قارئین پاکستان کے وفاقی قومی نقشے پر بلوچستان ایک ایسا داغ ہے جو برسوں کی محرومی، جبر اور ریاستی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ ایک طرف یہ ملک دنیا کے سامنے خودمختاری اور حقِ خود ارادیت کے نعرے بلند کرتا ہے، دوسری طرف اپنے ہی ایک تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے منفرد قوم کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے جو انسانی حقوق کی بنیادی اقدار سے کھلا انحراف ہے۔قارئین کو معلوم ہوگا کہ بلوچ قوم، جو اپنی غیرت، مزاحمت اور ثقافتی شان کے لیے جانی جاتی ہے، دہائیوں سے ریاستی جبر، وسائل کی لوٹ مار اور تشدد کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ محض ایک صوبائی مسئلہ نہیں بلکہ ایک ایسی کھلی ناانصافی ہے جس پر عالمی سطح پر مذمت ہونی چاہیے۔ پاکستان کی حکمتِ عملی کسی وقتی بدانتظامی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔جس کا مقصد بلوچ عوام کو سیاسی طور پر کمزور، معاشی طور پر محتاج اور ثقافتی طور پر بے شناخت کرنا ہے۔بلوچستان کے وسائل پر پاکستان نہ صرف خود قابض ہے بلکہ اس کے وسائل استعمال تو کرتا ہے لیکن خطے کے عوام ان وسائل کے فوائد سے محروم رکھے گئے ہیں۔ بلوچستان، جو رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ یہاں گیس، کوئلہ، تانبہ اور سونا ایسی مقدار میں موجود ہے کہ یہ پورے ملک کی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے۔ ساندک کاپر گولڈ منصوبہ ہو یا سوئی گیس کے ذخائریہ سب پاکستان کے مالیاتی ڈھانچے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ان وسائل کی برکتیں بلوچ عوام تک کبھی نہیں پہنچتیں۔ اربوں روپے کے منافع اسلام آباد اور پنجاب کے ایوانوں تک محدود رہتے ہیں، جبکہ بلوچستان میں بنیادی ڈھانچہ کھنڈر کی مانند، اسپتال خالی، اور تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس خطے کے لوگوں کو بنیادی سہولیات کے فقدان کا سامنا ہے ۔ بے روزگاری ، مہنگائی ان کا مقدر بن چکی ہے ۔ یہ محض معاشی ناانصافی نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ ہے جس کا مقصد بلوچ عوام کو غربت میں جکڑے رکھنا اور ان کی مزاحمتی آواز کو کمزور کرنا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس صوبے سے ملک کو سب سے زیادہ گیس ملتی ہے، وہاں کے کئی دیہات آج بھی پینے کے صاف پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہ تفاوت کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک شعوری پالیسی ہے۔پاکستانی قیادت اس خطے کو نسلی تعصب سے دیکھتے ہیں اور ان کی جانب سے ملک کےلئے دی جانے والی قربانیاں نظر انداز کی جارہی ہیں اور انہیں ملک اور قوم دشمن قراردیا جارہا ہے ۔ معاشی محرومی کے ساتھ ساتھ بلوچ عوام کو سیاسی جبر اور ریاستی دہشت گردی کا سامنا بھی ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک، بلوچستان میں بغاوت کو کچلنے کے لیے متعدد فوجی آپریشن کیے گئے ہیں۔ خاص طور پر 2000 کی دہائی کے آغاز سے یہ صوبہ ایک خاموش مگر مسلسل خونریزی کا مرکز رہا ہے۔ عسکری اور خفیہ ادارے ماورائے عدالت اغوا، حراست اور تشدد کے ذریعے خوف کی فضا قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں بلوچ سیاسی کارکن، طلبہ، دانشور اور عام شہری لاپتا کیے جا چکے ہیں۔ اکثر اوقات یہ لوگ رات کی تاریکی میں گھروں سے اٹھا لیے جاتے ہیں اور پھر کبھی واپس نہیں آتے۔ “مارو اور پھینکو” پالیسی کے تحت مسخ شدہ لاشیں ویران علاقوں سے ملتی ہیں۔نوجوانوں کو گرفتار کرکے لے جایا جاتا ہے اور جعلی انکاونٹروں میں ہلاک کیا جاتا ہے اور میڈیا کے سامنے ان کے قبضے سے ہتھیار برآمد کرنے کا ڈھونگ بھی رچایا جاتا ہے ۔ ایک واضح پیغام کے ساتھ کہ جو بھی ریاستی رٹ کو چیلنج کرے گا، اس کا انجام ایسا ہی ہوگا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، لاپتا ہونے والوں کی تعداد دسیوں ہزار میں ہے، مگر انصاف کا کوئی در نہیں کھلتا۔آئے روز کسی نہ کسی جگہ انکاونٹر کے نام پر ایسے بے نام افراد کی لاشیں پھینکی جاتی ہیں ۔بلوچستان آج بھی عسکری نگرانی میں ایک جنگی علاقے کی مانند ہے۔ چیک پوسٹوں پر روزمرہ کی تذلیل معمول ہے، اور بنیادی حقوق کے مطالبے پر لوگوں کو “دہشت گرد” قرار دے کر قتل، تشدد یا جیل کی نذر کر دیا جاتا ہے۔فوجی گاڑیاں علاقے میں پہنچتے ہی وہاں پر ہنگامہ بپا کردیتی ہیں لوگوں کے ساتھ گالی گلوچ، توڑ پھوڑ، مکانوں کی کھڑکیاں اور دروازے توڑنا عام سی بات ہے ۔ تلاشی کے نام پر ان کے گھروں سے قیمتی اشیاءپر ہاتھ صاف کیا جاتا ہے۔ ریاستی بیانیہ بلوچ تحریک کو قومی یکجہتی کے لیے خطرہ بتاتا ہے، حالانکہ یہ مزاحمت دراصل دہائیوں کے جبر کا ردعمل ہے، نہ کہ اس کی وجہ۔
قارئین بلوچستان میں نہ صرف فوج کے ذریعے عوام کے خلاف جنگ جاری رکھی جارہی ہے بلکہ بلوچستان کی شناخت، پہچان اور جغرافیائی ہیت کو بھی تبدیل کرنے کےلئے دیگر محاذوں پر کام جاری ہے ۔ ثقافتی محاذ پر بھی ایک خاموش مگر شدید حملہ جاری ہے۔ بلوچ زبان، تاریخ اور شناخت کو پسِ پشت ڈال کر اردو اور پنجابی کا غلبہ قائم کیا جا رہا ہے۔ تعلیمی نصاب میں بلوچستان کے کردار اور تاریخ کو یا تو نظر انداز کیا جاتا ہے یا مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ اسکول اور کالج وسائل سے محروم ہیں، اور نوجوانوں میں اپنی زمین سے بیگانگی کا احساس بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آبادیاتی انجینئرنگ کا منصوبہ بھی واضح ہے—غیر بلوچ افراد کو بسانا، خصوصاً گوادر جیسے علاقوں میں جہاںچین،پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں نے مقامی ماہی گیروں اور مزدوروں کو بے دخل کر کے زمین غیر ملکی کمپنیوں اور ملک کے بااثر طبقات کے حوالے کر دی ہے۔ گوادر، جو کبھی بلوچ ساحلی زندگی کی روح تھا، آج نوآبادیاتی طرز کے استحصال کی علامت بن چکا ہے۔آج بلوچستان میں نئے نئے پروجیکٹوں اور بیرونی سرمایہ کاری کے نام پر ان کے وسائل کی لوٹ ہورہی ہے ۔ ان کی زرعی اراضی مختل بہانوں سے ان سے چھین لی جاتی ہے ۔ ریاستی پروپیگنڈا ان تمام حقائق کو چھپانے کے لیے غیر ملکی سازشوں اور قبائلی جھگڑوں کا ڈھال استعمال کرتا ہے۔ مگر اصل سچ یہی ہے کہ بلوچستان کی بدحالی کا سب سے بڑا ذمہ دار خود پاکستانی ریاستی نظام ہے۔ بین الاقوامی برادری کی خاموشی—خصوصاً وہ ممالک جن کے پاکستان سے معاشی مفادات وابستہ ہیں—اس جبر کو مزید بڑھا رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں وقتاً فوقتاً رپورٹیں جاری کرتی ہیں، مگر وہ یا تو مسترد کر دی جاتی ہیں یا محض رسمی وعدوں میں دفن ہو جاتی ہیں۔
بلوچستان کا مسئلہ صرف ایک خطے کا نہیں بلکہ پوری دنیا کے انصاف کے نظام کا امتحان ہے۔ بلوچ عوام خیرات نہیں بلکہ اپنا حق مانگ رہے ہیں—اپنے وسائل پر اختیار، اپنی شناخت کا احترام اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق۔ پاکستان کی طرف سے انکار اس کے جمہوری دعووں کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ جو ریاست اپنے ہی شہریوں کو کچل کر اتحاد اور ترقی کی کہانیاں سناتی ہے، وہ دراصل فریب پر کھڑی ہے۔
بلوچ عوام کی جدوجہد بقا سے بڑھ کر عزت، انصاف اور اپنی پہچان کے لیے ہے۔ ان کا حوصلہ، دہائیوں کے دکھ کے باوجود، ایک ناقابلِ شکست ارادے کی علامت ہے۔ پاکستان کا بلوچستان کے ساتھ غیر انسانی سلوک صرف اپنے عوام سے غداری نہیں بلکہ انسانیت کے اصولوں کا مذاق ہے۔ اب وقت بہانوں کا نہیں، انصاف کا ہے۔ دنیا کو محض افسوس نہیں بلکہ عملی اقدام کرنا ہوگا۔تاکہ بلوچ عوام ظلم کے سائے سے نکل کر آزادی کی روشنی دیکھ سکیں۔قارئین کو بتادیں کہ بلوچستان کے عوام اس جبر و ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں لیکن طاقت کے بل پر ان کے منہ بند کئے جاتے ہیں البتہ یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ہر بلوچی کے دل میں اس ملک کے خلاف نفرت ہے جو کسی بھی دباﺅ سے کم نہیں ہوسکتی ہے کیوں کہ فوج اور دیگر ایجنسیاں لوگوں کے منہ بند تو کرسکتی ہیں لیکن ان کے ذہن اور دلوں میں جو نفرت ہے اس کو ختم نہیں کرسکتی ۔