• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Sunday, September 14, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home Editorial & Opinion

پاکستان میں جمہوریت محض کاغذ پر، زمینی سطح پر آمریت 

Agencies by Agencies
August 11, 2025
in Editorial & Opinion
A A
Atrocities of Pakistan and the Role of Mukti Bahini in the 1971 Liberation War
FacebookTwitterWhatsapp

 

 

قارئین پاکستان کی سیاست کا منظرنامہ ہمیشہ سے ایک پیچیدہ اسٹیج رہا ہے، جہاں طاقت کا جو تاثر نظر آتا ہے، وہ اکثر حقیقت نہیں بلکہ ایک باریک ب±نی ہوئی تصویر ہوتی ہے۔ایسی تصویر جس کے گرد دھوئیں کا پردہ ہے، جسے طاقت کے اسکرین پر محفوظ کیا گیا ہے، اور جسے کبھی کبھار طنز کے تیر چیر دیتے ہیں۔ کہنے کو تو پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن جب زمینی حقائق دیکھتے ہیں تو وہاں پر جمہوریت کم اور آمریت زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ کاغذ پر پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے، جہاںمنتخب نمائندے، پارلیمانی بالادستی، اور آئینی ڈھانچہ، عدلیہ ، قانون اور انصاف پسندی ہے ، لیکن عملی طور پر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ فوج نے ہمیشہ قومی معاملات میں فیصلہ کن اور اکثر غالب کردار ادا کیا ہے۔لوگ جمہوری طرز پر حکومت قائم تو کرتے ہیں اور سیاسی لیڈران ایک جمہوری ملک کے سربراہ تو منتخب ہوتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں وہ خود سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کے مجازنہیں ہوتے ۔ ایسے حکمران تو کٹھ پتلی کی طرح کام کرتے ہیں ۔ قارئین کو بتادیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خان تک کئی رہنما عوامی مقبولیت کی لہر پر ابھرے، مگر جیسے ہی کسی نادیدہ سرخ لکیر کو عبور کیا، وہ کنارے لگا دیے گئے۔لوگوں کی آواز کو طاقت کے بل پر دبایا جاتا ہے ۔ لوگوں نے جن رہنماﺅں کو چن کر اقتدار تک پہنچایا ہے ان کے قلم میں وہ طاقت نہیں ہوتی کہ کسی معالے پر از خود فیصلہ لکھ سکیں۔ یہاں طاقت ایک مظاہرے کا نام ہے،چہرہ سویلین کا، مگر فیصلے جرنیل کے۔ دفاعی پالیسی، خارجہ تعلقات،خصوصاً بھارت، افغانستان اور امریکا کے ساتھ،اور ایٹمی حکمتِ عملی جیسے معاملات اکثر پارلیمنٹ کی دسترس سے باہر رہتے ہیں۔فوجی حکمران عملی طور پر ملک کی اندرونی اور بیرونی پالیسی چلاتے ہیں اور حکمران محض فو ج کے حکم کو بجا لانے کےلئے منہ کھولتے ہیں۔ کبھی ریاست کا چوتھا ستون کہلانے والا پاکستانی میڈیا اب اکثر دھند پیدا کرنے والے آلے میں بدل چکا ہے۔ اس کا کام خبر دینا نہیں بلکہ الجھانا ہوتا جا رہا ہے۔کوئی بھی صحافی یا میڈیا پلیٹ فارم حکومت اور فوج کے خلاف ایک لفظ میں نہیں کہہ پاتا ۔ اگر کوئی انگلی اُٹھائے تو اس کو قومی مفاد کے نام پر کئی طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ آزاد صحافت موجود ہے، مگر اسے دباو¿، سنسرشپ اور خود ساختہ احتیاط نے جکڑ رکھا ہے۔ مقبول اینکر حضرات ایک دن ایک بیانیہ بیچتے ہیں، اگلے دن دوسرا، اور اخبارات اکثر ان لکیر کھینچنے والے ہاتھوں کا حکم مانتے ہیں جو پردے کے پیچھے ہیں۔اس پر ستم ظریفی یہ کہ اخباروں میں کیا شائع کرنا ہے اور ٹیلی وژن پر ”برننگ ایشو“ کو چھوڑ کر محض سرکاری بیانات، سرکاری دوروں کا تذکرہ ترجیحات میں رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے جو ایسا نہ کرے اور صحافتی لحاذ کو برقرار رکھنے پر بضد رہے تو اس کو کئی طرح سے تنگ و طلب کیاجاتا ہے ۔ یہ فریب اس طرح قائم رکھا جاتا ہے کہ ایک حد تک اختلاف کی اجازت دی جاتی ہے،بس اتنا کہ منظر میں دھواں موجود رہے اور پس پردہ چلتی ڈوریں چھپ جائیں۔ مخالف آوازوں کو صرف پابندیوں سے نہیں بلکہ ڈیجیٹل ہراسانی، کردار کشی اور معاشی دباو¿ کے ذریعے بھی خاموش کیا جاتا ہے۔

قارئین جس طرح میڈیا جمہوریت کا اہم اہم ستون مانا جاتا ہے اسی طرح عدلیہ بھی جمہوریت میں ایک مضبوط ستون ہوتا ہے تاہم پاکستان میں عدلیہ بھی فوجی آمریت کی شکار ہے ۔ پاکستان کی عدالتیں کبھی طاقت کے سامنے ڈٹ گئیں، تو کبھی مارشل لا کو آئینی جواز دینے والے فیصلے سناتی رہیں۔ ’نظریہ ضرورت‘ اس کی سب سے واضح مثال ہے۔ حالیہ برسوں میں عدالتی فعالیت نے احتساب کا تاثر دیا،اہم شخصیات کی سزائیں اور نااہلیاں سرخیوں میں رہیں۔ لیکن ان فیصلوں کا ہدف اکثر سیاسی ہوا کے رخ کے مطابق بدلتا رہا۔ جب انصاف انتخابی ہو جائے تو عدالت بھی ایک پردہ بن جاتی ہے، جس کے پیچھے اصل کھیل کھیلا جاتا ہے۔

قارئین پاکستانی اپنے تضادات سے ناآشنا نہیں۔ ریڑھی والے مہنگائی کا مذاق اڑاتے ہیں، طلبہ میمز کے ذریعے جبر کو ہضم کرتے ہیں، اور ٹاک شوز میں طنز اس قدر رواں ہے کہ جیسے یہ ایک اجتماعی دفاعی ڈھال ہو۔ سوشل میڈیا نے اس طنز کو جمہوری بنا دیا۔یہ منافقت کو بے نقاب کرتا ہے، مضحکہ خیز حقائق سامنے لاتا ہے، اور کبھی کبھار احتساب پر مجبور بھی کرتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر ہنسی خوشی کی نہیں بلکہ شکست کی علامت ہوتی ہے،ہنسی اس لیے کہ رویا نہیں جا سکتا۔

پاکستان کی معیشت اب بڑی حد تک بیرونی قرض دہندگان کے رحم و کرم پر ہے۔ ہر آئی ایم ایف بیل آو¿ٹ، ہر سعودی ڈپازٹ، اور ہر چینی قرض اپنے ساتھ شرائط لے کر آتا ہے جو مقامی خودمختاری کو نگل جاتے ہیں۔ رہنما اصلاحات کے دعوے کرتے ہیں، مگر بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے معاہدے آنے والی نسلوں پر بوجھ ڈال دیتے ہیں۔ یہاں فریب ’خودمختاری‘ کا ہے،عوام کو بتایا جاتا ہے کہ فیصلے اسلام آباد میں ہوتے ہیں، جبکہ اصل ہدایت واشنگٹن، ریاض یا بیجنگ سے آتی ہے۔حالیہ مہینوں میں پاکستانی قیادت کی جانب سے ایسے فیصلے منظر عام پر آئے جو نہ صرف ملکی مفادات کے خلاف ہے بلکہ عوام کےلئے بھی باعث پریشانی بننے والے ہیں لیکن فوجی قیادت اس پر راضی تو سب ٹھیک!

طاقت کے کھیل میں مذہب کو کبھی ہتھیار، کبھی ڈھال بنایا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتیں انتخابی لحاظ سے کمزور ہیں، مگر سڑکوں پر اثر رکھتی ہیں۔ ریاست مذہب کا سہارا لے کر اپنی قانونی و اخلاقی حیثیت مضبوط کرتی ہے، مگر کئی بار اسی کے دباو¿ میں آ جاتی ہے۔ توہینِ مذہب کے قوانین کو صرف ایمان کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ اختلاف دبانے، اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے اور ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں فریب ’اخلاقی اتھارٹی‘ کا ہے،جسے ضرورت کے وقت چلایا جاتا ہے۔پاکستان میں طاقت کا ڈھانچہ ایک بدلتی ہوئی پزل کی طرح ہے،فوج، عدلیہ، بیوروکریسی، میڈیا، مذہبی رہنما، اور بیرونی طاقتیں سب اپنے اپنے ٹکڑے رکھتے ہیں۔ عوامی حکومتیں، جو سب سے نمایاں نظر آتی ہیں، اکثر سب سے زیادہ بے بس ہوتی ہیں۔ اصل طاقت ووٹ کے بکس میں نہیں بلکہ ان منصوبوں میں چھپی ہوتی ہے جو کبھی ’پلان بی‘، ’پلان سی‘ اور ’پلان ڈی‘ کہلاتے ہیں۔ یہ ڈھانچہ غیر یقینی پر زندہ رہتا ہے اور قابو میں رکھی گئی افراتفری سے پھلتا پھولتا ہے۔پاکستان ایک بار پھر فیصلے کے مقام پر ہے۔ طاقت کا یہ فریب ہمیشہ کے لیے نہیں چل سکتا۔ عوام اب شفافیت، جوابدہی اور حقیقی نمائندگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آج جو طنز اجتماعی زخموں کا مرہم ہے، کل کو شاید سنجیدہ مزاحمت میں بدل جائے۔ 

 

Previous Post

نئے کشمیر میں نئی سوچ کی ضرورت 

Next Post

Two JK Police Sub-Inspectors Die, One Hurt in Nowgam Accident

Next Post
Two JK Police Sub-Inspectors Die, One Hurt in Nowgam Accident

Two JK Police Sub-Inspectors Die, One Hurt in Nowgam Accident

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.