پاکستان کشمیر میں حق خود ارادیت کی سات دہائیوں سے حمایت کرنے اورکشمیریوں کے ساتھ ہمدردی کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے اصل میں پاکستان کو کشمیریوں کے ساتھ نہ کبھی ہمدردی تھی اور ناہی ہوگی ۔ اس کی مثال ہم یہاں پاکستان کے زیر قبضہ جموں کشمیر کے موجودہ بحران اور سیاسی خلفشار سے دے سکتے ہیں۔ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کے مختلف علاقوں جن میں میر پور، مظفر آباد ، گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں میں لوگوں کو کئی طرح کی پریشانی ہے اور سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے ۔ اس میں پاکستان نے اس خطے کو ہمیشہ سے ہی نظر انداز کررکھا ہے اور صرف سیاسی مفاد کی خاطر ہے اس پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ اس خطے میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیاںہورہی ہیں۔ نوجوانوں کا اغو ا، جبری گمشدگی ، جعلی انکاونٹروں میں ان کا قتل جیسے جرائم میں یہ ملک براہ راست ملوث ہے ۔ مظفر آباد اور دیگر علاقوں میں گزشتہ برس ایک عوامی احتجاجی لہر چھڑ گئی جبکہ رواں برس 11فروری 2025کو دیامر گلگت کے ہزاروںلوگ ضلع ہیڈ کوارٹر چلاس میں ائیر پورٹ کے علاقے میں جمع ہوئے اور دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کےلئے اراضی دینے والے لوگوں کےلئے معاوضے کے مطالبے کو لیکر احتجاجی مظاہرے کئے ۔جہاں تک تعلیم اور دیگر خدمات کی فراہمی کا تعلق ہے تو اس میں خطے کو محروم رکھا گیا ہے اور ناقص سہولیات سے لوگ پریشان ہے ۔ اس کی مثال حالیہ احتجاجی مظاہروں سے ملتی ہے ، بتایا جاتا ہے کہ فروری میں، بورڈ آف ایلیمنٹری ایگزامینیشن، گلگت بلتستان نے سرکاری سکولوں کے طلباءکے نتائج جاری کیے تھے۔ نتائج کے مطابق گریڈ 5 کے صرف 41 فیصد طلباءنے امتحان پاس کیا۔ اس کے مقابلے میں آٹھویں جماعت کے پاس ہونے کی شرح 29 فیصد رہی جس سے ظاہر ہے کہ خطے کے بچوںکو کس طرح سے تعلیم کے حق سے محروم رکھا جارہا ہے اور سرکاری سکولوں میں بہتر سہولیات، درس و تدریس کا بہتر نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان سکولوں میں زیر تعلیم بچے آگے بڑھ ہی نہیں سکتے اس بات پر بھی لوگوںمیں غصہ بڑھ گیا اور گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری سکولوں کے ناقص معیار پر احتجاج شروع ہوا۔
قارئین پاکستان کی جانب سے دعوے تو کئے جارہے ہیں کہ پاکستانی زیر قبضہ جموں کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور اس خطے کے لوگوں کی بہتری کےلئے پاکستان وعدہ بند ہے تاہم زمینی سطح پر جب ہم دیکھتے ہیں تو حالات اس کے برعکس ہے اس خطے کے لوگ گزشتہ سات دہائیوں سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے ، ناقص تعلیمی نظام ، طبی سہولیات کی عدم دستیابی، بنیادی ڈھانچے کی بُری حالت سے لوگ سخت پریشان ہے ۔ دوسری طرف پاکستان خطے کو ”آزاد “ خطہ قراردیتے ہوئے اس کو آزاد کشمیر کہتا ہے لیکن ایسا بلکل بھی نہیں ہے بلکہ آزاد کشمیر میں اگرچہ خودمختار حکومت ہے تاہم اس کی ڈور پاکستانی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے اور کوئی بھی اہم فیصلہ اس نام نہاد آزاد حکومت کو لینا کا اختیار نہیں ہے ۔
اب ان ناانصافیوں کے خلاف اگر کوئی بات کرے تو اس کی خیر نہیں ۔ سیاسی لیڈران کو بولنے کی اجازت نہیں ، صحافیوں کو پاکستان کی ان جابرانہ پالیسی کے خلاف لکھنے اور کہنے کی اجازت نہیں ہے اور اگر کوئی اس معاملے پر بات کرتا ہے تو اس کو جبری گمشدگی ، دھمکی اور قید کیا جاتا ہے ۔ اس طرح سے اظہار رائے کی آزادی پر بھی اس خطے میں قدغن ہے ۔ پاکستانی زیر قبضہ جموں کشمیر میںجبر و ظلم کے خلاف بات کرنا تو دور کوئی تنقید بھی نہیں کرسکتا ہے خاص طور پر اس خطے میں میڈیا پر سخت پابندی عائد ہیں پاکستان کی انتظامیہ یا فوجی انٹرفیس پر کسی بھی قسم کی تنقید کو فوری طور پر خاموش کر دیا جاتا ہے۔ وہ سیاسی جماعتیں جو حقیقی آزادی یا ہندوستان کے ساتھ انضمام کی وکالت کرتی ہیں انہیں سخت کریک ڈاو¿ن کا سامنا ہے۔کوئی بھی میڈیا ادارہ اس معاملے میں بات نہیں کرسکتا اور ناہی خطے میں ہورہے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرسکتا ہے ۔ قارئین جیسا کہ یہ بات سبھی لوگ جانتے ہیں کہ جموں کشمیر کا پورا خطہ آر پار تمام علاقہ جات قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور خدا نے اس خطے کو بے حد وسائل دیا ہے ۔تاہم پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کی اگر ہم بات کریں تو اس کے وسائل کا خطے کو کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اور خطے بے روزگاری ، غربت سے دوچار ہے ۔ خطے میں قدرتی وسائل یہ ملک اپنے مفاد اور ترقی کےلئے استعمال کرتا ہے رہتا ہے اور آئے روز یہاں کی معدنیات کی لوٹ ہوتی ہے ۔ خاص طور پر اگر ہم پانی کے وسائل کی بات کریں تو خطے میں پاکستان میں کئی اہم بجلی کے پروجیکٹ چلائے جارہے ہیں جو ملک کی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کےلئے استعمال میں لائے جاتے ہیں البتہ خطے کو بجلی کی سہولیات سے نہ صرف محروم رکھا جارہا ہے بلکہ ان کو اس کی فراہمی پر بیجا رقم اداکرنی پڑتی ہے ۔ دوسری طرف بجلی کی قلت، ناقص انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری کی کمی نے خطے میں بے روزگاری کے مسائل بڑھادیئے ہیں۔ اور یہاں کے مقامی لوگ بیرون ملک یا پاکستان کے مختلف شہروں میں نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے چین کی بڑھتی ہوئی شمولیت نے مقامی آبادی کو مزید الگ کر دیا ہے کیونکہ وہ اپنی زمین کو ان کی مرضی کے بغیر غیر ملکی مفادات کے لیے استعمال ہوتے دیکھ رہے ہیںتاہم وہ اس معاملے پر بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں کیوں کہ انہیں پھر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ پاکستانی فوج اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے جبری حراست، حراستی قتل، جبری گمشدگی کی اطلاعات پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے آواز اُٹھائی جاتی ہے تاہم یہ صدا بسحرا ثابت ہورہی ہے ۔
اب اگر ہم پاکستانی زیر قبضہ کشمیر اور ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیں تو دونوں خطوں کی ترقی میں کافی فرق ہے ۔
ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر میں بہتری انفراسٹریکچر، روزگار کے مواقعے ، بہتر تعلیم اور طبی خدمات لوگوں کو مئیسر ہیں ۔ یہاں پر سیاسی اور معاشی لحاظ سے لوگوں کو آزادی مئیسر ہے بہتر حکمرانی اور سماجی آزادی لوگوں کو حاصل ہے ۔ سکولوں اور تعلیمی اداروں میں بنیادی ڈھانچے کی بہتری سکولوں میں تعلیمی نتائج بہتر ہونے سے تعلیمی شعبے کی بہتری ظاہر کرتی ہے ۔
جموں کشمیر سے دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر ہندوستان کے ساتھ مکمل طور پر ضم ہوگیا ہے اور اس کے بعد خطے کی تعمیر و ترقی میں بہتری آئی ہے ۔ ا س طرح سے منقسم جموں کشمیر کے دو الگ الگ خطوں میں متضاد صورتحال ہے ۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستانی زیر قبضہ کشمیر میں اس ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھائی جارہی ہے۔ گلگت بلتستان میں آئینی حقوق، اقتصادی ترقی اور سی پیک کے تحت پاکستانی فوج اور چینی کمپنیوں کی جانب سے زمینوں پر قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔تاہم ان مظاہرین میں شرکت کرنے والوںکوملک دشمن قراردیکر ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے ۔اس طرح سے پاکستان کے یہ دعوے کہ اس کے زیر قبضہ جموں کشمیر خود مختار ہے سراسر بے بنیاد ہے ۔