وادی کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے اور اس خطے کو زمین پر جنت کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں کے کوہسار، آبشار، اونچے پہاڑ، بلند و بالادرختاں، قدرتی آبی ذخائر ، چرندو پرند اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگادیتے ہیں۔ قارئین وادی کشمیر جو کہ جغرفیائی ، موسمی اور تہذیبی و ثقافتی لحاظ سے ایک مفرد شناخت رکھتا ہے اس میں لوک کہانیوں، لوک گیتوں، رقص اور لوک ڈراموں سے یہاں کی منفرد شناخت ظاہر ہوتی ہے ۔ خاص کر اگر ہم بات کریں تو کشمیر میں لوک رقص مشہور ہے جس میںیہاں کی تہذیب ، تواریخ ، روایات اور سماجی اقدار کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ قارئین جس طرح سے پوری دنیا میں شادی بیاہ اور دیگر تہواروں کے مواقعے پر مقامی سطح پر مختلف خوشیاںاظہار کرنے کےلئے موسیقی ، سنگیت کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ اسی طرح وادی کشمیر میں بھی خوشی کے موقعے پر گلوکاری، موسیقی اور مقامی طرز کے رقص کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کی تقاریب ہوں، تہوار ہوں یا اور کوئی جشن نما موقع ہو ۔ لوگ سنگیت اور رقص اس میں شامل ہونا روایت ہی نہیں بلکہ ایک تاریخ بھی ہے جو یہاں کی ثقافت ، تہذیب اور تمدن کے ساتھ صدیوں سے جڑی ہوئی ہے اور یہ نسل در نسل منتقل ہوتی جارہی ہے ۔ قارئین موجودہ جدید دور میں بھی یہاں پر مقامی طرز رقص کی کافی اہمیت ہے کیوں کہ یہاں کی ثقافت اور تہذیب ہی کشمیری سماج کو ایک بندھن میں باندھے ہوئے ہیں جس میں ہندو، بدھ مت اور مسلمان شامل ہیں، جنہوں نے اپنی بھرپور روایات میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ کشمیر میں لوک رقص کی جڑیں قدیم زمانے سے ملتی ہیں، جو اکثر زرعی طریقوں، موسمی تبدیلیوں اور مذہبی تقریبات سے منسلک ہوتی ہیں۔قارئین کرام کومعلوم ہوگا کہ کشمیر میں روایت رقص میں مقبول عام جو رقص ہے وہ ”روف“ ہے ۔ روف مختلف مواقعے پر ہوتا ہے جیسے عید ،شادی بیاہ کی تقاریب ہوں یا فصل کی کٹائی کاموسم ہو ۔ روف یہاں کی خواتین خاص کر لڑکیوں کی جانب سے کیا جاتا ہے ۔روف ایک خاص طرح کا ڈانس ہی ہے جس میں خواتین دو دائرے بناتی ہیںاورپیروںکوآگے پیچھے کرتی ہوئی کوئی گیت گنگاتی رہی ہیں اور ایک دوسرے کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اور پیروں کو آگے پیچھے ایک سر میں کرتی ہیں۔روف کے دوران کئی طرح کے گیت گائے جاتے ہیں جن سے خوشی کااظہار ہوتا ہے جبکہ تہواروںکے مواقعے پر قدرت کی تعریف کی جاتی ہے اور تہوار کے حوالے سے خوشی کااظہار کیاجاتا ہے۔ قارئین یہ رقص بنیادی طور پر عید کے دوران پیش کیا جاتا ہے جس میں عید سے متعلق گیت گائے جاتے ہیں۔
روف کے علاوہ ایک اور مقامی طور پر کیا جانا والا ڈانس ہے جس کو ”دھومل “ کہا جاتا ہے بتایا جاتا ہے کہ یہ رقص واتل قبیلے سے پیش کیا جاتا ہے جو اکثر مقامی دیوتا کی پوجا سے منسلک ہوتا ہے۔ رقاص اپنے ثقافتی ورثے کی نمائندگی کرتے ہوئے رنگ برنگے ملبوسات اور وسیع سر کے پوشاک پہنتے ہیں۔ یہ رقص خاص مواقع کے دوران پیش کیا جاتا ہے اور یہ روحانیت اور فنکاری کے امتزاج کو ظاہر کرتا ہے۔قارئین جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ وادی کشمیر میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں جن میں کشمیری پنڈت بھی ہے جو یہاںکی تہذیب اور روایت کا ایک اہم جز بھی ہے ۔ تو کشمیری پنڈت بھی اپنے انداز سے رقص کرتے ہیں جیسے ’شکارہ‘ رقص جو تقریبات کے دوران مردوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ یہ رقص اکثر کشمیری پنڈتوں کی روزمرہ کی زندگی، رسومات اور عقائد کی عکاسی کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور رقص ہے جس میں اداکار کہانی سناتے ہیں اس میں مزاحیہ اور طنزیہ کہانیاںہوتی ہیں ۔ یہ بنیادی طور پر دیہی علاقوں میں مقبول ہے۔ یہ عام طور پر گایا جاتا ہے جو بنیادی طور پر سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل کے گرد گھومتا ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ رقص خاص موقعے پر ہوتا ہے جیسے کہ سیاسی لیڈران کی جیت ،یاکسی کے ہار جانے پر طنزیہ یہ رقص کیا جاتا ہے جس میں ایک دوسرے پر تنقید بھی ہوتی ہے ۔ قارئین کرام جہاں پر رقص کی ایک الگ اہمیت ہے وہیں رقص کے دوران پہنے جانے والے لباس کی بھی اہمیت ہے اور ”روف “ کے دوران کشمیری ”فرن“ کا استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فرن ایک لمبا کرتا جیسا ہوتا ہے اور رنگ برنگے کپڑوں سے تیار کردہ یہ روف کے دوران ایک دلکش منظر پیش کرتا ہے ۔ ان فرنوں پر مختلف دھاگوںسے کڑھائی بھی کی جاتی ہے جس کو عرف عام میں”تلہ فرن“کہا جاتا ہے اور اس طرح سے یہ مقامی روایت کوزندہ رکھنے کا بھی ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ روف کے دوران ڈول یا ڈفلی، سنتور، تمبخ ناری اور مٹی کا مٹکا استعمال کیا جاتا ہے جو ایک تال بناکر رقص کرنے والوں کےلئے ایک راہ متعین کرتا ہے اور فن کار ان کی تال پر اپنا رقص کرتے ہیں۔ غرض کشمیر میں ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے ”روف “کافی اہمیت کا حامل ہے ۔