قارئین پوری دنیا میں غریب بچوں کا استحصال کیا جارہا ہے خاص کر ایسے طبقہ کے بچوں کے جو اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ گھریلو معاشی معاملات ، حالات کی سنگینی اور دیگر مسائل کی وجہ سے نابالغ بچوں سے کام کروایا جاتا ہے ۔ اور پوری دنیا میں لاکھوں بچے بچہ مزدوری کے شکار ہیں ۔ بچوں کے تحفظ اور انہیں بچہ مزدوری سے بچانے کیلئے عالمی سطح پر بچہ مزدوری مخالف دن منایا جاتا ہے اور ہر سال 12جون کو اس دن تقاریب اور بچہ مزدوری کے منفی اثرات سے آگاہی کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ متعلقہ سرکارئیں ، سول سوسائٹیز ، این جی اوز اور دیگر نجی فلاحی ادارے اس دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بچوں کی مزدوری پر روک لگانے کیلئے اقدامات اُٹھائیں۔
قارئین بچہ مزدوری نہ صرف سماجی مسائل پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے بلکہ یہ بچوں کے حقوق کی سراسر خلاف ورزی بھی ہیں ۔ بچہ مزدوری کے شکار اطفال بنیادی حقوق سے محروم رہتے ہیں جن میں تعلیم ، طبی سہولیات خاص طور پر ہے جبکہ بچوں کے کھیلنے کے دنوں میں ان سے کام لیا جاتا ہے جو ان کے بچپن کو چھیننے کے مترادف ہوتا ہے ۔ جن بچوں کو بچپن میں کام پر لگایا جاتا ہے یہ ان کے مستقبل کیلئے بھی خطرہ پیدا کرتا ہے جبکہ بچوں کی ذہنی و جسمانی نشونماء کے لئے بھی مضر ثابت ہوتی ہے ۔ جبکہ بچوں سے کام کرانے سے بچوں کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے ۔ جیسے کہ پہلے ہی عرض کی جاچکا ہے کہ بچوں سے کام کرانے کی وجہ سے بچے صحت اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہوتے ہیں۔ بچوں سے جب کرام کرایا جاتا ہے تو ان کو سکول جانے کا موقع دستیاب نہیں ہوتا اور وہ تعلیم جیسے اہم بنیادی حق سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ اگر کوئی بچہ سکول جاتا ہے اور اس سے اس کے علاوہ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ اس کی تعلیم کو متاثر کرتا ہے اکثر دیکھا گیا ہے کہ مالی طور پر کمزور کنبوں کے بچوں صبح و شام چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں جن سے ان کی گھریلو آمدنی بڑھتی ہے تاہم اس عمل سے وہ تعلیم سے دور ہوتے جاتے ہیں اکثر انہیں سکول دھیر سے پہنچنے کی شکایت رہتی ہے جبکہ سکول آنے کے بعد انہیں تعلیم کی طرف توجہ نہیں رہتی ۔ اسی طرح اگر ہم ان کی طبی سہولیات پر بات کریں تو ایسے بچوں کی صحت کی دیکھ بھال بھی نظر انداز ہوتی ہے کیوں کہ ایسے بچوں کو طبی نگہداشت کے مراکز جاکر اپنی صحت کی جانچ کرنے کا موقع بھی نہیں ملتا ہے ۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا م یں اس وقت 160ملین بچے اس طرح کے حالات کے شکار ہیں یا وہ براہ راسطہ بطہ مزدوری کے زمرے میں آتے ہیں۔ جبکہ اعدادوشمار کے مطابق ان بچوں میں اکثربچوں سے اس طرح کے کام کرائے جاتے ہیں جو ان کی زندگی کیلئے خطرہ ہوتے ہیں یا پھر ان کو ہمیشہ کیلئے اپاہج بننے کا سبب بن جاتے ہیںجو ان کے مستقبل کو تاریک بناتے ہیں۔
قارئین بچے خود سے مزدوری کرنے کا شوق نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان بچوں کو اس طرف حالات دھکیل دیتے ہیں ۔ بچہ مزدوری کے پیچھے جو محرکات ہوتے ہیں ان میں غربت ، معاشی کمزورحالت ، سماجی نابرابری ، والدین سے محرومی جیسے عوامل شامل ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جن غریب کنبوں کی مالی حالت بہتر نہیں ہوتی ہے ان کے بچے اسی طرح چائلڈ لیبر کے شکار ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مہنگائی بھی کافی حد تک اس کیلئے ذمہ داری ہے اکثر غریب کنبوں کے بچے اس وجہ سے بھی محروم ہوجاتے ہیں کیوں کہ بچوں کے تعلیمی اخراجات کو برداشت کرنے کی ان کے افراد کنبہ میں سکت نہیں ہوتی ہے یا مہنگائی کی وجہ سے وہ اکثر دو وقت کا کھانا حاصل کرنے میں ہی کوشاں رہتے ہیں اور بچوں کی تعلیم پر خرچہ کرنا ان کے بس سے باہر ہوتا ہے ۔ اگر ہم شہروں میں بچوں کی مزدوری کی اقسام پر بات کریں تو معلوم ہوگا کہ ایسے شہروں میں بچے چھاپڑیوں پر اشیاء فروخت کرتے ہیں ۔ کارخانوں اور گیراجوں میں کام کرتے ہوئے ملتے ہیں یا پھر دستکاروں کے گھروں میں انہیں دیکھا جاسکتا ہے ۔ جبکہ دیہی علاقوں کے بچوں سے بھیک منگوانے ، مزدوری کروانے جیسے کام بھی کروائے جاتے ہیں ۔ اس دوران بچوں پر تشدد بھی کیا جاتا ہے اور انہیں بھوکا پیاسا رکھنے کی سزا کے طور پر انہیں کھانے پینے سے محروم رکھا جاتا ہے اس طرح سے بچوں کو غلام بناکر ان کی زندگی اجیرن بنادی جاتی ہے ۔
قارئین حالات بھی کافی حد تک بچہ مزدوری کیلئے شکار بن جاتے ہیں ہم نے دیکھا کہ کووڈ 19کے دور میں کس طرح سے لوگ متاثر ہوئے اور کنبے غربت کے شکار ہوتے گئے جس کی وجہ سے ان کے بچے بھی تعلیم سے محروم ہوتے گئے اور مزدوری کی طرف مائل ہوئے کیوں کہ ایک طرف سکول اور دیگر تعلیمی ادارے بند رہے تو دوسری طرف کاروبار اور آمدنی کے ذریعے بھی محدود ہوتے گئے جس کے نتیجے میں غریب کنبوں کے بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے ۔اسی طرح جنگی اور کشیدہ حالات بھی بچہ مزدوری کے اسباب بن جاتے ہیںکیوں کہ جو ادارے بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتے ہیںان کا کام بھی متاثر رہنے کی وجہ سے بچے چائلڈ لیبر کے شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی رہتی ہے کیوں کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا ۔
قارئین بچوں کے حقوق کی اگر ہم بات کریں تو ان کے حقوق میں سب سے پہلے صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات اور اس کے بعد تعلیم کا حصول ہے ۔ بچوں کو تعلیم فراہم کرنے سے نہ صرف ان کے کنبے غربت سے باہر نکل جاتے ہیں بلکہ بچوں کا بچپن اور مستقبل دونوں محفوظ رہتے ہیں۔ ہر بچے کے بنیادی حقوق میں سے ایک حق تعلیم ہے۔ تعلیم صرف غربت سے نکلنے کا راستہ نہیں ہے۔ یہ بچوں کو بااختیار بنانے اور انہیں باوقار زندگی گزارنے کے قابل بنانے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ بچوں کو اگرچہ سرکار کی طرف سے مفت تعلیم فراہم کرنے کے کئی منصوبے ہیں لیکن آج بھی لاکھوں بچے سکول جانے کا صرف خواب دیکھتے ہیں ۔ تعلیم سے محرومی ان بچوں کو معاشی لحاظ سے بھی کمزور رکھتی ہے بلکہ کئی سماجی بُرائیوں کے چکر میں بھی ملوث ہونے کیلئے تیار کرتی ہے ۔ چائلڈ لیبر سے سماجی بُرائیوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے کیوں کہ جو بچے تعلیم سے محروم رہتے ہیں وہ اکثر اس طرح منشیات اور دیگر سماجی بُرائیوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔
چائلڈ لیبر کا دن منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کو تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے بیداری پیدا کریں اور جو بچے چائلڈ لیبر کے شکار ہیں ان کو اس چنگل سے نکالنے کیلئے متعلقہ سرکاروں اور اداروں کو مجبور کریں ۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ دنیا بھر کو تحفظ فراہم کرنے ان کے حقوق کی پاسداری کرنے اور انہیں بچہ مزدوری سے نجات دلانے کیلئے عالمی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں اور اس ضمن میں اقوام متحدہ کا کنونشن جس میں دنیا کے قریب قریب تمام ممالک کے نمائندے ہوتے ہیں اس کیلئے ایک منصوبہ تشکیل دیتے ہیںجس کے تحت کئی ایک امور کو زیر عمل لایا جاتا ہے جن میں چائلڈ لیبر کے خاتمہ کی کوششیں، بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کیلئے عملی اقدامات ، قوانین پر عمل کرانے کیلئے ممالک پر دبائو وغیرہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بچوں کے حقوق کا تحفظ یقین بناجائے اور بچوں کو مزدوری سے نجات دلانے اور انہیں تعلیم جیسے بنیادی حقوق فراہم کرنے کیلئے عملی اقدامات اُٹھانا اور اس سے متعلق زیادہ سے زیادہ جانکاری عام کرنا ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی نوبل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کی قیادت میں بھارت میں ایک مہم چلائی گئی تھی جس کامقصد ملک میں بچوں کو مزدوری سے نجات دلانا اور انہیں تعلیم کی فراہمی کیلئے اقدامات اُٹھانا تھا۔ اسی طرح دنیا بھر میں بھی کئی این جی اوز کام کرتے ہیں جو بچہ مزدوری کے خاتمہ کیلئے کام کرتے ہیں۔