وادی کشمیر جس کو دنیا میں جنت کے نام سے جانا جاتا ہے اپنے قدرتی مناظر ، ثقافت اور روایات کےلئے پوری دنیا میں مشہور ہے ۔ اگر ہم یہاں پر طرز زندگی کی بات کریں تو آج بھی وادی کشمیر میں روایتی طور طریقے رائج ہیں جن میں روایتی پکوان ، پہناوا وغیرہ شامل ہے ۔ وادی کشمیر کی اکثر آبادی زرعی شعبے سے وابستہ ہیں جو انہیںثقافت اور روایت سے جڑی رکھی ہوئی ہے ۔ روایتی طریقہ کار یقینی طورپر صحت کی دیکھ بھال پر بھی اثرات مرتب کرتی ہے ۔ طبی شعبہ میں جدیدیت اگر دیکھنے کو مل بھی رہی ہے تاہم طبی خدمات کی فراہمی میں ابھی بھی بہت سی رُکاوٹیں موجود ہیں۔ قارئین جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ وادی کشمیر کی آبادی کا بڑا حصہ زرعی سرگرمیوں سے جڑا ہوا ہے جن میں باغبانی، میوہ کاشتکاری ، کے علاوہ مویشیوں پر منحصر ہے اور یہی آبادی کےلئے معاش فراہم کرتا ہے ۔ اس بیچ جیسے کہ کاشتکاری کےلئے کھیت کھلیانوں میں کام کرنا، مویشیوں کے ساتھ ان کی دیکھ بھال ، کاشتکاری کرنا اور دیگر جسمانی سرگرمیاں لوگوں کےلئے صحت اور تندرستی کا موجب بھی بنتی رہی ہے ۔ جبکہ دوسری طرف وادی میں کھان پان روایتی طرز پر چلتا ہے جس میں خاص طور پر گوشت کا استعمال ہوتا ہے جس سے کئی طرح کے پکوان تیار کئے جاتے ہیں جن میں ”روغن جوش“یخنی ، گوشتابہ ، کباب ، رستہ وغیرہ شامل ہیں یہاں پر روایتی کھانے ہیں جبکہ سبزی اور میوہ جات بھی مقامی کھان پان کا حصہ ہے ۔ البتہ مہمان نوازی اور دیگر تقاریب میں گوشت سے بنی مذکورہ اشیاءکا استعمال ہی کیا جاتا ہے ۔ جہاں تک خاندانی اور رشتوں کی بات ہے تو وادی کشمیر میں کنبے اور رشتے دار ایک دوسرے کے قریب ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جو نہ صرف میل ملاپ کا بہترین ذریعہ بن جاتا ہے دوسرا اس سے رشتوں میں قرابت بھی آتی ہے اور اسی تناظر میں مہمان نوازی بھی پروان چڑھتی ہے ۔ اور اکثر تقاریب جیسے کہ شادی بیاہ ، تہواروں پر ایک دوسرے کو مدعو کرتے ہوئے ان پکوانوں سے ان کی مہمان نوازی کی جاتی ہے ۔ مہمان نوازی کا رواج، خاص طور پر وازوان کی ایک کثیر نصابی دعوت کی پیشکش کے ذریعے، کشمیری ثقافت کا ایک اہم جزو رہا اور سماجی اجتماعات کثرت سے ہوتے ہیں۔ ان تہواروں میں عیدین، نوروز ، وغیرہ جیسے مواقعے ہیں جن میں لوگوں کو ایک دوسرے کے پاس جانے اور مہمان نوازی کا موقع ملتا ہے۔
خیر وقت بدلتا رہتا ہے اور وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی طرز زندگی بھی بدل رہی ہے ۔ اسی طرح وادی کشمیر میں بھی سماجی ، ثقافتی اور معاشی لحاظ سے بھی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ خاص طور پر شہری کاری، عالمگیریت اور تکنیکی ترقی نے کشمیریوں کے طرز زندگی پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔ یہ پیش رفت، کچھ فوائد فراہم کرتے ہوئے، صحت کے کچھ سنگین مسائل میں بھی معاون ثابت ہوئی ہے۔طرز زندگی تبدیل ہونے سے لوگوں کو طبی مسائل کا سامنا رہتا ہے اور کئی طرح کی بیماریاں بڑھ گئی ہیں ۔کھیتی باڑی میں آسانیاں، جسمانی محنت میں کمی اور آرام دہ زندگی نے لوگوں کو کئی طرح کے طبی مسائل سے آشنا کیا ہے جبکہ کھان پان کی اگر بات کریں تو روایتی طریقے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ جہاں تک نئی پود کی بات ہے جیسے کہ پہلے نوجوان اور چھوٹے بچے دن میں کئی گھنٹے گھروں سے باہر رہ کر مختلف کھیلوںمیں مشغول رہتے تھے لیکن اب نوجوان نسل، خاص طور پر، گھر کے اندر زیادہ وقت گزارتی ہے، اسکرینوں کے عادی، خواہ وہ تعلیمی، تفریحی یا سوشل میڈیا کی وجہ سے ہو۔ اس طرح سے نئی پود جسمانی محنت اور سرگرمیوں سے دور رہتے ہوئے محدود جگہ پر اپنا وقت گزارتی ہے جس کی وجہ سے ان میں بھی کئی طرح کے طبی مسائل پیدا ہوے ہیں۔ قارئین طبی شعبے سے وابستہ ہونے اور بطور ایک معالج کے مجھے موقع ملا کہ میں وادی کشمیر میں لوگوں کی صحت کے بارے میں جانکاری حاصل کرسکوں تو میں نے جسمانی طور پر غیر فعال رہنے والے مریضوں میں موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس سمیت طرز زندگی سے متعلق عوارض میں اضافہ دیکھا ہے۔وادی کشمیر میں لوگ اب زیادہ آرام طلب ہوتے جارہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کھانے پینے میں بھی تبدیلی دیکھنے کو مل رہے جبکہ کاشتکاری جو کہ نامیاتی طریقے پر ہوا کرتی تھی اب اس میں تبدیلی آئی ہے اس طرح سے کئی طرح کی غذاﺅںمیں تبدیلی نے کشمیریوں کی صحت کے مسائل سے دوچار کردیا ہے ۔ جیسے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ وادی کشمیر میں رستورانوں کی بھر مار ہوچکی ہے اور جگہ جگہ فاسٹ فوڈ دستیاب ہے اور لوگ بھی اس طرزعمل کواپنارہے ہیں جس کی وجہ سے موٹا پا، ہائی بلڈپریشر، کولسٹرول، دل کے امراض بڑھ گئے ہیں۔ جبکہ بہت سے لوگ اب صحت مند روایتی کھانوں کی بجائے فوری نوڈلز، سافٹ ڈرنکس، تلے ہوئے اسنیکس اور میٹھے پر انحصار کرتے ہیں۔ اگرچہ پہلے لوگ زیادہ تر قہوہ ، کشمیری چائے کا استعمال کرتے تھے لیکن اب لوگ مختلف تیار شدہ مشروبات کا استعمال کرتے ہیں جو مختلف کمیکمل کی وجہ سے مضر صحت ہوتے ہیں ۔
قارئین اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم حالات و واقعات پر نظر ڈالیں تو یہاں کے حالات بھی لوگوں کے صحت کے مسائل کے موجب بنے ہیں ۔ طویل مدت تک سیاسی خلفشار ، بدامنی ، بندشیں ، ہلاکتیں وغیرہ لوگوںکے اذہان پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اور لوگوں کےلئے ذہنی تناﺅ کا سبب بن جاتے ہیں ۔ اسی طرح اب کشمیر وادی میں بھی لوگ زیادہ تر موبائل اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ پہلے لوگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے لیکن اب لوگ کمپوٹر، موبائل اور ٹیلی ویژن کے ساتھ زیادہ چپکے رہتے ہیں جو لوگوں کے درمیان دوریاں پیدا کرتی ہے۔ اس طرح سے لوگوں میں تنہارہنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو ان کو ذہنی امراض کا شکار بنادیتے ہیں۔ قارئین اب بھی وقت ہے کہ لوگ تبدیلی لائیں اور طرز زندگی کو تبدیل کرنے سے ہی صحت کے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں۔ جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ کرنا ، پھر سے لوگوں کے درمیان تال میل بڑھانا اور لوگوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا جیسے عادات تبدیل کرنے کے علاوہ کھانے پینے میں آئی تبدیلی کوبھی اب ترک کرنا ہوگا اور روایتی طرز زندگی کو اپناکر ہی لوگ نئی نئی بیماریوں سے دور رہ سکتے ہیں۔