وادی کشمیر، جو اپنی دلکش قدرتی مناظر، مالا مال ثقافت اور صبر آزما مگر جفاکش عوام کے لیے مشہور ہے، آج ایک ایسے بحران منشیات کی لت سے دوچار ہے جو اس کے نوجوانوں کی زندگیوں کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے ۔ اس حسین خطے کی خوبصورتی اب اکثر ایک ایسے پوشیدہ محاذ کے پیچھے چھپ جاتی ہے جہاں نشہ آور مواد نوجوان نسل کے مستقبل کو تباہ کر رہا ہے۔ یہ وبا محض انفرادی زندگیوں کو ہی نہیں، بلکہ خاندانوں اور پوری برادری کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، اور حالیہ برسوں میں اس کی شدت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اس نے وادی کے سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔وادی کشمیر میں غیر قانونی منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ اس اضافے کی وجوہات گہری اور کئی سطحوں پر جمی ہوئی ہیں، جو اس خطے کی سماجی، سیاسی اور معاشی مشکلات سے جڑی ہیں۔ دہائیوں پر محیط سیاسی عدم استحکام، تشدد، اور پرتشویش حالات نے نوجوانوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ مسلسل خوف، جانی نقصان اور عدم تحفظ کے ماحول نے ذہنی صحت کو شدید متاثر کیا ہے، اور کئی نوجوان اپنی تکلیف اور دباو¿ سے وقتی نجات پانے کے لیے نشے کا سہارا لینے لگے ہیں۔ نفسیاتی امراض جیسے ڈپریشن اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر یہاں عام ہیں، اور یہ اکثر منشیات کی لت کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔قارئین کویاد ہوگا کہ منشیات کے عادی افراد کی جانب سے ایسے جرائم انجام دیئے گئے جو انسانیت کےلئے باعث شرمساری ہے ۔ وادی میں جن جرائم کے بارے میں کبھی سنا نہیں گیا تھا منشیات کے عادی فراد نے ایسے گھناﺅنے جرائم انجام دیئے ۔ بے روزگاری کی بلند شرح اور محدود معاشی مواقع نوجوانوں میں مایوسی پیدا کرتے ہیں۔ جب روزگار کے امکانات معدوم ہوں، تو مایوسی یا یکسانیت سے نکلنے کا ایک خطرناک راستہ نشہ بن جاتا ہے۔ وادی میں تفریحی سہولیات کی کمی بھی ایک بڑا سبب ہے، جو فارغ اور غیر مصروف نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں کے قریب کر دیتی ہے۔ منشیات تک آسان رسائی اس بحران کو مزید پیچیدہ کر دیتی ہے۔ ہیروئن، چرس اور دیگر نشہ آور مواد مقامی منڈیوں میں دستیاب ہیں اور سرحد پار سے بھی اسمگل ہوتے ہیں، جس سے نوجوانوں کے لیے ان کا تجربہ کرنا یا ان میں پھنس جانا آسان ہو جاتا ہے۔بیرون ملکی منشیات کی سمگلنگ نے نوجوانوں کےلئے منشیات حاصل کرنے کا عمل آسان بنادیا ۔ اکثر نوجوان اپنے ہم عمروں کے ذریعے منشیات سے متعارف ہوتے ہیں۔ معاشرتی دباو¿ انہیں غلط راستے پر ڈال دیتی ہے۔ پاپ کلچر اور میڈیا میں نشے کی چمک دمک بھی اس رجحان کو بڑھاتی ہے، اور یوں ایک خطرناک دائرہ وجود میں آتا ہے۔منشیات کے اثرات صرف فرد تک محدود نہیں رہتے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جسمانی نقصانات ، جیسے جگر اور پھیپھڑوں کے امراض، دل کی بیماریاں، اعصابی کمزوری ، فرد کی زندگی کو تباہ کر دیتے ہیں۔ وادی میں منشیات سے جڑی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، جو خاندانوں کو نہ صرف جذباتی صدمہ دیتا ہے بلکہ معاشی اور سماجی طور پر بھی توڑ دیتا ہے۔ نشے کی عادت جرائم، گھریلو جھگڑوں اور معاشرتی ڈھانچے کے بگاڑ کو جنم دیتی ہے۔
قارئین کو بتادیں کہ منشیات سے ذہنی اور نفسیاتی بیماری بھی بڑھ جاتی ہیں ۔نفسیاتی سطح پر بھی منشیات کے اثرات تباہ کن ہیں۔ ڈپریشن، اینگزائٹی اور سائیکوسِس جیسے امراض نشے کی لت کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ سماج میں موجود بدنامی (Stigma) متاثرہ افراد کو مدد لینے سے روکتی ہے، جس سے وہ مزید تنہائی اور محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں حکومت، کمیونٹی، طبی ماہرین اور نوجوان خود شریک ہوں۔ اس کے لیے چند اہم اقدامات یہ ہو سکتے ہیں۔اسکولوں، کالجوں اور کمیونٹی مراکز میں منشیات کے نقصانات اور نشے کی ابتدائی علامات کے بارے میں تعلیم دینا۔ مقامی شخصیات، فنکاروں اور مذہبی رہنماو¿ں کو شامل کر کے پیغام کو زیادہ مو¿ثر بنایا جا سکتا ہے۔جاری تنازع اور ذاتی مشکلات سے پیدا ہونے والے نفسیاتی دباو¿ کے علاج کے لیے کونسلنگ سینٹرز، بحالی مراکز اور کمیونٹی سپورٹ سروسز قائم کرنا۔غیر قانونی منشیات کی دستیابی روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط بنانا، بارڈر کنٹرول بہتر کرنا اور اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کو توڑنا۔ لیکن اس کے ساتھ نشے میں مبتلا افراد کے لیے بحالی کے مواقع فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔مقامی سپورٹ گروپس، بحالی پروگرام اور ہم عمر مشاورت کے ذریعے متاثرہ افراد کو سماج میں واپس لانا۔ مذہبی اور سماجی رہنما اس مہم میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔نوجوانوں کو ہنر مند بنانے، کاروبار شروع کرنے اور مقامی صنعتوں میں روزگار پیدا کرنے کے لیے منصوبے شروع کرنا، تاکہ وہ منشیات کے جال میں نہ پھنسیں۔خطے میں ایسے مراکز کا قیام جو صرف ڈیٹاکس پر ہی نہیں بلکہ نفسیاتی مدد، پیشہ ورانہ تربیت اور سماجی بحالی پر بھی توجہ دیں، تاکہ متاثرہ افراد ایک بار پھر مفید زندگی گزار سکیں۔منشیات کا بحران فوری توجہ اور اجتماعی کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔ وادی کے نوجوانوں کو اس لعنت سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، سول سوسائٹی اور عوام ایک ساتھ آئیں۔ کشمیر نے ہمیشہ مشکلات میں صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، اور یہی جذبہ اس جنگ میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔
یہ لڑائی ایک دن یا ایک سال میں نہیں جیتی جا سکتی، بلکہ یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جس میں وقت، عزم اور اجتماعی ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ اگر ہم بروقت اقدامات کریں، آگاہی بڑھائیں، اور نوجوانوں کو بہتر مواقع فراہم کریں تو کشمیر اپنے مستقبل کو اس خطرے سے بچا سکتا ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کو نشے کی زنجیروں سے آزاد زندگی کا تحفہ دے سکتا ہے۔