
محمد یوسف شاہین
.
میں جب کبھی بھی اپنے گھر میں تنہا ہوتا ہوں تو مجھے رہ رہ کے اپنا بچھڑا ہوا ماضی یاد آتا ہے۔ یقین مانیے کہ اپنے ماضی کا ایک ہلکا سا تصور ہی مجھے حد سے زیادہ بے چین کردیتا ہے۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میری زندگی کا ایک بہت ہی انمول چیز زندگی کی دوڑ میں کہیں بھیڑ کے نزر ہو چکا ہے۔ جسے ایک بار، بس ایک بار پھر سے پانے کیلیے میں ماہی بے آب کیطرح تڑپتا ہوں۔ میں بی قرار ہوکر اپنے کمرے کا چکر لگاتا رہتا ہوں، کبھی حواس باختہ ہوجا تا ہوں تو کبھی بہت ہی اداس۔ کبھی خوشی اور مسرت کے جزبات مجھے گھیر لیتے ہیں تو کبھی اسکے کھو جانے کا درد میرے دل میں ایک خلش سی پیدا کردیتا ہے۔
ابھی پرسوں ہی کی بات ہے میں ماضی کی انہی لطیف جزبات کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زن تھا کہ میں نے اچانک سے اپنے کمرے کی کھڑکی کھولی تو میری نظریں اپنے ایک نزدیکی پڑوسی کے آنگن میں اسکے بادام کے درخت پر جا ٹکیں۔ بادام کا یہ درخت شگوفوں سے جیسے خوشی اور مسرت سے جھوم رہا تھا۔ واہ کتنا خوبصورت منظر تھا۔ سفید اور نارنگی بادام کے شگوفے نہایت ہی خوبصورت سماں پیدا کررہا تھا۔ دل کو ایک فرحت سی محسوس ہویی مگر ایک کسک بھی ہویی۔ کچھ گنچے ہوا کے ایک ہلکے سے جھونکے سے نیچے زمین پر گرے ہویے تھے جو میرے پڑوسی کے آنگن کو چار چاند لگا رہے تھے۔ مجھے بادام کے درخت پر کھلے اور زمین پر بکھرے ہویے بادام کے وہ چھوٹے چھوٹے سفید نارنگی رنگ کے پھول ایک دم میرے بچپن کے اس سنہری دور کی طرف لے گیے جب بہار آتے ہی ہم سب چھوٹے بڑے, زن و مرد کوہ ماران قلعے کے دامن میں بادام واری کا لطف لینے کیلیے خوشی خوشی جاتے تھے۔ اکثر سارے لوگ خصوصآ شہر خاص کے لوگ بادام واری کیطرف پیدل چل پڑتے تھے۔
بہار آتے ہی بادام واری میں سینکڑوں کی تعداد میں درخت برجستہ پھولوں سے ایک نیی نویلی دلہن کیطرح سجتے ہویے دکھایی دیتے تھے۔ ایک نہایت ہی دلفریب اور پر کشش منظر ہر سو دکھایی دیتا تھا۔ اوپر کوہ ماران کا پہاڈ اور ہاری پربت کا قلعہ اور نیچے بادام واری۔
لوگ بلا لحاظ مزہب و ملت، رنگ ونسل، زات پات بادام واری کا لطف اٹھانے کیلیے جاتے تھے۔ مسلمان عورتیں باحجاب اور ریوآیتی پھیرن پہنے اور سفید برقعے پہن کر آتی تھیں اور بزرگ لوگ پھیرن پہن کر اور سر پر ایک نیا دھلا ہوا سفید رنگ کا عمامہ جسے عام لفظوں میں دستار کہتے ہیں پہن کر خراماں خراماں پیدل سفر کرتے چلے آتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچے اور ننی منی لڑکیاں، جوان مرد ہندو اور سکھ برادری بھی اپنے ریوآیتی لباس زیب تن کیے ہویے جوک در جوک جاتے تھے۔
وہ ایک بہت ہی سہانا دور تھا۔ ایک طرف حضرت سلطان عارفین کا آستانِ عالی، دوسری طرف ماتا شارکا دیوی کا مندر اور چھٹی بادشاہی کا گرو دوارا بھی ہماری مزہبی رواداری اور ہندو مسلم سکھ بھایی بھایی ہونے کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھا۔
سب لوگ اپنی ریوآیتی چاے اور روٹی بھی ساتھ لیکر جاتے تھے۔ بادام واری پہونچ کر برجستہ پھولوں سے آراستہ کسی درخت کی چھاؤں میں ایک قالین، دری یا کویی چٹایی بچھاکر بڑے ہی سکون اور آرام سے بیٹھتے تھے۔ گاؤ تکیے سے ٹیک لگاکر کچھ بزرگ آرام کی نیند بھی سوتے تھے۔
واہ، کیا خوبصورت دور تھا، پیسہ کم تھا مگر سکون تھا، مکان کچے تھے مگر آرام تھا۔ دلوں میں حسد، بوغض نفرت، تعصب، عداوت کی ہلکی سی بو بھی کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ ہندو مسلمان سکھ ایک ہوکر اس خوبصورت بادام واری کا لطف اٹھاتے تھے۔ چاے پیتے تھے، قہوہ پیتے تھے، مغلی چاے پیتے تھے۔ اگر کسی کو کھانڈ یا نمک کم ہوتا تھا تو وہ ہندو یا سکھ سے مانگ لیتے تھے اسی طرح وہ بھی مسلمانوں سے دودہ یا کھانڈ مانگتے تھے۔ کسی بھی قسم کا کویی بھید بھاؤ نہیں تھا۔ دل صاف تھے اور سب لوگ بہت ہی مخلص ہوا کرتے تھے۔ ہندو مسلم سکھ آپس میں بھایی بھایی کی طرح رہتے تھے۔
کچھ لوگ تمباکو کے کش بھی لگاتے تھے جس کیلیے ایک خاص طبقہ حقہ اور تمباکو پلانے کیلیے آتے تھے اور اسطرح چند پیسے بھی کماتے تھے۔ سنگھاڈے کھانا بادام واری کا ایک خاص مشغلہ ہوا کرتا تھا ۔ ہر شخص کے منہہ سنگھاڈوں کی وجہ سے سیاہ ہوا کرتے تھے جسکا ایک الگ ہی منظر ہوا کرتا تھا۔ بچے بادام کے شگوفوں کی مالاییں بناتے تھے۔
شام ہوتے ہی سب لوگ واپس اپنے اپنے گھروں کی طرف جاتے تھے۔ پیدل چلنے والے لوگوں کا ایک تانتا بندھا ہوا دکھایی دیتا تھا۔
کویی مجھے میرا ماضی واپس لاکر دیدو۔ بقول شاعر
یاد نہ جایے بیتے دنوں کی
جا کے نہ آییں وہ دن
دن زندگی کے
انہیں دل کیوں بلایے
دن جو پکھیرو ہوتے پنجرے میں میں رکھدیتا
پالتا انکو جتن سے
موتی کے دانے دیتا
سینے سے رہتا لگاییے۔