۔۔۔۔۔ مالی غربت سے زیادہ خطرناک ذہنی غربت ہے اور ہم “ذہنی غربت” کا شکار ہیں. کیا ہم لوگ واقعی غریب ہیں یا ہم نے مفت کمائی کی رٹ لگائی ہے کیونکہ سچ پوچھیں تو ہم لوگ ذہن کے غریب ہو گئے ہیں ورنہ یہ حالت نہ ہوتی۔
ٹھیک ہے کہ ہم لوگوں کو سماج کے بچھڑے اور پسماندہ طبقات کی مجموعی طور پر امداد کرنی چائیے مگر ایسا نہیں ہے کہ ہم سب لوگ غریب یا نادار ہیں
ہمارے سماج کے وہ کچھ پڑھے لکھے اور آسودہ حال لوگ بھی اس ذہنی مرض میں مبتلا ہیں اور ان کا سوچنا ہے کہ ہم غریب ہیں اصل میں وہ اسی مرض کے شکار ہیں
آجکل کے اس دور میں جب بھی غریبی اور معاشرتی مسائل پر بات کی جاتی ہے،تو ہم فوراً مالی غربت کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاشرے میں سب سے بڑی غربت ذہنی غربت ہے۔ یہ وہ غربت ہے جو ہمیں اپنے اندر سے باہر آ کر نظر آتی ہے، اور یہ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ پوری زندگی کو مسخ کر دیتی ہے۔
اسی سے جڑا ایک منظر غالباً رمضان کے ستائیسویں روز میری آنکھوں کے سامنے آیا، جس نے مجھے اس حقیقت سے دوبارہ آشنا کیا کہ ہمارے سماج میں ذہنی غربت کا عذاب کتنا زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔
شام کے چھ بج رہے تھے، اور میں اپنی بائیک پر سگنل کھلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اچانک میری نظر ایک سفید رنگ کی ٹائیوٹا گاڑی پر پڑی، جو دائیں جانب سے آ کر بائیں طرف مڑنے والی تھی۔ مگر اصل منظر وہ نہیں تھا—اصل منظر وہ پندرہ بیس لوگ تھے جو اس گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے اور ان میں ایک فرد بھی مقامی نہیں لگتا تھا، جیسے ان کی زندگی کا سب سے قیمتی خزانہ بس چند قدم دور ہو۔
ان کے چہرے اور لباس غربت کی مکمل تصویر تھے، مگر ان کی آنکھوں میں بھاگنے کی وحشت کسی اور ہی داستان کی طرف اشارہ کر رہی تھی گویا یہ لوگ غریب بھی ہیں مسکین بھی ہیں نادار بھی ہیں لا چار بھی ہیں لالچی بھی ہیں چالاک بھی ہیں اور تو اور یہ کسی اور کام کے لئے سر راہ یہ سارا ہنگامہ برپا کر رہے ہیں۔ گاڑی کے قریب پہنچنے کی تگ و دو میں کچھ لوگ ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے، کچھ زمین پر لڑکھڑا رہے تھے، کوئی لاتوں کے نیچے روندھا جارہا تھا مگر کسی کے قدم رک نہیں رہے تھے۔
جیسے ہی گاڑی ایک لمحے کے لیے رکی، ایک خاتون نے شیشہ نیچے کر کے ہاتھ باہر نکالا۔ اس کے ہاتھ میں بچوں کے ریڈی میڈ سوٹ تھے۔ لیکن اگلے ہی لمحے، جو منظر میرے سامنے تھا، وہ دل دہلا دینے والا تھا۔ لوگوں نے بے دردی سے ایک دوسرے سے کپڑے چھیننے کی کوشش کی، جیسے یہ ان کی زندگی کی آخری امید ہو۔ کسی کے ہاتھ میں آدھا کپڑا تھا، کسی کا بازو کسی اور کی گرفت میں تھا، اور سب ایک جنون میں مبتلا تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی بھوک سے مر رہے ہوں،یا ان کی زندگی کی یہ آخری خواہش تھی اور یہ کپڑے ان کی آخری امید ہوں۔ اور مجھے اس وقت یہ احساس ہوا کہ یہ مسئلہ صرف مالی غربت کا نہیں، بلکہ ذہنی غربت کا مسئلہ ہے۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ آپ نے بھی ضرور دیکھا ہوگا کہ جب کہیں کچھ مفت بانٹا جا رہا ہو، یا کوئی نیاز وغیرہ ہو تو ہم لوگ کس طرح بے دریغ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ رمضان میں سڑکوں پر افطار کے وقت کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کی جاتی ہیں، اور تب یہ منظر عام ہوتا ہے—لوگ جو پہلے سے کھانے کا انتظام کر چکے ہوتے ہیں، وہ بھی رک کر مزید لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک لمحے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے برابر کوئی ایسا شخص بھی کھڑا ہے جسے واقعی ان چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جو نہ صرف حیران کن بلکہ افسوسناک بھی ہوتا ہے۔ جب میں نے اس روز وہ منظر دیکھا، تو میرے ذہن میں ایک سوال اٹھا: یہ کیا ہے جو ہمیں اس قدر بے پرواہ اور خودغرض بنا دیتا ہے؟ غربت محض مالی حالت کا نام نہیں، یہ ذہنیت کا بھی ایک روپ ہے—اور وہ بھوک جو ہمارے دماغوں میں بیٹھ چکی ہے، وہ جسمانی بھوک سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
ہمارے معاشرے میں یہ ذہنی غربت روزمرہ کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ جیسے ہی کوئی چیز مفت تقسیم ہوتی ہے، تو لوگ اس پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے یہ ان کی آخری امید ہو۔ کئی بار تو صورتحال اس قدر بگڑ جاتی ہے کہ تقسیم کرنے والا خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ ہجوم اس پر حملہ آور ہونے لگتا ہے۔ یہ محض بھوک نہیں، بلکہ سوچ کی تنگ دستی ہے—ایسی تنگ نظری جس میں لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ لینے کے لیے دوسروں کی محرومی کا بھی خیال نہیں رکھتے۔
یہ وہ غربت ہے جو خالی جیبوں سے زیادہ، خالی ذہنوں میں پائی جاتی ہے۔ جو کسی قوم کو صرف مالی طور پر نہیں، بلکہ اخلاقی اور فکری طور پر بھی برباد کر دیتی ہے۔ آپ نے وہ مناظر دیکھے ہوں گے—جہاں خیرات بٹ رہی ہو، جہاں کوئی مفت چیز تقسیم ہو رہی ہو، اور لوگ اس پر اس وحشت سے جھپٹتے ہیں جیسے زندگی اور موت کا سوال ہو، چاہے ان کے پاس پہلے ہی سب کچھ موجود ہو۔
یہ بھوک پیٹ کی نہیں، یہ آنکھوں، ضمیر، اور سوچ کی بھوک ہے۔ یہ وہ ہوس ہے جو ہاتھوں کو پھیلا کر لینے پر مجبور کرتی ہے، بغیر یہ سوچے سمجھے کہ کس کی ضرورت زیادہ ہے۔ جب حلال و حرام، عزت و بے غیرتی، اور ضرورت و لالچ کے فرق مٹنے لگیں، تو سمجھ لیں کہ مسئلہ غربت کا نہیں، بلکہ یہ ذہنی دیوالیہ پن ہے۔
غربت ایک آزمائش ہو سکتی ہے، مگر ذہنی غربت ایک لعنت ہے اور یہ ایک شدید قسم کا مرض ہے۔ یہ وہ زنجیر ہے جو انسان کو ہمیشہ محتاج رکھتی ہے، چاہے اس کے پاس دنیا بھر کی دولت کیوں نہ ہو۔ جس دل میں قناعت نہ ہو، وہ ہمیشہ خالی رہتا ہے۔ جس آنکھ میں ہوس بسی ہو، اسے کبھی آسودگی نصیب نہیں ہوتی۔ یہ غلامی کی بدترین شکل ہے—نہ کسی انسان کی، بلکہ اپنی خواہشات کی، اپنی کمزوریوں کی، اپنی لالچ کی بھی غلامی ہے
کیا آپ نےکبھی سوچا ہے، ہم سب اللہ سے مالی خوشحالی کی دعا تو کرتے ہیں، مگر ذہنی غربت سے نجات کی دعا کیوں نہیں مانگتے؟ کیونکہ اصل قید وہ نہیں جو جسم پر پڑتی ہے، بلکہ وہ ہے جو سوچ کو جکڑ لیتی ہے۔ اگر ہم حقیقت میں سکون، عزت، اور خوشحالی چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے اپنی ذہنی بھوک کو ختم کرنا ہوگا—اس وحشت کو، جو ہمیں اندھا، بہرا اور بے حس بنا چکی ہے۔ ہم لوگوں کو اپنے ارد گرد ایک نگاہ دوڑانی چاہیے کہ کہیں کوئی مجھ سے زیادہ ضرورت مند تو نہیں ہے کم سی کم جس کی میں مدد کرسکتا ہوں تاکہ ہمارے معاشرے سے یہ ذہنی مرض خود بخود ختم ہو جائے اور ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ ہوسکتا ہے کہ میرا پڑوسی اتنا خود دار ہو کہ بھوک پریشانی اور ناداری ہونے کے باوجود وہ کسی کے آگے ہاتھ پھلانے میں شرمندگی محسوس کر رہا ہو کل بروز محشر اللہ تعالیٰ ہم سے کسی کی عبادات یا کسی کے دین و دھرم کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھے گا ۔۔۔۔۔ہاں مگر یہ پڑوسی یا رشتہ دار جب بھی تنگ دست یا لاچار ہوتاہے تو میرا اور آپ کا خالق و مالک اس بارے میں ضرور ہم سے سوال کرے گا
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وصلم نے ہمسایوں اور رشتہ داروں کے حقوق بھی بتلائے ہیں اور ان غریب ناداروں کی اور مسکینوں کی چارہ جوئی کی تلقین بہت سے احادیثوں میں فرمائی ہے یہاں تک کہ اگر آپکے گھر میں کوئی بھی ساگ یا سالن پکے تو اسکا تڑکا ایسے کریں کہ پاس پڑوس میں اسکی آواز یا مہک نہ جائے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ کا وہ واقع جب بکرے کا سر ایک صحابی ر ض کے پاس پہنچتا ہے تو وہ فوراً دوسرے صحابی رسول صلی علیہ وسلم کے پاس اس سر کو بیجھتا ہے اور وہ اسی طرح سے تیسرے کے پاس یہاں تک کہ بکرے کا سر پھر سے پہلے صحابی رسول صلی علیہ وآلہ وصلم کے پہنچتا ہے یہ تھا انسانیت کا وہ سبق جو پیغمبر آخر زماں صلی اللہ علیہ وصلم نے رہتی دنیا تک ہر ایک معاشرے کے لئے مشعل راہ بنا رکھا تھا مگر آجکل کا یہ اشرفلمخلووات پتہ نہیں کس تباہی کی اور چل پڑا ہے۔۔ ہاں اب بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے نیک اور سچے انسان اس سماج میں موجود ہیں تبھی سورج ،چاند،دن،اور رات اپنے اپنے وقت مقررہ پر نمودار ہوتے ہیں۔
ہم لوگ اگر ایک بار اپنے من میں یہ بات بٹھائیں کہ میری وجہ سے میرے پاس پڑوس کے رہنے والے اللہ تعالیٰ کے بندے تھوڑی سی رزق حاصل کرتے ہیں تو وہ جو ہم سب کا رزاق ہے میرے رزق میں کس قدر اضافہ کرے گا کیونکہ رزق دینا رزاق کا کام ہے اور اس رزاق کے کام کی تھوڑی سی نقل میں کرتا ہوں
اللہ ہمیں خالی جیبوں سے بھی، خالی دلوں اور خالی ذہنوں کی غربت سے بھی محفوظ رکھے۔ کیونکہ یہی وہ غربت ہے جو تباہ و برباد بھی کرتی ہے، اور ذہنی طور پر پامال بھی کرتی ہے اور انسانیت کے ڈھانچے کو مُسمار کردیتی ہے اور سماج میں بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے جس کی بہت سی مثالیں آئے دن ہماری نظروں کے سامنے ظاہر ہوتی ہیں ۔ یہ وہ غربت ہے جس سے بچنا اصل نجات ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ذہنی مرض سے نجات دے ۔۔۔۔۔۔۔ آمین۔۔۔