وادی کشمیر قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہے جہاں برفیلی چوٹیاں، ندی نالے ، سبزہ زار موجودہ ہیں جو ایک روحانی تسکین عطاکرتی ہے ۔ اس خوبصورت وادی جوکہ ہمالیہ کی چوٹیوں میں گری ہوئی ہے اس خوبصورت ہمالیائی پہاڑی سلسلہ میں امرناتھ گپھا واقع ہے جو صدیوں سے عقیدت مندوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ سطح سمندر سے قریب 12ہزار 700فٹ کی بلندی پر واقع یہ گپھا بھگوان شیو اور دیوی پاروتی کا مسکن رہی ہے ۔ ہندومذہب میں یہ گپھا اہم پوتر پیٹھوں میں سے ایک مانی جاتی ہے اس گپھا کو مہا مایا شکتی پیٹھ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ گپھا محض ایک گپھا نہیں ہے بلکہ بھوان شیو اور ماتا پاروتی اور بھوان گنیش کا مسکن ہونے کی وجہ سے روحانی علامت بھی تصورکی جاتی ہے ۔ اور امرناتھ یاترا ان تین چیزوں پر مشتمل ہے جس میں برداشت ، روحانیت اور عزم شامل ہے اور یہی یاترا کا اصل محرک بھی ہے ۔
قارئین اگر ہم امرناتھ گپھا سے متعلق پس منظر پر نظر ڈالیں تو افسانوں میں کہا جاتا ہے کہ یہاں اس گپھا میں بھوان شیو اور ماتا پاروتی نے وقت گزارا اور بھگوان شیو نے دیوی پاروتی کو کئی اہم روزوں سے باخبر کیا اور اسی تناظر میں انہوںنے اس جگہ کا انتخاب کیا تھا تاکہ یہ کائینات کے روز کسی دوسرے کے گوشوں تک نہ پہنچے اور انہوںنے ماتا پاروتی کو اسی جگہ کائنات کے رو زسے باخبر کرایا تھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ جب بھوان شیو اور پاروتی اس گپھا میں داخل ہوئے تو انہوںنے اپنے بیٹے گنیش اور سانپ کو شیش ناگ کے مقام پر روکے رکھا اور جب یہ گپھا میں داخل ہوئے تو کبوتروں کے ایک جوڑے نے ان کی گفتگو سن لی ۔ اس طرح سے کبوتروں کا یہ جوڑا امر ہوا اور آج بھی یہ کبوتروں کا جوڑا گپھا کے آس پاس دکھائی دیتا ہے اور آج تک متعدد یاتریوں نے ان کبوتروں کو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ امرناتھ کے حوالے 12ویں صدی عیسوی میں کلہانہ کی لکھی ہوئی مہاکاوی راجترنگینی میں بھی ملتے ہیں، جس میں اس نے ملکہ سوریا متی کا ذکر کیا ہے، جس نے امریشور میں مٹھوں کو تعمیر کیا تھا جو کہ قدیم ہندوستان میں امرناتھ کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔تاہم اس گپھا کی نشاندہی 15ویں صدی میں ہوئی تھی جب ایک مسلمان چرواہے بوٹا ملک نے یہ گپھا دیکھی جہاں پر شیو لنگم نمودار ہوا تھا ۔ اس جگہ پہنچنے کے بعد بوٹا ملک کو ایک شخص سے ملاقات ہوئی تھی جس کو اس نے کوئلے کا ایک تھیلہ دیا تھا اور جب یہ کوئلے کا تھیلہ لیکر گھر پہنچا تو وہ سونے کے تھیلے میں تبدیل ہوا ۔ اس کے بعد بوٹا ملک واپس اس شخص کی تلاش میں گپھا تک پہنچا تاہم اسے وہاں پر موجود شیو لنگم کے سوا اور کچھ نظر نہیں آیا ۔ اس واقعے کے بعد یہ گپھا مشہور ہوئی اور بوٹا ملک کے خاندان اس گپھا کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں اور یاترا کو منعقد کرنے کےلئے اہم کردار اداکرتے ہیں۔
قارئین کو پتہ ہوگا کہ گپھا تک پہنچانے کےلئے دو راستے ہیں ایک چندن واڑی اور دوسرا بال تل کا راستہ ہے ۔ تاہم روایتی راستہ پہلگام سے شروع ہوتا ہےجو چندنواری، شیش ناگ اور پنچترنی سے گزرتا ہے۔اسی طرح سونہ مرگ کے راستے بال تل کا راستہ ہے جو فاصلے میں پہلگام کے نسب کم ہے ۔ یہ راستہ بال تل سے شروع ہوتا ہے اور ڈومیل اور سنگم سے ہوتا ہوا گزرتا ہے ۔
دونوں راستے قدرتی خوبصورتی سے مزین ہیں ۔ ان دونوں راستوں سے یاترا کرنے والے یاتری قدرتی خوبصورتی کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس پوتر گپھا تک پہنچتے ہیں اور ایک روحانی سکون حاصل کرتے ہیں ۔ ابتدائی سالوں میں یہ یاترا کافی کٹھن تھی جو برفیلی پہاڑیوں اور خطرناک راستوں سے ہوکر ممکل ہوتی تھی ۔ برف سے ڈھکے پہاڑیوں کو سرکرکے ہی اس جگہ پہنچا جاسکتا تھا ۔ البتہ اُس وقت کم ہی تعداد میں یاتری اس گپھا تک پہنچتے تھے ۔ 1895میں اس یاتر کو منظم کرنے کےلئے اقدامات اُٹھائے گئے اور اور یاتریوں کےلئے تول مولہ میں کھیر بھوانی میلے کے دوران یاتریوں کو ٹھہرنے کا بندوسبت کیا جاتا تھا ۔ جیسے کہ آپ کو معلوم ہے کہ تول مولہ میں جو میلہ کھیر بھوانی لگتا ہے وہ دیوی راگنی سے منسوب ہے جس کی یاد میں وہاں ایک مندر بھی تعمیر کیا گیا ہے ۔ اس جگہ ہر سال جیسٹھا ایشٹمی پر ایک میلہ لگتا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں یاتری حاضری دیتے ہیں جو یہاں پر خصوصی پوجا پاٹ کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اس یاترا میں شرکت کرنے والوں کےلئے سرکا رنے مفت لنگر اور قیام طعام کا بھی بندوست کیا ہے ۔ قارئین اس یاترا کو امن و سلامتی کے ساتھ اختتام تک پہنچنانے کےلئے بھارتی فوج ان کے راستوں کی مکمل حفاظت کی ذمہ داری اٹھاتی ہے ۔ دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں اپنی تعیناتی کو یقینی بناکر یاتریوں کی حفاظت کرتی ہے ۔ فوج نہ صرف حفاظتی خدمات انجام دیتی ہے بلکہ یاتریوں کی وقت وقت پر مدد بھی کرتے ہیں انہیں راستے میں رہنمائی کرتے ہیں ان کو اس کٹھن راستے میں چلنے کےلئے مدد بھی کرتے ہیں ۔ جبکہ یاتریوں کی طبی سہولیات کےلئے بھی اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں ۔یاترا کے راستوں پر فوج کی موجودگی یاتریوں کو تحفظ اور یگانیت کا احساس دلاتی ہے ۔ قارئین امرناتھ یاترا ہندوستانیوں کےلئے ایک اہم یاترا کے طور پر مقبول ہے اور اس دشوار گزار سفر کےلئے ہر سال لاکھوں یاتری رجسٹر کرتے ہیں ۔