وقف املاک جس کی بنیاد مسلم قوم کے مذہبی، معاشرتی اور خیراتی مقاصد لیے رکھی گئی تھی۔ بڑے پیمانے پر یہ بدعنوانی، بد انتظامی اور جرم کا پورے ہندوستان میں گڑھ بن گیا ہے۔ بہت سارے حالیہ مقدمات وقف بورڈ کے بالا دستی طاقت پر روشنی ڈالتے ہیں، ان املاک کے غیر قانونی فروخت کرنے اور لیز پر دینے، مالی بد انتظامیوں کا نتیجہ اس قوم کے بڑے نقصان کے طور پر سامنے آیا.
بد عنوانی کے بہت سے صریح معاملات میں سے امام باڑا مرزا غلام حیدر رہ جو کہ بادشاہ منڈی، پریاگراج میں ہے۔ 2017 میں، اس وقت کے متولی (دیکھ بھال کرنے والے) وسیم رضوی سے مل کر جو کہ اس وقت اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین تھے۔ غیر قانونی طریقے سے امام باڑا کا ایک حصہ منهدم کر دیا اور تجارتی کمپلیکس بنا ڈالی، جو کہ پوری طرح سے وقف پراپرٹی لیز رولس 2014 ، کی خلاف ورزی تھی۔ یہ دکانیں لیز پر دیے گئے تھے بازاری قیمت کے بہت کم قیمت پر کرایہ داروں کو مجبور کیے جاتے تھے کہ غیر قانونی طور پر 30 60 لاکھ روپیہ ادا کرے، اس بد انتظامی کی وجہ سے وقف بورڈ کو ایک اندازے کے مطابق ہر مہینے میں پانچ لاکھ کا نقصان ہوا مزید بران، متولی نے غیر قانونی طور پر 65- 75 لگه وسیم رضوی کو ادا کیا اس غیر قانونی تعمیر کی اجازت حاصل کرنے کے لیے.
تمل ناڈو میں استیک ریوینو افیسرس (SROS)، تامل ناڈو وقف بورڈ (TNWB) کے افسران کے ساتھ ملی بھگت کر کے وقف املاک جس کی قیمت کروڑوں روپیے تھیں، غیر قانونی طریقے سے فروخت کر دیا۔ خبریں بتائیں ہیں، کہ 1,030 وقف املاک کی تقریبا 60 فیصد جو کہ سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ روپے کی آمدانی پیدا کرتے ہیں، قابل ناڈو کے عدالتوں کے اسکیم کے اندر آئے ہیں۔ بحرحال (TNWB) قانونی ذرائع کو نظر انداز کر کے، من مانی تقرری کی اور متولیوں (دیکھ بھال کرنے والے) کو برخاست کیا، یہ ظاہر کرتی ہے۔ بورڈ کے غیر قانونی طاقت کو جس کا وہ استعمال کرتے ہیں۔ ایک دوسرا تنازعہ، وقف زمین کے مختص کے بارے میں ہے، جس میں DMK ترجی دسترکت واپس شامل ہے، کالابنار اریولیم، جس کی تعمیر وقف کی اعظم زمین پر کی گئی ہے. وہ (TNWB) سے تعلق رکھتی ہے۔ قانونی ذرائع کی صحیح طریقے کے بجائے، زمین کسی سیاسی جماعت کو کیرائے یہ دی جاتی ہے، صرف اس فیصلے کی وجہ سے جو وقف بورڈ نے طے کیا تهاء بغیر کسی عدالتی تفتیش کے۔ اس غیر قانونی مختص مسلم قوم کے لیے ایک عظیم نقصان کا نتیجہ ثابت ہوا، اور یہ زمین جو مذہبی اور بھلائی کے مقاصد کے لیے استعمال کیے جا سکتے تھے۔ مزید بران، مساجد اور مذہبی جگہوں کے بے شمار ایسے مثالیں ہیں جس پر جبر دستی قبضہ کر لیے گئے ہیں، ایسے جماعتوں کے ذریعے جو کہ نظریاتی وہ طبقاتی طور پر (TNWB) سے مدد حاصل کرتے ہیں۔ ایک نمایاں مثال چنٹی کے ایلس روڈ پر واقع چیٹی کی گرینڈ مسجد انول بند مسجد) پر زبردستی قبضہ ہے، جہاں ایک مخصوص فرقے نے، جسے تمل ناڈو وقف بورڈ (TNWB) کی حمایت حاصل تھی، مسجد پر طاقت کے ذریعے قبضہ کر لیا۔ ایک اور تشویشناک معاملہ کرشناگیری ضلع میں حضرت یعقوب درگاه پر زبردستی قبضے سے متعلق ہے، جس میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PET) کے ایک رکن کو مبینہ طور پر TNWB کے عہدیداروں کی حمایت حاصل تھی PFI کی حمایت کرنا جس کے اوپر انتہا پسندی کے اعمال کا الزام لگایا گیا ہے، یہ واقعات بہت ہی نجیده حفاظتی خدشات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس حالت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے، اس بات پر دھیان دینا ضروری ہو جاتا ہے کہ مدراس بانی کورٹ نے حال ہی میں نیچلی عدالت کے فیصلے کو بر قرار رکھا جو کہ سید حیدر علی جو تمل ناڈو وقف بورڈ کے سابق چئرمن تھے، سزا سنائی تھی، اور یہ قیدی کی سزا FCRA کی خلاف ورزی کی وجہ سے تھی۔ یہ نگرانی واضح طور پر مالی بدعنوانی وقف اداروں کے اندر روشنی ڈالتی ہے اور فوری اصلاحات کی ضروری کی طرف رہنمائی کرتی ہے، مزید بدعنوانی کو روکنے کے لیے۔
وقف ایکٹ کی ضرورت ہے فوری ترمیمی کی، جو احتساب، شفافیت اور وقف املاک کی صحیح نگرانی کو یقینی بنائے۔ سب سے زیادہ معتبر اصلاحات میں سے ایک یہ ہے کہ وقف بورڈ کے افسران کی سختی سے نگرانی کی جائے، تاکہ غیر قانونی فروخت اور بدانتظامی کوروکا جا سکے، جو بہت سارے ریاستوں میں واضح طور پر روان دوان ہے۔ مزید براں، ایک آزادنہ عدالتی تفتيش وقف زمین کے ری مختص کر دینے اور نیز دینے پر ہو، جو یہ یقینی بنائے کہ ان املاک کو غیر قانونی طور سے لیز پر نہ دیا جائے یا کسی افراد یا جماعتوں کو کم قیمت پر فروخت نہ کیا جائے، جو کسی سیاسی یا طبقے کی تعلقات سے جلے ہوئے ہوں۔ مزید براں، وقف اداروں کے اندر واضح بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے جرائم کا عمل کا مواخذہ لینا ہے ان وقف بورڈ کے ممبروں کے خلاف جو مالی بدعنوانی اور غیر قانونی منتقلی سے جلے ہوئے ہیں۔ ایک مکمل عالی شفافیت کی ضرورت ہے، جو اس نظام کی حسابتی تفتیش کرے اور اس کا تعارف کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وه وقف املاک کی آمدانی اور خرچے پر نگرانی کر سکے۔ استعمال اور یہ کیا بھی یقینی بنائے کہ فنڈ کا لوگوں کی بھلائی کے لیے جائے، نہ کہ ذاتی ترقی کے لیے استعمال ہو۔ ایک دوسرا معاملہ یہ ہے کہ مساجد، مزاروں اور دوسرے مذہبی املاک پر ایسے جماعت اور افراد کی جبر دستی قبضہ کر لینا جو کسی مخصوص طبقے سے سے یا سیاسی تعلقات سے جڑے ہوتے ہیں، اکثر یہ لوگ وقف بورڈ کی پشت پناہی میں ہوتے ہیں۔ سخت قانونی اقدام کا نفاذ ضروری ہے ان مذہبی مقامات کی حفاظت کے لیے اور یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ ان کے حقیقی قوموں کے لیے یہ رسائی باقی رہے۔ بغیر ان ضروری اصلاحات کے، وقف کا نظام مسلسل بدعنوانی، غلط استعمال اور بدانتظامی سے خراب ہوتے رہیں گے اور مسلم قوم کو ضروری ذرائع جو ان کے فوائد کے لیے ہیں محروم کرتے رہیں گے۔
بد عنوانی، بدانتظامی اور غیر قانونی منتقلى وقف بورڈ کے اندر مسلسل پائے جاتے ہیں، جو فوری قانونی اور انتظامی دخل اندازی کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان اصلاحات کے بغیر، وقف املاک مسلسل بدعنوان افسران اور سیاستدانوں کے دلچسپیوں کے ذریعے غلط استعمال کیے جائیں گے، اور اس قوم کو ان کے حقیقی ذرائع سے محروم کر دیے جائیں گے۔
ریشم فاطمہ
انٹرنیشنل ریلیشنس میں ماسٹر جواہر لال نہرو یونیورسٹی