موجودہ دنیا میں، اسلام اکثر تنازع کا مرکز بن جاتا ہے، لیکن اس کی وجہ خود اسلام کی بنیادي تعليمات نہیں ہوتیں، بلکہ بعض افراد اور ادارے دانستہ یا نادالعلم طور پر دیلی متون، خاص طور پر احادیث کا غلط استعمال کرتے ہیں تاکہ تشدد، عدم رواداری اور جیر کو فروغ دیا جا سکے۔ ان مشون کے اس غلط استعمال کے سنگین نتائج سامنے آئے ہیں، جن میں اللہا پسندی میں اضافرہ مذہبی تعلیمات کی غلط ترجمانی اور خود اسلامی دنیا کے اندرونی انتشار شامل ہیں۔
احادیث، یعنی حضرت محمد کے ارشادات اور افعال قرآن مجید کے بعد اسلامی قانون اور رہنمائی کا دوسرا سب سے اہم ذریعہ ہیں یہ روايات لم صرف قرآنی آیات کے پس منظر کو واضح کرتی بھی بلکہ رسول اکرم ﷺ کے اخلاق عالیم قیادت، اور مختلف مذاہب و طبقات کے لوگوں سے حسن سلوک کا بھی گہرا نقش پیش کرتی ہیں، تاہم، قرآن مجید کے برعکس جسے خدائی تحفظ حاصل ہے، حدین کا ذخیرہ رسول اکرم کے وصال کے کئی صدیوں بعد مختلف اسلامی علماء نے جمع کیا، ان کی جانچ، تصدیق اور درجہ بندی کا ایک مفصل علمی عمل طے پایا۔
امام بخاری، امام مسلم اور دیگر عظیم علماء نے احادیث کی تصدیق کے لیے نہایت سخت اور اصولی طریقے وضع کیے، جن میں پر راوی کے کردار اور حافظے کی جانچ کے ساتھ ساتھ متن کی صحت اور مطابقت کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا، با وجود ان مقیم کاوشوں کے، کچھ غیر مستند با ضعیف احادیث آج بھی گردش میں ہیں، جنہیں شدت پسته عناصر اور اسلام مخالف حلقے اسلام کو تشدد، عورتوں پر ظلم اور آمرانہ رویوں سے جوڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
شدت پسند گروه باریا احادیث کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں یا ضعیف روایات پر انحصار کرتے ہوئے اپنی پرتشدد نظریات کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں، مثال کے طور پر، بعض ایسی احادیث جن میں جنگوں کا ذکر ہے یا جن میں رسول اکرم کے دشمنوں سے برسر پیکار ہونے کے واقعات بیان ہوئے ہیں، انہیں تاریخی پس منظر یا اسلامی اصول جنگ کو نظر انداز کرتے ہوئے نقل کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسلام واضح طور پر بے گناہوں، عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو نقصان پہنچانے سے منع کرتا ہے۔ احادیث کی اس طرح کی من پسند تعبیر له صرف انتہا پسندوں کی بھرتی کو تقویت دیتی ہے بلکہ اسلام مخالف پروپیگنڈے کو بھی ہوا دیتی ہے۔
خواتین سے متعلق احادیث کا غلط استعمال بھی ایک عام مسئلہ ہے۔ تاریخ میں متعدد من گھڑت یا ضعیف احادیث کا حوالہ دے کر خواتین کی تعلیم، نقل و حرکت اور عوامی زندگی میں کردار کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ایک معروف روایت جس میں عورتوں کو عقل میں کمزور بتایا گیا ہے، نہ صرف سیاق و سباق سے بہ کر پیش کی جاتی ہے بلکہ یہ خود رسول اکرم کے طرز عمل کے خلاف ہے، جنہوں نے خواتین کو بااختیار بنایا، ان کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی، اور انہیں قیادت کے مناصب سوئیے۔ حضرت عائشہ رضى الله عنہا اس کی نمایاں مثال ہیں، جو علم و دانش میں بلند مقام رکھنے والی ممتاز عالمہ تھیں.
بعض معاشروں میں حکمران با بااثر طبقات نے حدیث کا سہارا لے کر اعرانہ طرز حکومت کو جائز شهیرانی، اختلاف رائے کو دبانے اور اصلاحی تحریکوں کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاء حاکم کی اطاعت کرو خواه وه ظلم کرے جیسی احادیث کو اکثر علمی و تاریخی سیاق و سباق سے بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی طرز حکمرانی عدل، مشاورت (شوری) اور جوابدہی جیسے اصولوں پر قائم ہے۔ اس طرحکی تحریف اور من مانی تعبیر کے ذریعے ظلم کو مذہب کے لبادے میں چھپا دیا جاتا ہے، جس سے لوگ اسلام کے روحانی اور اخلاقی پیغام سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
احادیث کے غلط استعمال سے نہ صرف اسلام کی عالمی سطح پر غلط تصویر پیش کی جاتی ہے بلکہ اس سے کئی سنگین نتائج بھی جنم لیتے ہیں۔ غیر مسلم افراد، جو اسلامی متون سے ناواقف ہوتے ہیں، اکثر ان پرتشدد یا جایزالہ تفسیروں کو اسلام کا عمومی نظریہ سمجھ بیٹھتے ہیں، خود مسلمان، خصوصاً وہ لوگ جنہیں مستند دینی علم تک رسائی حاصل تبين الجهن، بددلی یا حتی کہ انتہا پسندی کا شکار ہو سکتے ہیں. اس کے علاوہ احادیث کی مختلف تعبیرات پر انحصار کرنے والے اسلامی مکاتب فکر کے درمیان بايعي اتحاد بھی متاثر ہوتا ہے۔ مختلف فرقے مختلف حدیثی مجموعوں یا تفسیروں کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں، اور یہ اختلافات بعض اوقات سیاسی عناصر کی جانب سے مزید بڑھا چڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں امت میں انتشار اور تقسیم پیدا ہوئی ہے.
ان چیلنجز کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لیے تعلیم نہ صرف ایک ضرورت ہے بلکہ ایک دینی فریضہ بھی ہے خود رسول اکرم نے فرمایا: علم حاصل کرنا پر مسلمان پر فرض ہے۔ مسلمانوں کو یہ صلاحیت حاصل ہونی چاہیے کہ وہ صحیح اور من گھڑت احادیث میں فرق کر سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم حدیث کی بنیادی باتیں سیکھیں، تاریخی سیاق و سباق کو سمجھیں، اور ایسے مستند علماء سے علم حاصل کریں جو روایتی دینی علوم اور جدید عصری فہم دونوں میں مہارت رکھتے ہوں۔ اسلام کا بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے، جو ایک ایسا اخلاقی پیمانہ فراہم کرتا ہے جو کسی بھی مشتبہ روایت پر فوقیت رکھتا ہے۔ جب احادیث کی تشریح قرآن کے اصولوں جیسے عدل، رحم، حکمت اور شفقت کی روشنی میں کی جاتی ہے، تو ان کا اصل اور درست مفہوم سامنے آتانوجوان مسلمان بالخصوص التها يعندی اور اسلام مخالف جذبات دونوں کے اثرات کا سب سے زیادہ شکار پر سکتے ہیں۔ اس لیے تعلیمی اداروں، مساجد اور خاندانوں کو چاہیے کہ وہ مستند اسلامی اقدار کی تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں ساتھ ہی تنقیدی موج. تاریخی شعور اور شہری ذمہ داری کا شعور بھی پیدا کریں غیر مسلم افراد کے لیے بھی ہم ضروری ہے کہ انہیں اسلامی تعلیمات کے بارے میں درست اور معتبر معلومات تک رسائی حاصل ہو۔ ایسے تعلیمی اقدامات جو بین المذاہب مکالمے، اسلام کے علمی و تحقیقی مطالعے اور ذرائع ابلاغ کی قیمي اميڈيا للريسی) کو فروغ دیں، ره آن فقط فیعیوں کو دور کر سکتے ہیں جو احادیث کے غلط استعمال کے باعث جنم لیتی ہیں
تعلیم ہی وہ پل ہے جو الجھن اور بصیرت کے درمیان فاصلے کو مثالی ہے صرف سیکھنے، سوال کرنے اور سچ کی تلاش کے ذریعے اس مسلمان اور غیر مسلم دونوں، حقیقی اسلام کو جان سکتے ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم نے فرمایا: جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے کوئی راستہ اختیار کرتا ہے، اللہ اس کے لیے چند کا راستم آسان فرما دیتا ہے، نبی . تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے، نہ کہ تشدد یا چیز کی علامت آپ کی احادیث، جب وہ مستند ہوں اور درست طریقے سے سمجھی جائیں، تو ایک ایسی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں جو عاجزی، شفقت، عدل اور توازن سے بھرپور ہے۔ ان مقدس کلمات کا غلط استعمال لم صرف دین اسلام کو منع کرتا ہے بلکہ پوری انسانیت کو نقصان پہنچاتا ہے۔
انشا واولي
جامعہ ملیہ اسلامیہ