مصنف:ارشد رسول
وادی کشمیر پوری دنیا میں خوبصورت ترین خطہ مانی جاتی ہے جہاں پر سرسبز وادیاں، بلند و بالا برفیلے پہاڑ، گھنے جنگلات، دریاء، جھرنے اور خوبصورت و صاف و شفاف جھیل اس کی خوبصورتی کو دوبالا کردیتی ہے ۔ اس خوبصورت وادی میں کلچر، ثقافت اور تمدن بھی اتناہی زیادہ خوبصورت ہے جتنی کہ یہ وادی ہے اور اس وادی میں ادبی تہذیب کی بات ہی نرالی ہے ۔ وادی کشمیر میں کئی ادبی شخصیت نے جنم لیا ہے جنہوںنے اپنی خدمات سے کشمیر کی روحانی اور جذباتی وابستگی ظاہر کی ہے ۔ جبکہ ان بلند پایہ شاعروں ، ادیبوں نے وادی کشمیر کے مختلف پہلوﺅں پر طبع آزمائی کی ہے اور اپنے کلام کے ذریعے خوشی ، رنج و غم ، محبت و ہمدردی اور ایثار اور وفاداری کو اُجاگر کیا ہے ۔
وادی کشمیر میں بہت سے نامور صوفی شاعروں نے جنم لیا ہے جن کے کلام نے روحانی فلسفہ، تعلیمات اور بھائی چارے کو فروغ دیا ہے ۔ ان ہی اعلیٰ پائیہ کے شاعروں میں سے ایک نام ”لل دید“ کا ہے جنہیں للیشوری کے خطاب سے بھی جانا جاتا ہے ۔ انہوںنے صوفیانہ شاعری میں جو مقام حاصل کیا ہے آج تک اور کوئی ادیب نہ کرسکا ۔ ان کی شاعری پر مشتمل نظمیں صدیوں سے نسل در نسل منتقل چلی آرہی ہیں ۔ انہوںنے اپنے کلام کو مخصوص کسی مذہب یا عقیدے تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ ان کے کلام میں روحانی فلسفہ، فطرت سے گہرا تعلق اور سچائی پر مبنی ہے ۔ ان کی شاعری بھی کسی مخصوص طبقہ کی مراث نہیں سمجھی جاتی ہے بلکہ کشمیر میں مقیم ہندواور مسلم دونوں ان کے کلام کو عمدہ اور اعلیٰ پایہ کا تصور کرتے ہوئے اس کی تعزیم کرتے ہیں ۔ لل دید نے نہ صرف اپنی زندگی میں کشمیری زبان کو اپنے کلام سے فروغ دیا بلکہ اس کو ہمیشہ کےلئے زندہ رکھنے کےلئے بھی اپنا رول اداکیا ہے اور آج ان کے کلام کو کشمیری ادب میں اعلیٰ مقام حاصل ہے ۔
قارئین اسی طرح اگر ہم دیگر صوفی شاعروں کا ذکر کریں تو ان کی اس صوفیانہ روایت کی پیروی کرتے ہوئے شیخ نورالدین نورانی ؒجو نند رشی کے نام سے مشہور ہیں، جو کشمیری سنتوں کے رشی حکم کے بانی مانے جاتے ہیں۔ مقامی زبان میں لکھی گئی ان کی شاعری میں ہمدردی، سادگی اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی پر زور دیا گیا ہے۔ لل دین اور شیخ نورالدین نورانیؒ کی کشمیری زبان پر شاعری کا آج تک کوئی ثانی نہیں رہا ہے اور ان کے کلام میں جو خداپرستی، انصاف پروری ، انسانیت دوستی کا درج ہے وہ آج تک اور کسی کلام میں نظر نہیں آیا ہے ۔
قارئین وادی کشمیر نے سیاسی اور دیگر تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا اور کئی ساری تبدیلیاں دیکھیں گئی تاہم ادب اور ادب سے تعلق رکھنے والے شاعروں کا نظریہ تبدیل نہیں ہوا ۔ 20ویں صدی کے شاعروں میں اگر کسی نے بین الاقوامی سطح پر نام کمایا ہے تو وہ آغا شاہد علی ہے جنہوںنے خطے کے پس منظر پر اپنے قلم کو جنبش دی ہے ۔ انہوںنے جہاں خطے کی حسین وادیوں کو اپنے کلام میں جگہ دی ہے وہیں انہوںنے یہاں پر سیاسی منظرنامے پر بھی طبع آزمائی کی ہے اور ان کے شاعری مجموعہ ”پوسٹ آفس کے بغیر ملک “ نے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل کی ہے جس میں انہوںنے کشمیر کے سیاسی پس منظر، مخدوش حالات ،اپنے وطن سے جدائی کی عکاسی کی ہے ۔ آغا شاہد علی کی شاعری ذاتی کو سیاسی سے جوڑتی ہے، کشمیر کو گمشدہ جنت اور ایک گھر دونوں کی تصویر کشی کرتی ہے۔ نقل مکانی اور شناخت کے جدید موضوعات کے ساتھ ان کی غزل کی روایتی شکل کا استعمال کشمیر کی خوبصورتی اور اس کے درد کی دوہری عکاسی کرتا ہے۔ان کے کلام نے پوری دنیا میں پذیرائی حاصل کی ہے ۔ قارئین ہر دور کے شاعروں نے کشمیر کو اپنے کلام میں جگہ دی ہے اور اس کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے اس خطے کو جنت بے نظیر قراردیا ہے ان ہی غیر کشمیر شاعروں میں سلمان رشدی بھی ہیں جنہوںنے اپنی تصنیف ”مڈنائٹ چلڈرن“ میں کشمیر کو خوابوں کی وادی قراردیتے ہوئے کشمیر کے حالات کی تصویر کشی کی ہے ۔
قارئین صوفی شاعروں نے جہاں پر اپنے وقت میں ان ہی حالات کی عکاسی اپنے کلام میں کی جس میں ان کی زندگی گزری تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات بھی تبدیل ہوئے اور 20 ویں صدی کے نصف آخر میں کشمیری ادب میں ایک تبدیلی دیکھنے میں آئی، مصنفین نے اپنی نظریں اس سیاسی تنازعہ کی طرف موڑ دیں جس نے 1980 کی دہائی کے آخر سے خطے کو دوچار کر رکھا ہے۔ان ہی ادیبوں میں ایک نام بشارت پیر کا ہے جنہوںنے کشمیر کے حالات پر طبع آزمائی کرتے ہوئے ”کرفیوڈ نائٹ “ میں کشمیر کی داستان کو پیش کیا ہے اور یہاں کے حالات کی بھر پور عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اسی طرح دیگر شاعروں نے بھی اپنے کلام کے ذریعے کشمیر کی خوبصورتی ، تبدیلی اور حالات کی عکاسی کی ہے ان ادیبوں میں فرح بشیر، سمایارفیق جیسے ہم عصر شاعر بھی ہیں جنہوںنے کشمیر میں روزمرہ کے حالات ، تنازعہ کی وجوہات اور اس سے لوگوں پر پڑنے والے اثرات کو اُجاگر کیا ہے ۔
غرض ہر دور میں شاعروں اور ادیبوںنے کشمیر کو اپنے نظریہ اور حالات کے مطابق اُجاگر کیا ہے جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وادی کشمیر میں ادب اور ادب داں ہمیشہ رہے ہیں ۔ اور کشمیر کا ایک اپنا ادبی ورثہ ہے جو کہ لل دید ، نندریشی ، شاہد علی ، بشارت پیر اور دیگر شاعروں اور ادیبوں کے کلام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ ہر دور میں ادیبوںنے کشمیر کو جہاں جنت قراردیا ہے وہیں اس جنت نما خطے میں تنازعہ ، تضاد ، سیاسی خلفشار اور دیگر معاملات کو بھی اُجاگر کیا ہے جن کی وجہ سے یہاں کے بھائی چارے ، روایت اور کشمیریت کو نقصان پہنچا ہے ۔ کشمیری ادب نے دنیا کے سامنے کشمیر کے صحیح حالات و واقعات رکھے اور یہاں کی وادیوں میں جو درد موجود ہے اس درد کا احساس دنیا کو دلایا ہے ۔