پاکستان کی جانب چلائے جارہے درپردہ دہشت گردی کے گروپس نہ صرف خطے میں امن و سلامتی کےلئے خطرہ ہیں بلکہ یہ بھارت کے لئے بھی شدید خطرہ بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی بھی بڑھ گئی ہے ۔ یہ گروپس بھارت کی اندرونی سلامتی اور داخلہ معاملات کو بھی اثرا انداز کررہے ہیں جبکہ پاکستان ان درپردہ گروپس کی آڑ میں ایک جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ پاکستان اپنے مفادات کو پائیہ تکمیل تک پہنچاسکیں۔ پاکستان کی جانب سے مختلف دہشت گردجماعتوں کو بھارت کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے جن میں لشکرطیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین اور دیگر جماعتیں ہیں جو وادی کشمیر میں تشدد آمیز وارداتیں انجام دیتی آرہی ہیں اور بدامن پھیلانے میں ملوث رہی ہیں۔ ان جماعتوں سے وابستہ دہشت گردوں کو مالی معاونت کے ساتھ ساتھ ہتھیار اور تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں حالیہ پہلگام حملے جیسے واقعات انجام دیئے گئے ۔ اگرچہ دہشت گرد جماعتوں نے اس حملے میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی ہے تاہم وہ اس جرم کو چھپانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔یہاں یہ بات عیاں ہے کہ ان دہشت گرد گروپوں کا پاکستانی خفیہ ایجنسیوں اور فوجی اداروں کے ساتھ قریبی رابطہ ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان پر افغانستان میں حالات خراب کرنے اور وہاں پر ایسے عناصر کی مدد کا بھی الزام ہے جو افغانستان میں تشدد بھڑکاتے ہیں ۔ پاکستان نے طالبان کی بھی کئی دہائیوں تک حمایت کی جس کے نتیجے میں وہ افغانستان میں دوبارہ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے البتہ اس عمل سے تحریک طالبان جیسی جماعتوں کو بھی فروغ ملا جو پاکستان میں حملے کرنے کےلئے اسی سرزمین کا استعمال کرتے ہیںجو پاکستان کی داخلی سلامتی کےلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں کیوں کہ تحریک طالبان پاکستان نے ملک میں کئی بڑے حملے کئے ہیں جس سے پاکستانی ادارے کمزور ہوئے ہیں اور ان کی حفاظتی صورتحال کےلئے چلینج بن گئے ۔
قارئین ان گروپوں جو کہ درپرہ جنگ میں براہ راست ملوث ہیں کی مختلف طریقے سے مدد کی جاتی ہے اگرچہ پاکستانی حکومت کی جانب سے ان باتوں کی تردید کی جاتی ہے کہ پاکستان کا کوئی سرکارہ دارہ دہشت گرد جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں تاہم اس بات کے کافی ثبوت اور تاریخی اعترافات موجود ہیں، جن میں پاکستانی وزرائے دفاع بھی شامل ہیں، کہ ریاست، خاص طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے ان گروپوں میں فنڈز فراہم کرتی ہے۔ ان جماعتوں کی کسی بھی قسم کی مدد قابل مذمت ہے اور اکثر پالیسی سازوں نے اسے دہشت گردوں کی جانب سے بھارت کے خلاف درپردہ جنگ قراردیا ہے ۔ جو وادی کشمیر میں مختلف تشدد آمیز کارروائیاں انجام دیکر امن و سلامتی کو خطرہ پیدا کرتے ہیں جبکہ یہ جماعتیں انتہاپسندی کو بھی فروغ دینے کا کام کرتی رہی ہیں۔
دہشت گردوں کی مدد کےلئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں جبکہ افغانستان سے ہتھیاروں کی سپلائی بھی یقینی بنائے جانے کا اندیشہ ہے ۔ اس کے علاوہ ہتھیاروں کی فراہمی اور مالی معاونت کےلئے مختلف چینلوں اور طریقے اپنائے جاتے ہیں اور حوالہ جیسے طریقوں سے ان تک رقومات پہنچائی جاتی ہے ۔ جہاں تک وادی کشمیر میں اس طرح کی کارروائیوں کا سوال ہے تو پاکستان نے کشمیریوں کا استعمال کرکے بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث کیا ہے ۔ اور مختلف مراحل میں حملے کراکے بد امنی اور امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ اس طرح پاکستان کی جانب سے ہندوستان کے خلاف درپردہ جنگ کا مقابلہ ہر سطح پر کیا جاتا ہے ۔ پاکستانی کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت کے ساتھ ساتھ بین لاقوامی سطح پر بھی بھارت مخالف بیانے جاری کئے جاتے ہیں جس کا بھارت نے بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کیا ہے ۔ تاہم پاکستان نے کئی ممالک جیسے ترکی کو بھی اس ضمن میں ملوث کیا اور ترکی میڈیا نے پاکستان کی حمایت میں پروپگنڈا کو پھیلانے میں بھی رول کیا ہے ۔ ترک میڈیا کی طرف سے کشمیر کے مسائل کی وسیع کوریج، اکثر متعصبانہ انداز میں، پاکستان کی بیانیہ جنگ میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔اس طرح سے دیگر ممالک کو بھی پاکستان نے بھارت کے خلاف بیانے جاری کرنے کی صلاح دی تاہم عالمی سطح پر اس کو اس میں کامیابی نہیں ملی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے اور کشیدگی کی بڑی وجہ دہشت گردی ہے یہاں تک کہ یہ معاملہ دو نیوکلیر طاقتوں کے مابین جنگ کا بھی باعث بن رہا ہے جیسے کہ پہلگام حملے کے بعد ہندوستان نے آپریشن سندور کے تحت کئی دہشت گردی کے ٹھکانوں کو نشانہ بناکر تباہ کردیا ۔ یہ صورتحال بھیانک ہوتی گئی اور جنگی صورتحال بن گئی ۔ اگر بھارت صبر و تحمل کا مظاہرہ نہیں کرتا تو شائد اس میں سینکڑوں انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے ۔ جبکہ یہ جنگ انسانی بحران بھی پیدا کرسکتا تھا ۔ اس تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو یہ ایک انسانی مسئلہ بھی ہے جو دو ممالک کے درمیان جنگ کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکتوں ، املاک کی تباہی اور بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی کا موجب بھی بن سکتا ہے ۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ درپردہ دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر آواز اُٹھنی چاہئے ۔