منقسم جموں کشمیر کا خطہ چاہئے وہ پاکستانی زیر قبضہ کشمیر ہو یا ہندوستان کے حصے کا جموں کشمیر یا پھر چین کے قبضے والے حصے کی بات ہو دہائیوں سے وقت وقت پر مباحثے کا باعث رہا ہے ۔ چاہے وہ تاریخی دور ہو، سیاسی اور سماجی مسائل ہوں یہ خطہ سرخیوں میں رہنے کے ساتھ ساتھ موضوع بحث رہتا ہے ۔ قارئین منقسم جموں کشمیر کا پاکستانی زیر قبضہ کشمیر اور بھارتی حصے کا کشمیر جغرافیائی لحاظ سے ایک ہی خطہ ہے اور دونوں علاقوں میں موسمی اور جغرافیائی یکسانیت ہیں تاہم اگر ہم جموں کشمیر کی بات کریں جو کہ بھارت کے زیر انتظام ہے تو اس میں پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کے مابین طرز زندگی اور سہولیات کا کافی فرق نظر آرہا ہے خاص کر اگر ہم 2019کے بعد کی بات کریں تو جموں کشمیر جمہوری اور آئینی خطوط پر چلایا جارہا ہے اور خطے میں میں ایک عوامی منتخب سرکار ہے جو کہ مرکز کی نگرانی میں کام کررہی ہے ۔ جموں کشمیر کے لوگوں کو دفعہ 370کی منسوخی کے بعد وہ تمام حقوق فراہم کئے جارہے ہیں جو ملک کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں جبکہ ملکی قوانین کااطلاق بھی براہ راست ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ مرکزی سرکار کی جانب سے جاری کردہ مختلف فلاحی سکیموں کا بھی جموں کشمیر میں بغیر کسی رُکاوٹ کے نفاذ ہوتا ہے جس نے نہ صرف نوجوانوں کو بہتر تعلیم تک آسان رسائی حاصل ہوئی بلکہ نوجوانوں کےلئے روزگار کے مواقعے بھی پیدا ہوئے ہیں۔
قارئین اب اگر ہم پاکستانی زیر قبضہ کشمیر یعنی ”پی او کے “ کے حالات اور لوگوں کی طرز زندگی پر بات کریں تو اس میں کافی فرق نظر آرہا ہے ۔ اگرچہ پاکستانی حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ خطہ ”آزاد ہے “یعنی اس کو ”آزاد کشمیر “ کا نام دیا جاتا ہے تاہم یہ آزادی برائے نام ہے کیوں کہ اس خطے میں براہ راست ”اسلام آباد“ کی حکمرانی چل رہی ہے اور کنٹرول بھی وہی سے ہوتا ہے ۔ انتظامی اور سیاسی فیصلوں کا پی او کے “کی سیاسی قیادت کا کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ جو بھی مرکز کی جانب سے ہدایت جاری کی جاتی ہیں ان پر عمل ہورہا ہے اور جس جماعت کو مرکز چاہئے حکومت میں آتی ہے ۔ اس طرح سے سیاسی کنٹرول براہ راست اسلام آباد کے ہاتھ میں ہے ۔ قارئین پاکستانی فوج براہ راست ”پی او کے “ کے سیاسی فیصلوں میں مداخلت کرتی ہے ۔ اس خطے کے عوام کو بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور اظہار رائے کی آزادی ان سے چھین لی گئی ہے ۔ جو بھی مرکز ی سرکار کے خلاف بات کرے گا یا فوج کی مخالفت کرے گا اس کو سخت قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ جبری گمشدگی اور حراستی ٹارچر عام بات ہے ۔ جبکہ اس خطے میں نہ طبی سہولیات عوام کو مئیسر ہے اور ناہی تعلیمی سہولیات دستیاب ہے ۔
اسی تناظر میں اگر ہم بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں صحت ، تعلیم ، معاش ، کاروبار اور بنیادی ڈھانچے پر نظر ڈالیں تو فرق صاف نظر آئے گا۔
جموں کشمیر میں صحت کے شعبے کی طرف مرکز نے خصوصی توجہ دی ہے اور عوام لوگوں کو بہتر طبی سہولیات بہم رکھنے کےلئے کئی طرح کے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں جن میں خاص طور پر جموں میں ایک ایمز ہسپتال اور اونتی پورہ کشمیر میں ایک اور ایمز جو کہ زیر تکمیل ہے ۔ اسی طرح تعلیمی شعبے کی طرف بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور نئی یونیورسٹیاں، کالج ، ڈگری کالج ، ہائر سیکنڈریوں کے قیام کو منظوری دی گئی ۔ اسی کے علاوہ دیہی علاقوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور طلبہ کو ڈیجٹل ایجوکیشن فراہم کرنے کےلئے بھی اقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔
اب اگر ہم ”پی او کے “ سے متعلق بات کریں تو وہاں پر تعلیمی اور صحت کے شعبے کی حالت ابتر ہے ۔ لوگوں کو طبی سہولیات دستیاب نہیں ہے ، ہسپتالوں میں عملہ اور ادویات کا فقدان ہے اور جدید طرز علاج نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو اکثر پاکستان کے بڑے شہروں میں قائم ہسپتالوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح تعلیمی شعبے کی بھی حالت بہتر نہیں ہے ۔ دور دراز کے علاقوں میں عملہ کی کمی ہے اور اساتذہ کو وقت پر تنخواہ بھی نہیں دی جاتی ہے ۔
ادھر دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر میں سڑکوں ، ریلوے ، پلوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی بہتری کےلئے نہ صرف بڑی مقدار میں فنڈس واگزار کئے بلکہ اس طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے ۔ جبکہ معیشت کا ایک اہم حصہ سیاحت کے شعبے کو بہتر حفاظتی اقدامات کے ساتھ بحال کیا جا رہا ہے۔ سیاحتی ڈھانچے کو بہتر بنایا گیا جس سے سالانہ کروڑوں سیاح جموں کشمیر کے دورے پر آرہے ہیں جس سے معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقعے بھی پیدا ہورہے ہیں ۔ اسی طرح زرعی اور صنعتی سیکٹر کےلئے سرمایہ کاری کےلئے بھی راہیں ہموار کی جارہی ہیں جس سے بیرونی سرمایہ کاروں کو یہاں پر سرمایہ کاری کے مواقعے دستیاب ہوئے ہیں اور اب تک سینکڑوں بیرونی سرمایہ کاروں نے یہاں پر مختلف انڈسٹریز اور تجارتی مراکز کےلئے اراضی حاصل کی ہے جو یہاں پر مقامی نوجوانوں کو روزگار کے مواقعے فراہم کرنے کےلئے اہم ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس کے برعکس”پی او کے “محدود انفراسٹرکچر اور اقتصادی مواقع کے ساتھ پسماندہ ہے ۔ پاکستان خطے کے وسائل کو اپنی ترقی کےلئے استعمال کرتا ہے خاص طور پر ہائیڈروپروجیکٹ، معدنیات اور دیگر ذخائر کی لوٹ جاری ہے اور مختلف بہانوں سے ان کی نکاسی شروع کی گئی ہے ۔ نہ خطے میں صنعتی یونٹ قائم ہے اور ناہی انڈسٹریز کےلئے بیرونی سرمایہ کاری ہورہی ہے جس کی وجہ سے خطے میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور اکثر نوجوان پاکستان کے دیگر شہروں کی طرف رُخ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
قارئین جہاں تک اظہار رائے کی بات ہے تو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہر کسی کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا حق ہے خاص کر میڈیا اداروں کی اگر بات کریں تو ذرائع ابلاغ پوری طرح سے آزاد ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اگر کہیں ہو تو بات کی جاسکتی ہے اور اس کی نگرانی اور رپورٹنگ بھی ہوتی ہے ۔ البتہ پی او کے میں آزادی اظہار پر بہت حد تک پابندی ہے۔ کسی کو اپنی رائے ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے اور جو بھی پاکستان یا فوج کے خلاف خاص کر حراستی ہلاکتوں، جعلی تصام آرائیوں اور گرفتاریوں کے بارے میں بات کرے تو اس کو نہ صرف دھمکایا جاتا ہے بلکہ اس کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے کبھی کبھی تو انہیں اغوا کرکے نامعلوم جگہ پر اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ قارئین اگرچہ منقسم جموں کشمیر میں جغرافیائی ، سماجی اور ثقافتی یکسانیت ہے تاہم دونوں خطوں میں زمینی حالات مختلف ہیں ۔ جہاں ایک طرف آزادی دوسری طرف غلامی ، جہاں ایک طرف مضبوط معیشت تو دوسری طرف کمزور معیشت ہے ۔