ہمالیہ کی آغوش میں بسا ہوا کشمیر صرف ایک وادی نہیں، ایک روحانی تجربہ ہے ، ایک ایسا مقام جہاں دریا، پہاڑ اور ہوائیں سب تقدیس کی گواہی دیتے ہیں۔ یہاں روحانیت نہ صرف مسجدوں یا مندروں تک محدود ہے، بلکہ روزمرہ کی سانسوں میں رچی بسی ہے۔ لل دید کے واکھ اور شیخ العارفین کا کلام آج بھی وادی میں گونجتا ہے، اور ہندو و مسلمان یکساں عقیدت سے دہراتے ہیں۔ امر ناتھ یاترااسی مشترکہ ورثے کی سب سے بڑی علامت بن چکی ہے ۔ یہ گپھا جسے پندرہویں صدی میں ایک مسلمان چرواہے نے دریافت کیا، آج لاکھوں عقیدت مندوں کے لیے نہ صرف بھگوان شو کی یاد ہے بلکہ کشمیر کے لیے ایک معاشی زندگی کی علامت بھی بن چکی ہے۔ ہر سال جب یاترا کا آغاز ہوتا ہے تو وادی کے ہر گوشے میں روزگار، چہل پہل اور امید کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ گھوڑے والے، ڈھابہ چلانے والے، ہوٹل مالکان، کاریگر، ق±لی، اور ڈرائیور ، گاڑی مالکان ، پٹری والی اس یاترا کے سہارے جیتے ہیں۔2024 میں 5لاکھ سے زائد یاتریوں نے کشمیر کا رخ کیا، اور مقامی معیشت کو 4000 کروڑ روپے کا فائدہ پہنچایا۔مگر اس مقدس سفر پر بھی دہشتگردی کے سائے رہے ہیں۔ 2000، 2002، 2006، 2017 اور حالیہ اپریل 2025 کا پہلگام حملہ سبھی میں بے گناہ جانیں ضائع ہوئیں۔ اس سال کی واردات نے 26 سیاحوں کی جان لے لی اور کشمیر کی سیاحت کو خطرے میں ڈال دیا۔ ہوٹل خالی، بازار سنسان، ہوئے تھے لیکن کشمیر نے ہار نہ مانی جولائی 2025 تک 3.3 لاکھ یاتری وادی میں داخل ہو چکے ہیں، اور ایک بار پھر ہوٹل آباد، بازار روشن، اور لوگوں کے چہرے پر خوشی ہے۔یہ یاترا صرف ایک مذہبی رسومات کا سفر نہیں یہ کشمیری عوام کی مزاحمت، وحدت اور معیشت کا استعارہ ہے۔ پاکستان جو یاترا کو کشمیریوں پر ’مسلط‘ قرار دیتا ہے، وہیں یہی کشمیری یاتریوں کو چائے پیش کرتے ہیں، ان کا سامان اٹھاتے ہیں، اور انہیں اپنی مہمان نوازی سے شاد کرتے ہیں۔ یہاں امرناتھ غار صرف ایک تیرتھ نہیں، ایک مشترکہ تاریخی یادداشت ہے جو ہندو مسلم اتحاد، صبر، اور کشمیر کی اقتصادی خودمختاری کا مظہر ہے۔قارئین آج جب یاتری اس برفانی گپھا میں ماتھا ٹیکتے ہیں، وہ صرف بھگوان شو کی پوجا نہیں کرتے، بلکہ کشمیر کی بقا، امن، اور اس کے عوام کی روزی روٹی کو بھی نئی زندگی دیتے ہیں۔ ہر قدم جو وہ اٹھاتے ہیں، وہ دہشتگردی کے خلاف ایک خاموش مگر مضبوط انکارہے۔