قارئین وادی کشمیر پوری دنیا میں اپنی خوبصورتی اور منفرد ثقافت کےلئے جانا جاتا ہے تاہم ایک طویل عرصے سے اس جنت نما خطے میں سیاسی خلفشار اور کشیدگی رہی جس میں سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوئی ہیں ۔ تاہم وادی کشمیر کی خواتین نے ہمیشہ سے ہی صبر و استحکامت اور حوصلہ قائم رکھا ۔ کشمیری معاشرے میں خواتین کا اہم کردار ہے خاص کر اگر ہم بات کریں صوفیانہ طرز زندگی کی تو صوفیانہ رواج میں خواتین نے گہرے اثرات ڈالے ہیں ۔ خواتین نے نہ صرف ان حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے معاشرے کو ایک بندھن میں باندھ لیا بلکہ مستقبل کو روشن بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا ۔ قارئین وادی کشمیر میں خواتین نے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ہے تعلیمی شعبہ ہو، سیاسی میدان، کھیل کا میدان ہو یا کاشتکاری کا شعبہ ہو یا کاروباری سرگرمیاں ہوں وادی کی خواتین نے فعال شرکت کرکے ہر ایک شعبے میں اپنا کردار نبھایا ہے ۔ چاہے وہ شہری علاقہ جات ہوں یا دیہی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والی خواتین ہے یکساں طور پر، لڑکیاں سماجی قدامت پر قابو پانے کے لیے، صرف اسکول جانے کے لیے اکثر لمبی دوری کا سفر کرتی ہیں۔ کشمیر یونیورسٹی اور اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسے تعلیمی ادارے ایسی جگہ بن چکے ہیں جہاں خواتین نئے مواقع تلاش کرتی ہیں اور روایتی کرداروں کو چیلنج کرتی ہیں۔ اسی طرح دیگر شعبہ جات میں بھی خواتین کا رول ہے اگر ہم بات کریں فورسز میں خواتین کے رول کی تو انڈین پولیس سروس میں داخل ہونے والی پہلی کشمیری خاتون ڈاکٹر رویدہ سلام کی کہانی اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ تعلیم کس طرح خواتین کو رکاوٹیں توڑنے میں مدد دے رہی ہے۔ اس کی کامیابی کی کہانی نے بہت سی نوجوان لڑکیوں کو کیریئر کا خواب دیکھنے کی ترغیب دی ہے جو کبھی ناممکن لگتا تھا۔اگر ہم کچھ دہائیوں قبل اس معاملے پر سوچتے کہ خواتین فورسز میں جائیں تو یہ ایک عجیب بات لگتی تھی لیکن آج کشمیری خواتین بھی فورسز میں شمولیت اختیار کررہی ہے اور پولیس، سی آر پی ایف اور فوج میں کشمیری خواتین کی براہ راست شمولیت اس بات کی عکاسی ہے کہ اب سوچ بدل چکی ہے ۔
اسی طرح دیگر شعبوں میں خاص کر ادب اور میڈیا کی دنیا نے کشمیری خواتین کو اپنی آواز کے اظہار کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی فراہم کیا ہے۔ نعیمہ احمد مہجور اور نائلہ علی خان جیسے مصنفین اور صحافیوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے خواتین کے مسائل اور سماجی خدشات کے بارے میں بیداری پیدا کرتے ہوئے خطے کی ان کہی کہانیاں اُجاگر کیں۔ ان خواتین نے دقیانوسی تصورات کو چیلنج کیا ہے اور جنس، شناخت اور سماجی توقعات کے بارے میں بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ ان کا کام دیگر خواتین کےلئے بھی راہیں ہموار کرتا ہے انہوںنے نہ صرف کشمیری خواتین کی رہنمائی کی ہے بلکہ کشمیری خواتین کے حقوق اور ان کے ساتھ ہورہی سماجی ناانصافی کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے ۔
اسی طرح انٹرپرنیورشپ کے ذریعے کشمیری خواتین بااختیار بن رہی ہیں اور آج بہت سی ایسی انٹرپرنیور خواتین وادی میں نہ صرف اپنے لئے بلکہ دیگر خواتین کےلئے بھی روزگار کا ذریعہ بن رہی ہے ۔ ان ہی خواتین میں ایک نام تنزیلہ خان کا بھی ہے جو روایتی کشمیری کشیدہ کاری کو جدید فیشن کے طرز پر تیار کررہی ہے اس طرح سے تنزیلہ نہ صرف روزگار کمارہی ہے بلکہ کشمیری دستکاریوں کو تحفظ بھی فراہم کررہی ہے ۔
کشمیر ویمنز کلیکٹو اور مختلف سیلف ہیلپ گروپس جیسے اقدامات خواتین کی زیر قیادت کاروباروں کی حمایت کرتے ہیں، دستکاری سے لے کر نامیاتی کاشتکاری تک، مالی آزادی اور سماجی بااختیاریت فراہم کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں، مائیکرو فنانس اور کمیونٹی سپورٹ نے خواتین کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ فراہم کنندگان اور فیصلہ سازوں کے کردار میں قدم رکھ سکیں، روایتی خاندانی ڈھانچے کو تبدیل کر سکیں۔قارئین اسی طرح صحت، ماحولیات اور سماجی کاموں میں کشمیری خواتین پیش پیش ہیں۔ مہندی بھٹ جیسے ڈاکٹر دور دراز کے علاقوں میں زنانہ امراض کے بارے میں خواتین کو جانکاری فراہم کرتی ہے ۔ ثقافت کے تحفظ میں خواتین کا بھی کلیدی کردار ہے۔ زرینہ بیگم جیسے فنکار لوک موسیقی کو زندہ رکھتے ہیں، جب کہ نوجوان خواتین کشمیری دستکاری، زبان اور روایتی فنون کو فروغ دینے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال کرتی ہیں، جو اپنے ورثے کو محفوظ رکھنے اور آنے والی نسلوں کے ساتھ شیئر کرنے میں مدد کرتی ہیں۔آج کے ڈیجیٹل دور میں کشمیری خواتین ڈیجیٹل سہولیات کا سہارا لیکر موسیقی اور دیگر ثقافتی پروگراموں میں حصہ لے رہی ہے اور اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جدید دور میں اپنے آپ کی موجودگی ظاہر کررہی ہے ۔ خواتین سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں کا بخوبی استعمال کررہی ہیں چاہئے وہ فیس بک ہو، انسٹرا گرام ، ایک ، یوٹیوب ہو تمام پلیٹ فارموں پر وہ اپنی آواز پہنچاتی ہے ۔ اسی طرح دیگر شعبہ جات جن میں قانون اور سیاست بھی ہے آج خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے ۔ ارم مسعودی اور شازیہ خان جیسے وکلاءگھریلو تشدد اور خواتین کے حقوق سے متعلق مقدمات کو ہینڈل کرتے ہوئے ضرورت مندوں کو قانونی مدد فراہم کرتے ہیں۔ نچلی سطح پر، پنچایتی راج اداروں میں خواتین مقامی ترقی کے لیے کام کرتی ہیں ۔ سیاست کی بات کریں تو آج کشمیر میں سیاسی پلیٹ فارموں میں خواتین اپنا رول اداکررہی ہیں کشمیر میں بہت سی ایسی خواتین موجود ہیں جو سیاسی طور پر دیگر خواتین کی رہنمائی کررہی ہیں۔
قارئین جہاں ہم نے کشمیری خواتین کی سماجی ترقی کی بات کی تو وہیں آج بھی کشمیری خواتین کو کئی طرح کے چلینج درپیش ہیں جن میں سماجی، گھریلو مسائل ان کی ترقی میں رُکاوٹ بن رہے ہیں کشمیر میں طویل عرصے سے کشیدہ حالات کے سبب کشمیری خواتین ذہنی طور پر بھی کافی متاثر رہی ہیں اور آج بھی یہ معاملہ انہیں درپیش ہے ۔ تاہم ان رُکاوٹوں کے باوجود بھی کشمیری خواتین ہر شعبے میں اپنا کردار اداکررہی ہیں چاہئے وہ تعلیمی شعبہ ہو، مصنف ، طبی شعبہ ہو ، کاروباری اور دستکاری کا شعبہ ہو ، کاشتکاری اور سیاسی میدانوں کی بات ہو یا کھیل کود کی بات ہو کشمیری خواتین محدود ہی صحیح لیکن اپنی موجودی ظاہر کررہی ہے اور ماضی کے بنسبت آج کی خواتین کافی آگے ہے ۔