی ہے کیوں کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سپلائی چین میں رکاوٹ آتی ہے اور کسان اپنی فصل کو بہتر قیمت پر فروخت کرنے سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ منڈیوں تک آسان رسائی میں سب سے بڑی رُکاوٹ حفاظتی خدشات کے پیش نظر نقل و حمل پر پابندی ہے جس کی وجہ سے کسانوں کی تیارکردہ فصل وقت پر منڈیوںتک نہیں پہنچتی اور فصل تباہ ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے اور کسانوںکو نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ وادی کشمیر میں جو فصل تیار ہوتی ہے وہ اعلیٰ قسم اور اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے تاہم باہر اور بین اقوامی منڈیوں تک براہ راست رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی معقول قیمت نہیں آتی جس کی وجہ سے کسانوں میں مایوسی بڑھ جاتی ہے ۔ اسی طرح کولڈ سٹوریج کی عدم دستیابی کی وجہ سے فصلیں زیادہ دیر تک تازہ نہیں رہ سکتی اور خراب ہونے کے اندیشے سے کاشتکار اپنی محنت کا صحیح معاوضہ حاصل نہیں کرپارہے ہیں۔
لھٰذا کشمیری کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کےلئے اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے ۔ قومی ”کاشتکاری “ کادن منانے کا بھی یہی مقصد ہونا چاہئے اور کشمیر میں اس دن کی اہمیت اس حوالے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ اس لئے ضررورت اس بات کی ہے کہ کشمیری کاشتکاروں کو بہتر بنیادی سہولیات، جدید ٹیکناجی کی فراہمی ، مارکیٹنگ اور منڈیوں تک آسان رسائی کے ساتھ ساتھ کاشتکاری میں نئے نئے طریقے اپنانے کےلئے ضروری تربیت ہونی چاہئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ فصلوں کے بیمہ کی سہولیات فراہم کرنا بھی لازمی ہے کیوں کہ بے وقت موسمی تبدیلی سے دوچار ہونے کے بعد کسانوں کو معاوضہ ملے تاکہ ان کی سال بھر کی محنت رائیگاں نہ ہو۔