ہمالیائی پہاڑیوں کے دامن میں واقع وادی کشمیر تعینات فوج اور عوام کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہے جس میں باہمی اعتماد اور ہمدردی اور ایثار ظاہر ہوتا ہے ۔ عوام اور جوان کے درمیان جو آج رشتہ قائم ہے یہ صرف ایک فرض منصبی پر عمل آوری نہیں ہے بلکہ یہ باہمی اعتماد ، جدوجہد طویل کوششیں کا ثمر ہے ۔ قارئین وادی کشمیر جو کہ ایک خوبصورت ترین خطہ ہے جس کو عرف عام میں زمین پر جنت کہا جاتا ہے اپنی خوبصورتی کے پیچھے ایک درد اور طویل کشیدہ صورتحال چھپی ہوئی ہے ۔ یہ صورتحال ایسے نونہالوں کے چہروں سے مسکراہٹ چھیننے کےلئے ذمہ دار ہے ۔تاہم وادی میں تعینات بھارتی فوج نے ایک الگ داستان رقم کی ہے جس نے امن و سلامتی کے ساتھ ساتھ ترقی کےلئے اپنی کوششیں جاری رکھی اور کشمیری معصوم چہروں پر ایک نئی خوشی بکھیرنے کےلئے اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ قارئین جیسے کہ یہ عام فہم بات ہے کہ ایک بندوق لئے فوجی وردی میں ملبوث اہلکار ایک محافظ کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتا ہے تاہم وادی کشمیر میں ایک فوجی وردی میں ملبوث اہلکار محض ایک محافظ ہی نہیں بلکہ یہ ایک دوست ، ایک اُستاد ایک ہمدردی بھی ہے جو کسی بھی حالات میں عوام دوستی کو مقدم رکھنے کو ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔
قارئین وادی کشمیر کے دور دراز علاقوں میں تعینات یہ فوجی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں البتہ ہم یہاں پر سرحدی ضلع کپوارہ کے ایک دور افتادہ گاﺅں میں تعینات ایک سپاہی ارون کی کہانی بیان کریں گے ۔ ارون اپنے روزمرہ کے فرائض انجام دہی کے لئے روزانہ گشت پر نکلتے تھے جس دوران اسے ایک نوجوان فیضان دکھتا ہے جو لنگڑا کر سکول آتا جاتا ہے ۔ سپاہی نے فیضان سے بات کی اور لنگڑا کر چلنے کی وجہ دریافت کی اور معلوم ہوا کہ فیضان اپنے روزانہ کئی کلو میٹر پیدل سفر کرتا ہے تاہم پھٹے پُرانے جوتوں کے ساتھ یہ سفر کرنا اس کےلئے مشکل ہوتا ہے اسلئے وہ پھٹے جوتوں کا گھیسٹتا ہوا لے جاتا ہے ۔سپاہی ارون نے اپنے یونٹ کمانڈر سے بات کی اور فوجی یونٹ نے فیضان کےلئے نئے جوتے ، سکول بیگ، اور دیگر سامان دستیاب کرایا ۔ یہ ہمدردی فیضان کی تعلیم کےلئے نہ صرف ایک سنگ میل ثابت ہوا بلکہ اس سے ہمدردی اور عوام دوستی اور انسانیت کے جذبے کو بھی اُبھرا۔
قارئین کو بتادیں کہ وادی کشمیر میں تعینات فوج نہ صرف اپنے فرض منصبی انجام دیتے ہوئے امن و سلامتی کےلئے کام کرتے ہیں بلکہ فوج عوامی مسائل کے حل اور فلاح و بہبود کےلئے کام کرنے کو اپنے فرائض میں شامل کرتے ہیں ۔ فوج کی جانب سے فلاحی کاموں کےلئے آپریشن سدبھاونا کے تحت تعلیمی سرگرمیاں ، طبی نگہداشت کی خدمات اور بے روزگار نوجوانوں کےلئے روزگار کے وسائل پیدا کئے جاتے ہیں ۔ آپریشن سدبھاونا پروگرام کے تحت ہزاروں کشمیری طلبا کو وظائف فراہم کیے گئے ہیں، اسکولوں کی تزئین و آرائش کی گئی ہے اور طبی کیمپ انتہائی ناقابل رسائی بستیوں تک پہنچائے گئے ہیں۔سدبھاﺅنا کے تحت مختلف دیہی علاقوں میں طبی کیمپوں کا انعقاد کیاجاتا ہے جبکہ نوجوانوں کےلئے ہنر مندی اور تعلیمی کیمپ بھی منعقد کئے جاتے ہیں اور نوجوان ان کیمپوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔ ان ہی نوجوانوں میں بارہمولہ سے تعلق رکھنے والی لڑکی شازیہ بھی ہے ۔ اس نے ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا تھا لیکن اس کے پاس اپنی تعلیم حاصل کرنے کے بہت کم ذرائع تھے۔ فوج کے تعلیمی پروگراموں کے تعاون سے اس نے نہ صرف اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کی بلکہ میڈیکل کالج میں داخلہ بھی حاصل کیا۔ آج وہ اسی گاو¿ں میں مریضوں کا علاج کرتی ہے جہاں کبھی اس نے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے جدوجہد کی تھی۔
قارئین فوج نہ صرف فلاحی اور تعمیر و ترقی کے کام انجام دیتی ہے بلکہ آفات سماوی کے دوران بھی لوگوں کے مال و جان بچانے اور راحتی کام انجام دیتے ہیں ۔ اگر ہم سال 2014کے تباہ کن سیلاب کی بات کریں تو سیلاب کے دوران فوج نے پھنسے ہوئے لوگوں کی نہ صرف جان بچائی بلکہ انہیں راحتی سامان بھی فراہم کیا ۔ اس تباہ کن سیلاب کے دوران فوج کی راحت رسانی اور امدادی کام دیگر اداروں سے نمایاں ہے ۔ سیلاب کے دوران، فوجیوں نے پھنسے ہوئے خاندانوں کو بچانے کے لیے انسانی زنجیریں بنائیں، بزرگوں کو محفوظ مقام پر پہنچایا، اور خوراک کا سامان تقسیم کیا۔ اتناہی نہیں بلکہ وقت وقت پر جب شدید موسمی صورتحال ہوتی ہے خاص کر سرماءکے دوران جب دور دراز علاقوں میں مریضوں کو ہسپتال پہنچایا جانا مطلوب ہوتا ہے فوج اپنی گاڑیوں کے ذریعے ان مریضوں کو ہسپتال پہنچاتی ہے ۔
قارئین نوجوانوں کو فوج کے قریب لانے کےلئے فوج نے نوجوانوں کےلئے کھیل کود سرگرمیوں کےلئے مواقعے بھی دستیاب رکھے ہیں اور نوجوانوں اور بھارت کے مرکزی دھارے کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کے لیے، فوج نے کھیلوں اور ثقافتی تبادلوں کو فعال طور پر فروغ دیا ہے۔ فٹ بال ٹورنامنٹس، سائیکلنگ مہمات اور ٹیلنٹ ہنٹس نے نہ صرف کشمیری نوجوانوں کو پلیٹ فارم مہیا کیا ہے بلکہ قومی فخر کے احساس کو بھی فروغ دیا ہے۔ان ہی نوجوانوں میں ایک جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے جنید کی مثال بھی ہے جو فٹبال کا کھلاڑی ہے ۔ جنید کو فوج نے آل انڈیا فٹ بال ٹریننگ کیمپ کےلئے منتخب کیا تھا اور اس طرح سے ایک گاﺅں کے کھلاڑی کو قومی سطح تک رسائی حاصل ہوئی ۔ وادی کشمیر میں سیاسی خلفشاری اور سیاسی کشیدگی کے باوجود فوج عوامی مسائل اور عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کےلئے فوج لگاتار اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔ وادی کشمیر میں ایک ایک نئی صبح کے ساتھ ہی بھارتی فوج کی نئی کہانی بھی شروع ہوتی ہے جو عوام اور جوان کو قریب لاکر ایک نیا رشتہ قائم کرتا ہے ۔