• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Monday, November 3, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home Editorial & Opinion

وادی گریز کی خواتین جدوجہد، ایثار اور قربانی کا مجسمہ 

Agencies by Agencies
July 15, 2025
in Editorial & Opinion
A A
The Historical Significance Of Gurez Valley In Kashmiri Culture
FacebookTwitterWhatsapp

 

ہمالیائی پہاڑیوں کے بیچ میں واقع ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حد متارکہ پر واقع وادی گریز اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے ۔ یہ وادی سٹریٹجک لحاظ سے کافی اہمیت کی حامل ہے تاہم یہ وادی موسم سرماءکے چھ مہینوں تک وادی کشمیر کے دیگر علاقوں سے زمینی رابطے سے کٹ کر رہ جاتی ہے کیوں کہ یہاں پر درجہ حرارت منفی 20ڈگری سے بھی نیچے چلا جاتا ہے ۔ اس طرح سے یہاں پر زندگی دشوار بن جاتی ہے ۔ یہ وادی انتہائی خوبصورت ہے جہاں پر ایک الگ ثقافت اور تہذیب ہے جبکہ زبان بھی مختلف ہے ۔ گریز وادی کے مکین شینا زبان بولتے ہیں ۔ موسم سرماءکے دوران جہاں زندگی کی رفتار تھم جاتی ہے اور معمولات زندگی متاثر رہتی ہے تاہم اس سخت موسم میں گریز کی خواتین اپنے فرائض سے پیچھے نہیں ہٹتی ۔ خواتین نہ صرف اپنے گھر کے کاموں کو بخوبی انجام دیتی ہے بلکہ سماجی ، ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے بھی اپنی خدمات انجام دیتی ہیں۔ قارئین وادی گریز دور دراز علاقہ ہونے کی وجہ سے کئی بنیادی سہولیات سے آج بھی محروم ہے ۔ بجلی کی غیر معقولیت ، انٹرنیٹ کی عدم دستیابی ، موبائل کنکٹوٹی کا فقدان جیسی جدید سہولیات مقامی لوگوں کےلئے باعث پریشانی بنی ہوئی ہے ۔ 

جہاں تک گریز کی خواتین کی سرگرمیوں کا تعلق ہے تو گریز میں خواتین کی دھوڑ دھوپ صبح فجر سے ہی شروع ہوجاتی ہے ۔ موسم سرماءہو یا موسم گرما ، سردیاں ہوں یا گرمیاں یا درجہ حرارت منفی سے نیچے چلا جائے جب پانی بھی جم جاتا ہے تو اس سخت مشکل موسم میں بھی گریز کی خواتین اپنی معمولات کو اپناتی ہے ۔ صبح اُٹھ کر پانی لانے کےلئے گھروں سے باہر نکلتی ہے اور لکڑیاں جلاکر رواتی طریقے سے کھانا پکانے کا کام شروع کرتی ہے ۔ قارئین سردیوں سے پہلے ہی سوکھی لکڑیوں کو جمع کرکے سردیوں کے موسم کےلئے دستیاب رکھا جا تا ہے ۔ اکثر خواتین جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر اپنے سروں پر لاد کر لاتی ہیں اور یہ کام وہ اعلیٰ صبح کرکے باقی دن دیگر کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔ اسی طرح گریز کی خواتین کاشتکاری کے لئے بھی اپنے آپ کو دستیاب رکھتی ہیں ۔ وادی گریز میں سخت موسمی صورتحال کے نتیجے میں کاشتکاری کا سیزن بھی مختصر ہوتا ہے ۔ کاشتکاری میں آلو، مٹر ، چلجم ، مکی ، راجماش اور دیگر ایسی چیزیں اُگائی جاتی ہیں جو موسم گرم میں ہی تیار ہوتی ہیں۔ اس کاشتکاری میں خواتین کا ہی اہم رول رہتا ہے جبکہ مویشی پالتے ہیں اور چارہ اکٹھا کرتے ہیں، یہ سب گھر کے کام کاج کا انتظام کرتے ہیں اور بچوں اور بزرگوںکی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اپنے گھریلو کام کے علاوہ دیگر کام بھی انجام دیتے ہیں جیسے دستکاری کے شعبے میں گریز کی خواتین اپنی خدمات انجام دیتی ہیں ۔ان دستکاریوں میںکڑھائی، بنائی اور روایتی دستکاری ماضی کی کہانیاں بیان کرتی ہیں اور ان کے ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔ خواتین اکثر ہاتھ سے کڑھائی کرتی ہیں فیرن، ایک لمبا اونی گاو¿ن جو سردی کے مہینوں میں پہنا جاتا ہے جو فطرت، زرخیزی اور تحفظ کی علامت ہے۔ یہ فنی اظہار اپنے ورثے کو زندہ رکھتے ہیں اور جدیدیت کی ہم آہنگی قوتوں کے خلاف خاموش مزاحمت کا کام کرتے ہیں۔

 قارئین جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ گریز وادی میں موسم کی سخت کے سبب زندگی بھی کافی مشکل ہے تاہم اس کے باوجود بھی گریز کے لوگوں نے اپنی زبان، رسم و رواج ، رہن سہن اور ثقافت کو تحفظ فراہم کیا ہے ۔ گریز کے لوگ شینا زبان بولتے ہیں جو ان کے قبیلے کی پہنچان بھی ہے ۔ خواتین اپنی زبان کو زندہ رکھنے کےلئے لوک گیت ، کہانیاں اور رواتی طریقے سے دیگر سماجی تفریحی پروگراموں میں اسی زبان کو ترجیح دیتے ہیں۔ 

گریز میں اگر ہم تعلیم و تربیت کی بات کریں تو اس دور دراز پہاڑی خطے میں تعلیمی سہولیات بھی کم ہی دستیاب ہے خاص طور پر اگر ہم خواتین کےلئے تعلیمی مواقعے کی بات کریں تو اس خطے میں خواتین کےلئے تعلیمی سہولیات کم ہونے کی وجہ سے زیادہ تر خواتین ناخواندہ ہی ہیں۔ تاہم اب وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اس خطے میں بھی خواتین کی تعلیم کی طرف توجہ دی جارہی ہے ۔ اس تناظر میں پچھلی دو دہائیوں کے دوران، سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں نے اسکولوں کی تعمیر اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مراعات فراہم کرنے کے لیے معمولی کوششیں کی ہیں۔ آج کل نوجوان خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا زیادہ امکان ہے اور کچھ تو سرینگر یا جموں جیسے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی گئی ہیں۔ سماجی بندھنوں کے باجود بھی بہت سی لڑکیاں ملک کے دیگر شہروں میں بھی تعلیم کے حصول کےلئے موجود ہیں ۔ اس طرح سے گریز کی لڑکیاں حصول تعلیم کےلئے بر سر جہد ہے ۔ آج لڑکیوں کے والدین اپنی بچیوں کو تعلیم دلانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ 

قارئین اسی طرح گریز وادی میں طبی سہولیات کا بھی فقدان ہے جس کا اثر براہ راست خواتین پر پڑتا ہے اور طبی نگہداشت کے حوالے سے یہاں کی خواتین کو شدید مشکلات درپیش ہے ۔ یہاں موجودہ طبی مراکز سردیوں میں اکثر بند رہتے ہیں جبکہ ان مراکز تک پہنچنا بھی سخت موسم میں مشکل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے خواتین عام طو رپر زچگی کے حوالے سے ہی گھروں میں ہی رہتی ہیں ۔اس کے باوجود، گریز میں خواتین نے دیکھ بھال کرنے والی، دائیاں اور علاج کرنے والی بننا سیکھ لیا ہے۔ انگریزی طریقہ علاج کے فقدان کے نتیجے میں یہاں پر آج بھی لوگ قدیم طریقہ علاج پر ہی منحصر ہے خاص کر جڈی بوٹیوں سے علاج آج بھی گریز میں عام بات ہے ۔ لیکن گریز کی خواتین جدید طرز کے علاج کی متمنی ہے اور اسی کوشش میں رہتی ہیں کہ انہیں جدید علاج دستیاب رہے ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کےلئے کئی این جی اوز سرگرمی سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ این جی اوز اور سرکاری پروگراموں نے ٹیلی میڈیسن اور موبائل ہیلتھ یونٹس متعارف کرانے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی رسائی محدود ہے۔ پھر بھی، مقامی خواتین کی صحت کے کارکنوں اور رضاکاروں کے طور پر تربیت حاصل کرنے کی خواہش ان کی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے ان کی وابستگی کو واضح کرتی ہے۔

قارئین گریز ہندوپاک لائن آف کنٹرول پر واقع ہونے کے نتیجے میں کشیدگی کے نرغے میں رہتا ہے جہاں پر فوج مستقل طور پر تعینات ہے جبکہ کبھی کبھی دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھنے کے بعد گولہ باری کا بھی سامنا رہتا ہے ۔ کئی بار گریز میں مقامی کنبوں کو اپنے آشیانے چھوڑنے پڑے ہیں کیوں کہ سرحدی گولہ باری کے نتیجے میں نہ صرف املاک کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ انسانی جانوں کے زیاں کابھی اندیشہ بڑھ جاتا ہے ۔ اس طرح کے ہنگامی حالات میں بھی خواتین کو سب سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔ ہجرت کے دوران انہیں کھانے پینے کی اشیاء، بچوں کی دیکھ بھال اور دیگر چیزوں کا بندوبست کرنا پڑتا ہے ۔ قارئین گریز کی خواتین کی یہ جدوجہد نہیں ہے بلکہ ان کے حوصلے اور عزم کی عکاسی ہے پھر بھی اس خطے کی خواتین کی قربانی ، ایثار اور جدوجہد نظر انداز کی جاتی ہے ۔ 

 

Previous Post

Sopore Police Arrest Two Drug Peddlers, Seize Psychotropic Substances

Next Post

Legendary Poet Shahid Budgami Passes Away

Next Post
Legendary Poet Shahid Budgami Passes Away

Legendary Poet Shahid Budgami Passes Away

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.