واد ی کشمیر میں سیاحت کے شعبے میں ترقی سے یہاں کا ذرہ ذرہ خوشی محسوس کررہاہے۔ قارئین اگر ہم جھیل ڈل میں پُرسکون پانی کی بات کریںتو جھیل ڈل میں صبح کے اوقات جو سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی شکارے اور کشتیاں حرکت کرتی نظر آتی ہیں توایک انوکھا منظر پیش کرتی ہیں۔ خاموش اور پُرسکون جھیل میں زندگی شروع ہوجاتی ہے ۔ لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار ہوکر اپنے روزمرہ کے کام کاج کی طرف چل پڑتے ہیںسکولی بچوں کشتیوں میں سوار ہوکر بلوارڈ روڑ تک پہنچے تھے ۔ سبزی والے کشتیوں میں سبزی لیکر منڈیوں تک لے جاتے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سیاحتی سرگرمیاں بھی شروع ہوجاتی ہے سیاح شکاروں میں سیر کےلئے نکلتے ہیںاور جھیل کے نظارے سے لطف انداز ہوتے ہیں۔
قارئین وادی کشمیر میں سیاحت معاشی استحکام کےلئے ایک اہم وسیلہ ہے اور اس سے لاکھوں لوگ براہ راست جڑے ہوئے ہیں ۔ مقامی سطح پر سیاحت روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہے یہ مہمان نوازی کی عکاس ہے اور ہوٹلوں، گیسٹ ہاوسوں، ہاوس بوٹس، شکارے والے ، ٹرانسپورٹر اور دیگر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کےلئے روزی روٹی کا ایک سائیکل تیار کرتا ہے۔ سیاحت کی وجہ سے یہاں پر کاروبار کو فروغ ملتا ہے اور دستکاری کے شعبے سے وابستہ افراد بھی مستفید ہوتے ہیں۔ ہوائی پروازوں کے ذریعے جب سیاح وادی پہنچے ہیں تو ہر شعبہ ترقی پاتاہے ۔ ہوٹل ، دکانوں ، ہاوس بوٹوں میں چہل پہل بڑھ جاتی ہے۔سڑکوںپر ٹریفک کی آواجاہی میں اضافہ ہوتا ہے ۔شوروموں ، کارخانوں میں کام بڑھ جاتاہے ۔ نہ صرفعام سیاحتی مقامات بلکہ دور درازکے علاقوں تک یہ حرکات محسوس ہوتی ہے کیوں کہ اب سیاح صر ف روایتی سیاحتی مقامات کی سیر نہیں کرتے بلکہ نئی نئی جگہوںکو دیکھنے کےلئے دور دراز کے علاقوں تک سفر کرتے ہیں۔
قارئین سیاحت کو بڑھاوادینے میں سالانہ امرناتھ یاترا کا اہم رول رہتا ہے ۔ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح امرناتھ یاترا میں شامل ہوت ہیں۔ یاترا شروع ہونے کے ساتھ ہی با ل تل اور پہلگام میں بیس کیمپوں میں یاتریوں بھیڑ رہتی ہے اور یہ عارضی بستیوں کارُخ اختیار کرتی ہے ۔ ان بیس کیمپوں میں پورٹر، ٹینٹ والے ، مقامی کھانا فروخت کرنے والے، ٹرانسپورٹر ، مزدور اور دیگر افراد یاترا سے جڑ کر روزی روٹی کمالیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یاتریوں کےلئے لنگر کا سامان خاص کر سبزیاں اور دودھ مقامی دیہات سے حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح دیگر افراد بھی بیس کیمپوں میں مختلف اشیاءکا کاروبارکرتے ہیں اور یاترا کے سیزن میں اچھی خاصی کمائی کرتے ہیں ۔
قارئین سیاحتی سیزن کے دوران سرینگر سے سیاحوں کوگلمرگ تک گاڑیوں کے ذریعے پہنچایاجاتا ہے جہاںپر گھوڑوں پر سوار ہوکر قدرتی حسین نظاروں کالطف اُٹھاتے ہیں جبکہ گھوڑے بان ، ٹٹو مالکان ہوں یا راستے میں چھاپڑیوں پر مٹن کے کباب،چائے فروخت کرنے والوں ہوں یہ اسی پر اپنی روزی روٹی منحصر رکھتے ہیں۔
قارئین وادی کشمیرمیں سیاحتی شعبے میں اُتار چڑھاﺅ دیکھنے کو بھی ملتا ہے اور جب سیاحوں کی تعداد گھٹ جاتی ہے تو اس سے جڑے افراد بھی مایوس ہوجاتے ہیں۔ خاص کر چھوٹے کاروباری، گھوڑے مالکان، مزدور ، راستوں پر کباب، چائے ، سگریٹ اور دیگر اشیاءفروخت کرنے والے ، ہلکے جیکٹ رین کورٹ اور خصوصی جوتے فروخت کرنے والوں کی روزی روٹی تو اسی سیاحت سے جڑی ہوئی ہوتی ہیںاور سیاحت میں کمی ان کے کاروبار پر بھی منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ اس طرح چھوٹی سطح پر اپنا کام کاج چلانے والے سیاحت میں کمی سے متاثر ہوتے ہیں اور جب سیاحت پروان چڑھتی ہے تو ان کا کام کاج بھی بہتر رہتا ہے کیوں کہ یہ لوگ یومیہ آمدنی حاصل کرنے والے طبقے سے جڑے ہیں۔
قارئین وادی کشمیر میں سیاحت صرف ایک معاشی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ ثقافتی تبدیلی کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے ۔ دستکار اپنے ہاتھوں سے بنی اشیاءسیاحو کو پیش کرتے ہیں اور اس طرح سے وہ کشمیری ثقافت کا تبادلہ کررہتے ہیں ۔ پیپر ماشی ہو، شال بافی ہو، اخروٹ کی لکڑی پر نقش نگاری کا ہنر ہو یا موسیقی ہو یا پکوان ہوں ۔ سیاح یہاں کی ہر چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں اور کشمیری دستکاری، ہنر مندی ، ثقافت، کلچر اور تہذیب کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ قارئین کو بتادیں کہ سرینگر میںکئی تواریخی جگہیں موجود ہیں جن میں خانقاہیں، پُرانے طرز کی عمارات ، مغل باغات اور لکڑی سے بنے پُل سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ یہ تعاملات تفریح سے زیادہ کام کرتے ہیں، یہ کشمیر کی زندہ روایات کی قدر کو تقویت دیتے ہیں، جس سے مقامی لوگوں کو اپنی ثقافت کو میوزیم کے ٹکڑے کے طور پر نہیں، بلکہ ایک متحرک اور قابل احترام چیز کے طور پر دیکھنے کی اجازت ملتی ہے۔سیاح اپنے ساتھ نہ صرف وہ چیزیں لے جاتے ہیں جو وہ یہاں پر مقامی دکانداروں اور شوروموں سے خریدتے ہیں بلکہ یہاں کے تواریخی مقامات کی یادیں بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔
قارئین وادی کشمیر کے ا س بدلتے منظر نامے میں خواتین کا رول بھی نہایت ہی اہم ہے ۔ کشمیری خواتین ہوم سٹے ، رستورنوں، گیسٹ ہاوسوں میں کھانا تیار کرتی ہیں ۔دستکاریوں کی تیاری میںخواتین کا رول رہتا ہے ۔ خواتین سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں کا استعمال کرتے ہوئے کشمیری دستکاریوںکو فروغ دے رہی ہیں ۔ اس طرح سے کشمیری خواتین اپنے کنبہ میں معاشی لحاظ سے اپنا حصہ ڈالتی ہے ۔ بچوں کی تعلیم پر خرچہ کرتی ہے ۔ سماجی طور پر کشمیری خواتین کافی آگے بڑھ رہی ہیں اور فیصلہ سازی میں بھی آج ان کا کردار نمایاں ہوتا ہے ۔ خواتین آج مختلف اداروں میں رہنمائی کرتی نظر آرہی ہیں۔ کاروبار ہو، آئی ٹی شعبہ ہو، تعلیم ہو ،طب ہو یا دستکاری کا شعبہ ہو یا پھر سیاحتی کا شعبہ ہو خواتین اپنی موجودگی ظاہرکرتی ہے خاص طورپر آج سیاحتی شعبے میں خواتین کا رول اہم ہے ۔ خواتین اب ہوٹلوں میں منیجنگ، شف ، اکاونٹٹ اور دیگر خدمات انجام دیتی ہیں۔
اسی طرح اگر ہم دور دراز کے علاقوں میں سیاحتی شعبے اور نوجوانوں کے کردار کی بات کریں تو دیہی علاقوں میںنوجوان فوٹو گرافری ،گائیڈ اور دیگر کام انجام دیتے ہیں۔ دیہی علاقوں میںنوجوان رستواران چلاتے ہیں ۔ سیاحوں کےلئے مختلف اشیاءدستیاب رکھتے ہیں اس طرح سے یہ روزگار کمالیتے ہیں ۔ اس طرح سیاحت وادی کشمیر میںنہ صرف معاشی استحکام کےلئے اہم جز ہے بلکہ یہ کاروبار، ترقی ، ثقافتی تبادلے اور سماجی آزادی کےلئے بھی اہم ہے ۔ ملکی اور غیر ملکی سیاح جو جہاں سے بھی آیا ہوچاہئے وہ امرناتھ یاتری ہو یا براہ راست سیاحت کےلئے آیا ہو اپنے ساتھ نہ صرف کشمیری تحائف لے جاتا ہے بلکہ کشمیر کی حسین یادیںبھی لے جاتا ہے خاص کر کشمیریوں کی مہمان نوازی سے متاثر ہوکر کشمیر کےلئے ایک پیامبر بن کر واپس جاتا ہے ۔اس طرح سے وادی کشمیر میں پہلی کرن کے ساتھ ہی زندگی کی رفتار چل پڑتی ہے اور سیاحت میں بھی ہلچل شروع ہوجاتی ہے اور شام کو جب جھیل ڈل کی میں سورج کی آخری کرن دریاءمیں ڈوبنے کا منظر پیش کرتی ہیں دریاکی ہلچل بھی خاموش ہوجاتی ہے ۔