جموں کشمیر خاص کر وادی کشمیر عرصہ دراز سے سیاسی خلفشار ، کشیدہ حالات کا شکار رہی ہے جس کے نتیجے میں عام لوگوں کی زندگی مسلسل متاثر ہوتی آرہی ، حالات کی خرابی نے کشمیری سماج کے تانے بانے کو بکھیر کے رکھ دیا تاہم جہاں تک سول سوسائٹی کا تعلق ہے جموں کشمیر میں سوسل سوائٹی نے سماجی تانے بانے کو سمیٹ کے رکھنے میں اہم کردار اکیا ہے ۔ سول سوسایٹیز نے عام شہریوں اور سرکار کے درمیان ایک اہم رابطہ پُل کی طرح کام کیا ہے ۔ سول سوسائٹی میں رضاکار ، ماہرین تعلیم، پیشہ وہ افراد، صحافی ، تاجر اور سماج کے دیگر طبقہ جات کے ساتھ وابستہ شخصیات اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ سول سوسایٹی نے جموں کشمیر میں امن او رقانون کی صورتحال کو برقرار رکھنے ، ترقی اور اعتماد سازی کےلئے ہمیشہ سے کام کیا ہے اور ان کردار حوصلہ افزا رہا ہے ۔
قارئین وادی میں سالہا سال کی شورش اور تشدد نے نہ صرف معیشت بلکہ معاشرتی رشتوں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ ان حالات میں سول سوسائٹی نے ایک غیر جانب دار ثالث کے طور پر مکالمے اور مفاہمت کے در وا کیے۔ نوجوانوں اور خواتین کو مرکزی حیثیت دے کر امن سے ج±ڑے پروگرام ترتیب دیے گئے — جیسے کانفلکٹ ریزولوشن ورکشاپس، خواتین کے لیے لیڈرشپ ٹریننگ، اور نوجوانوں کے لیے کھیلوں و فنونِ لطیفہ پر مبنی سرگرمیاں۔ ان کا مقصد نہ صرف ذہنی سکون اور اظہارِ رائے کی آزادی دینا تھا بلکہ زخم خوردہ سماج میں اعتماد کی بحالی بھی تھا۔
متاثرینِ تشدد کے لیے قانونی معاونت، کونسلنگ، اور باز آبادکاری کے مواقع فراہم کرنا بھی انہی کوششوں کا حصہ ہے — تاکہ ٹوٹے دل اور بکھری زندگیاں دوبارہ جوڑی جا سکیں۔جموں و کشمیر کے کئی دیہی و دور دراز علاقوں میں بنیادی سہولیات کی کمی ایک حقیقت ہے۔ ان علاقوں میں سول سوسائٹی نے مسائل کو اجاگر کیا، عوامی شعور بیدار کیا اور مظلوم و نظر انداز طبقات کی آواز بن کر ریاستی و قومی سطح پر انصاف کا مطالبہ کیا۔ ان کی کاوشوں سے حکومت پر دباو¿ بڑھا کہ وہ زیادہ شفاف، جواب دہ اور عوام دوست نظام قائم کرے۔سیاسی بے یقینی اور حکومتی وسائل کی محدودیت کے سبب کئی علاقوں میں تعلیم کا نظام متاثر رہا۔ ایسے میں سول سوسائٹی نے کمیونٹی اسکولز کا قیام، بالغ خواندگی مہم، اور غریب طلبہ کے لیے وظائف جیسے اقدامات کیے۔ تعلیم کو محض روزگار کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ انتہاپسندی کے خلاف ڈھال اور معاشرتی استحکام کا ستون سمجھا گیا۔اسی طرح پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعے نوجوانوں کو صحت، آئی ٹی، زراعت، ہنڈی کرافٹ اور ہوٹل مینجمنٹ جیسے شعبوں میں ہنر سکھایا گیا تاکہ وہ روزگار کے اہل بن سکیں یا چھوٹے پیمانے پر اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔سول سوسائٹی نے خواتین کی بااختیاری کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ تربیتی مراکز، مالی خواندگی، اور چھوٹے کاروبار کی ترغیب نے خواتین کو نہ صرف خود کفیل بنایا بلکہ انہیں سماجی طور پر فعال کردار ادا کرنے کا موقع دیا۔ لڑکیوں کی تعلیم، معذور افراد اور معاشی طور پر کمزور طبقات کے لیے مساوی مواقع کی وکالت نے نظامِ تعلیم کو زیادہ جامع اور شمولیت پر مبنی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
قارئین دور افتادہ علاقوں میں غربت، ناکافی بنیادی ڈھانچے اور صنعتی عدم موجودگی نے معیشت کو محدود رکھا ہے۔ سول سوسائٹی نے یہاں متبادل معیشت کے ماڈل متعارف کرائے ، جیسے پائیدار زراعت، نامیاتی کھیتی، مائیکرو فنانس، اور خود کفیل خواتین گروپ۔ ان تمام منصوبوں نے مقامی معیشت کو خود انحصاری کی راہ پر گامزن کیا اور برادری کے اندر اجتماعی سوچ اور قیادت کو فروغ دیا۔سیاحت اور ہنڈی کرافٹس جیسے شعبوں میں سول سوسائٹی، حکومت اور نجی شعبے کے درمیان شراکت داری نے مقامی ہنرمندوں کو بہتر منڈی، برانڈنگ اور جدید بزنس ماڈلز سے روشناس کرایا۔ ایسے ماڈل یہ ثابت کرتے ہیں کہ ترقی صرف سرکاری پالیسی سے نہیں، بلکہ مشترکہ کوششوں سے حاصل ہوتی ہے۔
طبی سہولیات کی کمی والے علاقوں میں سول سوسائٹی نے موبائل ہیلتھ یونٹس، طبی کیمپ، حفظانِ صحت، زچگی کی دیکھ بھال اور بیماریوں سے بچاو¿ کی مہمات کے ذریعے فوری ضروریات پوری کیں۔ خاص طور پر ذہنی صحت کے شعبے میں، کونسلنگ، ہیلپ لائنز، اور ری ہیبیلیٹیشن پروگرامز نے جنگ زدہ ماحول میں مبتلا لوگوں کو سنبھلنے کا موقع دیا۔جموں و کشمیر جیسے حساس اور تناو¿ سے بھرے خطے میں، سول سوسائٹی ایک ایسے خواب کی تعبیر ہے جو صرف فلاح و بہبود نہیں، بلکہ سماجی ہم آہنگی، مقامی قیادت، اور حقیقی جمہوریت کی علامت بن چکی ہے۔
قارئین جہاں تک تعلیمی شعبے کی بات ہے تو وادی کشمیر میں کشیدگی کے دوران تعلیمی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور سیاسی عدم استحکام اور محدود ریاستی صلاحیت کی وجہ سے خطے کے کئی دیہی اور تنازعات سے متاثرہ حصوں میں معیاری تعلیم تک رسائی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ سول سوسائٹی کے گروپس نے کمیونٹی اسکول قائم کرکے، بالغوں کی خواندگی کے اقدامات شروع کیے، اور پسماندہ پس منظر کے طلباءکو وظائف کی پیشکش کی ہے۔ رسمی تعلیم کے علاوہ، پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر سازی کے اقدامات خاص طور پر نوجوانوں میں بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے ضروری ہو گئے ہیں۔ ہر شعبے میں ترقی کےلئے تعلیم بنیادی ضرورت ہے چاہے وہ صحت کا شعبہ ہو، انفارمیشن ٹیکنالوجی ہ و ، مہمان نوازی کا شعبہ ہو، زرعی شعبہ ہو یا دستکاری اور سیاحتی شعبہ ہو نوجوانوں کو روزگار کے قابل بنانے کےلئے تعلیم بنیادی ضرورت ہے اس بات کو یقینی بنانے کےلئے سول وسایٹی نے نوجوانوں کو تعلیم فراہم کرنے میں کلیدی رول اداکیا ہے ۔ اسی طرح اگر ہم خواتین کی بات کریں تو خواتین کو بااختیار بنانے میں بھی سول سوسایٹی نے کارنامہ ہائے انجام دیا ہے ۔ سول سوسایٹی کی تنظیموں نے ایسے تربیتی اقدامات نافذ کیے ہیں جن سے خواتین کو مالی آزادی اور زیادہ سماجی شرکت حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔خواتین بھی کشیدہ حالات کی وجہ سے ذہنی طور پر سخت متاثر رہیں البتہ سول سوسائٹی کے اقدامات نے انہیں اس ذہنی کوفت سے نجات دلائی اور آج کشمیری خواتین مختلف شعبوں میں نمایاں کردار اداکررہی ہیں۔