وادی کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی کےلئے پوری دنیا میں مشہور ہے یہاں کا آب و ہوا، متعدل ماحول ، خوبصورت مناظر ، برفیلی پہاڑ، سرسبز وادیاںاور صاف وشفاف دریاءاور جھرنے اس کو جنت کی خوبصورتی عطاکرتے ہیں ۔ جہاں یہ خطہ پوری دنیا میں اپنی خوبصورتی کےلئے منفرد شناخت رکھتا ہے وہیں یہاں پر منفرد ثقافت، روایت اور تہذیب و تمند بھی ہے جو اس کو ایک الگ پہنچان دیتا ہے ۔ قارئین اگر ہم یہاں کے پکوان ، کھان پان کی بات کریں یا پھر فن تعمیر، قدیم روایات اور موسیقی پر نظر ڈالیں تو یہ ایک ملی جلی تہذیب کا گھر بنادیتا ہے ۔ وادی کشمیر نے مختلف حکومتی ادوار میں خاص طور پر وسطی ایشیاءفارس اور برصغیر کی حکمرانی کے زیر تسلط مختلف تہذیوں اور ثقافتوں کو اپنا لیا ہے ۔اس طرح سے وادی کشمیر ایک منفرد ثقافت کا مرکز بن گیا جو تاریخی لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ قارئین موجودہ جدید دور میں بھی وادی کشمیر کی یہ ملی جلی روایت اور ثقافت فروغ پارہی ہے ۔
وادی کشمیر جہاں مختلف ثقافتوں کا ورثہ ہے وہیں یہ خطہ علم و ادب کا گھر بھی رہا ہے ،خطے میں مختلف مشہور سکالروں نے جنم لیا ہے اور علم و ہنر سے اس وادی کو سرشار کیا ۔ سنسکرت ادب للت آدتیہ اور زین العابدین جیسے بادشاہوں کی سرپرستی میں خطے میں علم و ہنر و ادب نے کافی ترقی کی ۔ یہاں پر شیومت کے فلسفے نے بھی عروج پایا جس کے اثرات آج بھی وادی میں موجود ہیں ۔ اسی طرح بدھ مت کے مرکز کے طور پر بھی وادی کشمیر نے جگہ بنالی تھی اس کے بعد اسلام کی آمد نے وادی کشمیر میں علم و ہنر دستکاری اور ادب میں مزید گہرا کیا ۔ 14ویں صدی میں صوفیت اور سنتوں نے کشمیریت کو ایک نئی جلا بخشی اور مذہبی رواداتی کے تانے بانے پر نہ مٹنے والے نقوش چھوڑے ہیں۔ اس دور میں جہاں حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی نے کشمیر میں اسلام کی ترویج اور فروغ میں اہم رول اداکیا تھا کے آستان خانقاہ معلی اور درگاہ حضرتبل نے فروغ پایا ۔ اسی صدی میں وادی کشمیر میں کئی اہم دستکاریاں ہنر مندی کو فروغ ملا ہے جن میں پشمینہ صنعت اور دستکاری کو فروغ ملا ۔ اس دستکاری میں باریک شالوں پر کڑھائی سے رنگ برنگے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں جبکہ یہ ملائم اور کافی نرم ہونے کے ساتھ ساتھ گرمی بھی فراہم کرتا ہے ۔ اس لئے پشمینہ شال اپنی خوبصورتی اور اہمیت کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ قالین بافی کی صنعت کو بھی فروغ ملا ۔ قالین بھی مختلف دلکش ڈیزائنوں سے مزین ہوتا ہے اور سلک کا قالین سب سے قیمتی مانا جاتا ہے ۔ اسی طرح یہاں کی دستکاریوں میں ”کانگڑی “ بھی ایک اہم صنعت ہے جو سردیوں میں سردی سے بچاﺅ کےلئے استعمال میں لائی جاتی ہے ۔ کانگڑی صرف کشمیر میں ہی تیار ہوتی ہے اور یہی پر اس کا استعمال بھی ہوتا ہے ۔
اسی طرح اگر ہم کشمیر وادی میں پکوان کی بات کریں تو یہاں کے پکوان نہ صرف ذائقوں سے بھر پور ہیں بلکہ خوبصورت بناوٹ میں اپنی مثال آپ ہے ۔ فارس سے لیکر ووسطی ایشیاءکے کھانوں کا ذائقہ یہاں کے پکوانوں میں ملتا ہے ۔ قارئین یہ بات آپ جانتے ہی ہوں گے کہ وادی کشمیر میں سب سے زیادہ مشہور پکوان ”وازوان “ ہے جو کہ عام طور پر سات اقسام پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ ساتویں پکوان گوشت سے تیار کئے جاتے ہیں ان میں روغن جوش، یختی ، گوشتابہ، رستہ ، کباب، تبخ ماز اور کورما شامل ہے ۔ یہ پکوان نہ صرف عام تہواریوں کی زینت بنتے ہیں بلکہ شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے مواقع پر بھی اس کا استعمال لازمی ہے اور یہ ان تقاریب کی شان بڑھاتا ہے ۔ مہمانوں کو کھانے پینے میں ضروری طور پر ان پکوانوں کو پیش کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ مہمانوں کو شربت کے طور پر قہوہ بھی جس میں زعفران اور دیگر مسالحہ جات ملائے جاتے ہیں بھی پیش کیا جاتا ہے اور یہ کشمیری مہمان نوازی کی عمدہ مثال ہے جو نسل در نسل چلی آرہی ہے ۔
جہاں تک کشمیر خطے میں موسیقی اور ادب کا تعلق ہے تو خطے میں موسیقی کی ایک گہری تاریخ ہے ۔ یہاں پر صوفیانہ کلام ادب کا لازمی حصہ ہے اور صوفی روایات میں صوفیانہ موسیقی اہم مانی جاتی ہے ۔ اس صنف میں سنتور ، رباب اور دیگر اہم آلات استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔ رقص میں روایتی طور پر ”روف “ ہے جو مختلف تہواروں اور شادی بیاہ کی تقاریب میں اہتمام میں لایا جاتا ہے ۔ یہ روف خواتین کی جانب سے کیا جاتا ہے ۔ جبکہ دھمال یعنی دھمبالی اور بانڈ پیتھر بھی رقص کی الگ الگ شکلیں ہیں اور یہ خاص مواقعوں پر مردوں کی جانب سے کیا جاتا ہے خاص طور پر موسمی صورتحال سے نجات کےلئے اس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور لوگوں کا اس سے عقیدہ بھی جڑا ہوا ہے۔
غرض وادی کشمیر جو پوری دنیا میں اپنی خوبصورتی کےلئے مشہور ہے میں ثقافت ، تہذیب اور کلچر بھی منفرد ہے جس کی وجہ سے یہ خطے دنیا سے الگ پہنچان بنائے رکھے ہوئے ہیں ۔ یہاں کی روایات اور ثقافت میں نہ صرف انسانیت بلکہ شرم وحیاء، روحانیت اور انسانی اقدار بھی موجود ہے جو اس کا نام کشمیریت دیتا ہے ۔