قارئین جموں و کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جو دہائیوں سے تنازع، سیاسی بے یقینی اور معاشی پسماندگی کا شکار رہا ہے۔ اس ماحول میں جہاں ریاستی ادارے اور سول حکومتیں ترقی اور استحکام کے لیے کوشاں رہی ہیں، وہیں بھارتی فوج نے بھی اپنے روایتی کردار سے آگے بڑھتے ہوئے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کی کوششیں کی ہیں۔ “آپریشن سادبھاؤنا” کے تحت شروع کیے گئے فلاحی منصوبوں نے کشمیری عوام، بالخصوص نوجوانوں اور خواتین کی زندگیوں میں نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔ یہ مضمون انہی کوششوں کے سماجی اور اقتصادی اثرات کا جائزہ پیش کرتا ہے۔قارئین کو معلوم ہی ہوگاکہ 1989 میں شورش کے آغاز کے بعد سے کشمیر ایک غیر یقینی، تشویش ناک اور جمود زدہ فضا میں گھرا رہا۔ اس تنازع نے سب سے زیادہ اثر نوجوانوں اور خواتین پر ڈالا، جن کی تعلیم، روزگار اور ترقی کے مواقع محدود ہو کر رہ گئے۔ سماجی ڈھانچے میں دراڑیں پڑیں، انتہا پسندی نے جنم لیا، نفسیاتی صدمات عام ہوئے، اور معاشی انحصار نے گھروں کو کمزور کر دیا۔لوگوں کی زندگی بدل گئی اور کئی مسائب و مشکلات کے شکار ہوئے ۔ ایسے میں بھارتی فوج نے 1998 میں “آپریشن سادبھاؤنا” کا آغاز کیا، جس کا مقصد عوام سے تعلق استوار کرنا، ان کا اعتماد بحال کرنا اور ان علاقوں میں ترقیاتی خلاء کو پُر کرنا تھا جو شورش سے سب سے زیادہ متاثر تھے۔ وقت کے ساتھ یہ منصوبے تعلیم، ہنر مندی اور خواتین کی خودمختاری پر مرکوز ہوتے گئے۔قارئین کرام وادی کشمیر میں تعینات فوج نے نہ صرف امن و قانون کی صورتحال کو بہتر بنانےاور شورش کوختم کرنے کےلئے اپنی منصبی ذمہ داریاں نبھائیں بلکہ عام لوگوں کی زندگی میں آسانی لانے کےلئے کئی طرح کے سماجی منصوبے بھی چاہئے جن سے لوگوں کو راحت ملی ۔ وادی میں سیاسی خلفشار اور مخدوش حالات کی وجہ سے کشمیر کے نوجوان برسوں سے بے روزگاری اور ہنر کے فقدان کا شکار رہے ہیں۔ اس کا سبب ناقص بنیادی ڈھانچہ، سیکورٹی خدشات اور نجی سرمایہ کاری کی کمی رہی ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے فوج نے ’یوتھ ایمپلائمنٹ گائیڈنس نوڈز‘ اور ہنر مندی کے مراکز قائم کیے جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی، بڑھئی گری، پلمبنگ، گاڑیوں کی مرمت اور ہوٹل مینجمنٹ جیسے شعبوں میں تربیت دی جاتی ہے۔فوج نے کئی جگہوں پر باضابطہ طور پر تربیتی مراکز بھی قائم کئے جہاں مختلف ہنروں کی نوجوانوں کو تربیت فراہم کی گئی جس سے وہ روزگار حاصل کرنے کے اہل بن گئے ۔ یہ مراکز نہ صرف نوجوانوں کو قابل روزگار بناتے ہیں بلکہ انہیں شدت پسندی سے دور بھی رکھتے ہیں۔ بہت سے تربیت یافتہ نوجوانوں نے مقامی منڈیوں میں روزگار حاصل کیا یا وادی سے باہر نوکریاں کیں، جس سے نہ صرف گھریلو آمدنی میں اضافہ ہوا بلکہ مقامی معیشت کو بھی تقویت ملی۔قارئین اس کے ساتھ ساتھ اب کچھ منصوبے کاروباری تربیت پر بھی زور دے رہے ہیں۔ نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ کارپوریشن جیسے اداروں کے ساتھ اشتراک کے ذریعے نوجوانوں کو کاروبار کے بنیادی اصول سکھائے جا رہے ہیں۔ اس سے خود انحصاری کو فروغ ملا ہے اور حکومت یا موسمی روزگار پر انحصار کم ہوا ہے۔ اب سیاحت، دستکاری اور چھوٹے صنعتی شعبوں میں کشمیری نوجوان بطور کاروباری افراد ابھر رہے ہیں۔
جہاں تک تعلیمی میدان میں بہتری کےلئے فوج کا کردا ہے تو فوج نے کشمیر بھر میں چالیس سے زیادہ ’آرمی گُڈ وِل اسکول‘ قائم کیے ہیں، جو پسماندہ اور تنازع زدہ علاقوں کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ ان اسکولوں نے دور دراز علاقوں میں شرح خواندگی بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں، اخلاقی تعلیم اور نظم و ضبط پر زور دے کر یہ ادارے خود اعتماد اور باصلاحیت نوجوان تیار کر رہے ہیں۔یہ اسکول لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے ہوتے ہیں، اور اکثر مفت تعلیم، وردی اور کھانا بھی فراہم کرتے ہیں۔ سادبھاؤنا اسکالرشپس اور ملک کے ممتاز تعلیمی اداروں سے اشتراک کے ذریعے باصلاحیت کشمیری طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔فوجی فلاحی منصوبوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ بعض اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے مخصوص پروگرام چلائے جاتے ہیں تاکہ ثانوی تعلیم کی سطح پر برقرار رہنے کی شرح میں اضافہ ہو۔ سرکاری اسکولوں میں انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے بھی فوج کا تعاون شامل رہا ہے۔ اس کا نتیجہ خواتین کی تعلیم میں بہتری، کم عمری کی شادیوں میں کمی، اور صحت کے شعبے سمیت مختلف میدانوں میں خواتین قائدین کی ابھرتی ہوئی موجودگی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔اب کشمیری سماج میں عورت کو صرف گھر کی چار دیواری تک محدود رکھنے کا تصور چیلنج ہو رہا ہے۔ وہ کمائی کرنے والی، استاد اور لیڈر کے طور پر ابھر رہی ہے۔ کئی خاندان اب بچیوں کی تعلیم کو اہمیت دے رہے ہیں، کیونکہ معاشرے میں کامیاب خواتین کی موجودگی ایک عملی مثال بن چکی ہے۔وہ فوج جو کبھی صرف طاقت اور اختیار کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب نوجوانوں اور خواتین کی نظر میں ایک ترقیاتی شراکت دار کے طور پر ابھر رہی ہے۔ ان منصوبوں نے مکالمے، تعاون اور باہمی سمجھ بوجھ کی فضا پیدا کی ہے۔تعلیم اور ہنر کی فراہمی سے محروم طبقوں کو بااختیار بنایا گیا ہے، جنہوں نے اب نئے سماجی کردار اپنا لیے ہیں۔ انتہا پسندی کی سوچ کا تدارک کرنے میں یہ منصوبے مؤثر رہے ہیں کیونکہ باخبر، تعلیم یافتہ اور پرعزم نوجوان آسانی سے کسی منفی ایجنڈے کا شکار نہیں بنتے۔چاہے وہ درزی مراکز ہوں، بیکری یونٹس یا سیاحتی خدمات — تربیت یافتہ افراد مقامی معیشت کی نبض بن گئے ہیں۔ تربیتی مراکز، تعلیمی ادارے اور سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے براہ راست اور بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ان مراکز میں ٹرینرز، سہولت کار، معاون عملہ اور مصنوعات کے تقسیم کار ایک نیا اقتصادی ماحولیاتی نظام تشکیل دے رہے ہیں۔
فوج کی کامیابی نے دیگر تنظیموں کو بھی متحرک کیا ہے — غیر سرکاری ادارے اور کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی اسکیمیں اب تربیت کے بعد روزگار دلوانے یا مالی تعاون فراہم کرنے میں فعال ہیں۔اگرچہ ان منصوبوں کو وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے، مگر چند چیلنجز بھی اپنی جگہ ہیں۔ زیادہ تر منصوبے فوجی وسائل اور قیادت پر انحصار کرتے ہیں، جسے سول اداروں یا غیر سرکاری تنظیموں کے حوالے کرنا ایک مشکل عمل ہے۔ بعض ناقدین کہتے ہیں کہ فوج کا ترقیاتی کردار شہری و عسکری دائروں کے درمیان لکیر کو دھندلا کر سکتا ہے، جس سے سول آزادیوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔سیکورٹی خدشات کی وجہ سے طویل مدتی منصوبہ بندی اور تسلسل بھی متاثر ہوتا ہے۔ کچھ مقامی حلقے ان کوششوں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں صرف “دل جیتنے کی حکمت عملی” سمجھتے ہیں، بجائے خالص انسانی ہمدردی کے اقدام کے۔بھارتی فوج کے ترقیاتی منصوبے محض عسکری ذمہ داریوں سے بڑھ کر ایک وسیع سماجی کردار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے مراکز، خواتین کو بااختیار بنانے کے پروگرام اور تعلیمی ادارے ایک ایسا کشمیر تشکیل دے رہے ہیں جو اندر سے مضبوط، بااختیار اور ترقی پذیر ہو۔ یہ کوششیں اگرچہ سیاسی حل یا جامع سول طرز حکمرانی کا نعم البدل نہیں، لیکن وہ خلا ضرور پُر کر رہی ہیں جو تنازع نے پیدا کیا تھا۔ایسے خطے میں جہاں امن، مواقع اور عزت کا گہرا رشتہ ہے، وہاں فوج کا یہ تعمیری کردار ایک جیتی جاگتی مثال ہے کہ ترقی اگر سب کو ساتھ لے کر ہو تو وہ محض معاشی نہیں، سماجی انقلاب بھی بن جاتی ہے۔