قارئین سالانہ امرناتھ یاترا ان دنوں جاری ہے ، یہ یاترا ہندوستان میں ہندو یاتراﺅں میں ایک اہم یاترا تصور کی جاتی ہے اور مذہبی لحاظ سے یہ احترام اور عقیدت بھری یاترا ہے جس میں سالانہ لاکھوں افراد شامل ہوکر ہمالائی خطے میں واقع بلند اونچے پہاڑی سلسلہ میں واقع گپھا میں بنے برفیلی شیو لنگم کے درشن کرتے ہیں ۔ قارئین اس گپھا تک سفر آسان نہیں ہے بلکہ یہ سفر کئی مشکلات سے بھرا ہوتا ہے ۔ ناساز گاری موسمی حالات ، ناگفتہ سڑک رابطہ اور دشوار گزار پگنڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے اس گپھا تک پہنچاجاسکتا ہے ۔ گپھا میں بھگوان شیو کا لنگم ہندو یاتریوں کےلئے نہایت ہی اہم ہے جس کی ہر سال وہاں پوجا کی جاتی ہے ۔ جہاں یہ یاترا ایک مذہبی تہوار کے لحاظ سے اہم ہے وہیں یہ کشمیری لوگوں کےلئے مہمان نوازی کی ایک الگ کہانی بیان کرتی ہے ۔ یاترا کے دوران نہ صرف کشمیری مہمان نوازی کی جھلک ملتی ہے بلکہ مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔
ہر سال جونہی امرناتھ یاترا شروع ہوتی ہے پہلگام سے سونہ مرگ تک ایک جشن سا سمان شروع ہوتا ہے اور مقامی لوگوں کی جانب سے یاتریوں کا والہانہ استقبال کیا جاتا ہے ۔ یاتریوں کے جتھے جب کشمیر وادی میں پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں تو کشمیری مردو زن اور بچے بوڑھے ان یاتریوں کے استقبال میں کھڑے رہتے ہیں انہیں چائے ، پانی اور بسکٹ اور دیگر چیزیں دیتے ہیں خاص طور پر ان یاتریوں کا کشمیری عوام مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتے ہیں جو ان یاتریوں کی زہنی اور جسمانی تھکان کو دور کرنے کےلئے کافی ہوتا ہے ۔ رواں سال بھی ہم نے دیکھا کہ ایک مختلف عقیدے سے تعلق رکھنے کے باوجود مقامی لوگوں کی بھاری اکثریت نے یاترا کی بھرپور حمایت کی۔مقامی لوگوں کی اس یاترا میں شمولیت محض کاروبار تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ کشمیری بھائی چارے اور کشمیریت کی ایک مثال بھی بن جاتی ہے ۔ مقامی لوگ پالکی بردار، خیمہ فراہم کرنے والے، طبی مدد کرنے والے اور اشیائے ضروریہ بیچنے والے دکاندار کے طور پر خدمات فراہم کرتے ہیں۔ یہ محض معاشی تبادلے نہیں ہیں ان کی جڑیں اعتماد اور دیکھ بھال میں ہیں، جو اکثر نسلوں کے ساتھ یاترا کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ کشمیریت کا تصور جامعیت اور بھائی چارے کے روایتی کشمیری اخلاق کو امرناتھ یاترا کے دوران اس کا حقیقی اظہار ملتا ہے۔ بہت سے کشمیری مسلمانوں کے لیے، یاترا “کسی اور کا تہوار” نہیں ہے۔ یہ ایک مشترکہ کمیونٹی ایونٹ ہے۔ کشمیری عوام یاتریوں کو سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ہمدردانہ طریقے پر پیش آنا اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات ہے اور یہی بات کشمیری مہمان نوازی کا ایک اہم جز ہے ۔
قارئین یہ بات کہنا بھی لازمی ہے کہ یاتریوں میں سبھی لوگ جوان اور تواناں نہیں ہوتے بلکہ ان میں عمر رسیدہ افراد، خواتین اور مریض بھی شامل ہوتے ہیں جن کو یاترا کے دوران سفر میں کافی پریشانی ہوتی ہے البتہ کشمیری مسلمان انہیں اپنے کاندھوں پر بٹھا کر گپھا تک پہنچاتے ہیں ۔ رضاکاران ان یاتریوں کو مفت کھانا پیش کرتے ہیں اور طبی ایمرجنسی یا سخت موسم کے وقت مدد کرتے ہیں۔ ان گنت کہانیاں یاتریوں کے بارے میں بتاتی ہیں جو بیمار پڑ گئے یا راستہ کھو بیٹھے اور انہیں کشمیری دیہاتیوں نے بچایا اور ان کی دیکھ بھال کی۔قارئین کبھی کبارموسم اچانک تبدیل ہوتا ہے اور اس دشوار گزار راستے پر سفر کرنے والے یاتریوں کےلئے باعث پریشانی بن جاتا ہے البتہ مقامی لوگ ہی ہیں جو اس وقت یاتریوں کی مدد کو پہنچتے ہیں اور یاتریوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں اپنے آپ کو وقف رکھتے ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ خراب موسمی صورتحال کے بیچ لینڈ سلائڈنگ اور سڑکوں پر رکاوٹیں پیدا ہونے کے نتیجے میں سفر کرنا مشکل بن جاتا ہے البتہ یاتریوں کےلئے مقامی لوگ اپنے گھر کے دروازے کھول کر انہیں جگہ فراہم کرتے ہیں اور ان کی مہمان نوازی میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں رکھتے ۔
قارئین جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ امرناتھ یاترا کا سفر کافی پیچیدہ سفر ہے خاص کر جب موسمی صورتحال ابتر ہو تو یہ کافی کھٹن سفر بن جاتا ہے لیکن کشمیری مسلمان ہر سال اس یاترا کے دوران یاتریوں کی مدد کرکے ان کےلئے اس سفر کو آسان بنانے میں سرکار اور فوج کی مدد میں پیش پیش رہتے ہیں ، سڑکوں کی مرمت ، خیمے لگانا ہوں یا بادل پھٹنے سے پیدا شدہ صورتحال میں یاتریوں کی جان بچانے کا معاملہ ہو اکثر مقامی لوگ ہی پیش پیش رہتے ہیں اور کسی بھی صورتحال کے بیچ سب سے پہلے جائے وقوع پر پہنچ کر یاتریوں کی مدد کرتے ہیں۔ قارئین ہر سال موسمی صورتحال ابتر ہونے کے بعدیاتریوں کو پریشانی ہوتی ہے اگر ہم سال 2022میں اس واقعے کی بات کریں جب باد پھٹنے سے امرناتھ یاترا کے قریب درجنوں یاتری سیلابی ریلے کی زد میں آگئے تو مقامی لوگ ہی تھے جنہوںنے سب سے پہلے اس جگہ پہنچ کر رضاکارانہ طور پر یاتریوں کی مدد کی اور ان کی جان بچالی ۔اس واقعے کے بعد یاتریوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کشمیری لوگوں نے ہی سب سے پہلے یہاں پہنچ کر ان کی مدد کی اور بعد میں انتظامیہ اور دیگر اداروں کی ٹیمیں پہنچی ۔ انہوںنے اس کےلئے مقامی لوگوں کا شکریہ ادابھی کیااور ان کی بہادری اور انسانی جذبے کی سراہنا کی ۔
قارئین وادی کشمیر میں مخدوش حالات کے دوران بھی مقامی لوگوں نے یاتریوں کو اکیلااور تنہا نہیں چھوڑا بلکہ ان کے ساتھ ہمیشہ کھڑا رہے ہیں اور مقامی لوگوں نے یاترا کے تقدس کو کبھی پامال نہیں ہونے دیا۔ دوسروں کے مذہبی جذبات کے تحفظ کا یہ غیر متزلزل عزم کشمیری عوام کے اخلاقی تانے بانے کا ثبوت ہے۔ جہاں یاترا بہت سے مقامی خاندانوں کو معاشی فائدے پہنچاتی ہے، وہیں یہ جذباتی بندھن بھی بناتی ہے جو تجارت سے بالاتر ہے۔ بہت سے یاتری سال بہ سال واپس آتے ہیں اور ایک ہی خاندان کے ساتھ رہتے ہیں، ایک ہی ڈھابوں پر کھانا کھاتے ہیں اور ایک ہی ہینڈلرز کی قیادت میں ٹٹو پر سوار ہوتے ہیں۔ یہ صرف خدمت کے تعلقات نہیں ہیں جو باہمی احترام کی بنیاد پر حقیقی دوستی میں تبدیل ہوتے ہیں۔اس طرح سے یاتریوں او رمقامی لوگوں کے بیچ ایک بندھن بندھ جاتا ہے جو ثقافتی تبادلوں اور ایثار کی کہانی بیان کرتا ہے ۔ یاتری اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اس پیچیدہ اور کھٹن سفر کو مقامی لوگوںنے آسان بنانے میں اہم رول ادکیا ہے اور یہ سفر صرف بھگوان شیو کے لنگم کے درشن کی یاد گار نہیں بنتا بلکہ کشمیری لوگوں کی ہمدردی اور ان کا تعاون بھی یاد گار رہتا ہے ۔
یاتری جب اپنے اپنے شہروں کو واپس جاتے ہیں تو وہاں پر کشمیری مہمان نوازی ، امن و سلامتی اور کشمیریوں کے جذبہ انسانیت کی تعریف کرنے سے پیچھے نہیں رہتے ۔ وہ یہ کہانیاں بیان کرتے ہیں کہ پیچیدہ اور کٹھن سفر میں کس طرح سے مقامی کشمیری لوگ ان کی مدد کرتے ہیں اور ان کے اس سفر کو آسان بناتے ہیں ۔ اس طرح کی کہانیاں اکثر میڈیا اداروں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں کیوںکہ اس یاترا کا جو اصل محرک ہے اس پر ان کی نظر نہیں جاتی وہ تو محض یاتریوں کی تعداد گننے کو ہی خبر مانتے ہیں لیکن اصل خبر جو اُجاگر کرنے کے لائق ہے اس پر ان کا دھیان نہیں جاتا ۔ میڈیا کشمیری مہمان نوازی ، ہندو مسلم ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی کہانیاں بیان نہیں کرتا ۔
قارئین امرناتھ یاترا صرف ایک مذہبی سفر نہیں ہے بلکہ یہ وادی کشمیر میں ہندو مسلم ہم آہنگی اور رواداری کے ساتھ ساتھ کشمیری مہمان نوازی،کشمیریت اور انسانیت کے جذبے کی علامت بھی ہے ۔