پاکستان اس وقت ایک نہایت نازک اور سنجیدہ دور سے گزر رہا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں شدید بارشوں اور سیلاب نے لاکھوں شہریوں کو بے گھر کر دیا، فصلیں تباہ ہو گئیں، بنیادی ڈھانچے تہس نہس ہو گئے، اور ہزاروں خاندان اپنے گھروں سے محروم ہو گئے۔ اس دوران عوام کی مشکلات اور حکومتی ناکامی نے ایک واضح تضاد اجاگر کیا ہے: جہاں عام شہری بنیادی ضروریات کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں، وہیں ملک کی سیاسی، بیوروکریٹک اور عسکری قیادت اپنی شاہانہ زندگی گزار رہی ہے۔جنوبی پنجاب کے چھ اضلاع میں آئے سیلاب نے زمین و آسمان یکساں اجاڑ دیا۔ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے، فصلیں تباہ ہو گئیں اور بنیادی سہولیات تک رسائی تقریباً ناممکن ہو گئی۔ متاثرہ علاقے کے ایک رہائشی نے بتایاکہ ہمارے کھیت اور گھر پانی میں ڈوب گئے۔ بچوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہم اب کسی رشتے دار کے گھر پناہ لیے ہیں۔سیلاب کی لپیٹ میں آنے والے علاقوں میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ خوراک اور صاف پانی کی کمی نے ان کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔ کئی خواتین نے بتایا کہ انہیں اپنے بچوں کے لیے دودھ اور غذا تلاش کرنے میں شدید دشواری ہو رہی ہے۔ اسکول اور صحت مراکز بند ہیں، جس سے بچوں کی تعلیم اور طبی سہولیات بھی متاثر ہوئی ہیں۔حکومت نے چند ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں، لیکن ان کی تعداد اور وسائل کافی نہیں ہیں۔ مقامی انتظامیہ شدید دباو¿ میں ہے، اور بنیادی ضروریات جیسے صاف پانی، بجلی، طبی سہولیات اور راشن کی فراہمی اب بھی ناقص ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ امداد پہنچانے کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ اپنی زندگی کے لیے خود جدوجہد کر رہے ہیں۔اسی دوران پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز ہانگ کانگ کی خریداری کے لیے روانہ تھیں۔ ناقدین کے مطابق، ان کا ریلیف کیمپوں سے دور رہنا اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستانی سیاست کی ڈائنسٹک قیادت عوام کے مسائل سے کتنا بے خبر ہے۔ عوام کی زندگی اور حکمرانوں کی تفریح کا یہ تضاد واضح اور قابل فہم ہے۔دفاعی وزیر خواجہ آصف نے تسلیم کیا کہ اعلیٰ بیوروکریٹس اربوں روپے غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں، خاص طور پر پرتگال میں، جہاں بہت سے افسران کی جائیدادیں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایک سینئر افسر نے اپنی بیٹی کی شادی میں 4 ارب روپے کے تحائف وصول کیے۔ آصف نے واضح کیا کہ سیاسی قیادت پر کرپشن کے الزامات لگتے ہیں، لیکن بیوروکریسی ملک کے وسائل کو بڑے پیمانے پر ضائع کر رہی ہے اور اس پر کسی قسم کا احتساب نہیں ہوتا۔پاکستان کے حکمرانوں کی زندگی اور عام شہری کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آرمی چیف عاصم منیر کے بیرون ملک دورے، وزراءاور بیوروکریٹس کے وسیع و عریض بنگلے، سرکاری خرچ پر مہنگی گاڑیاں، ایندھن اور بجلی کے بل سب عوامی غریب طبقے کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ عام لوگ لوڈشیڈنگ، مہنگائی، صحت کی خراب سہولیات اور بے روزگاری کا سامنا کر رہے ہیں، جبکہ حکمران اپنی عیش و عشرت میں مست ہیں۔ایک مقامی باشندے نے بتایا کہ ان کے گھر پر ملبہ گر گیا اور ان کا پورا خاندان محفوظ مقامات پر منتقل ہوا۔ انہوں نے بتایاکہ رات تقریباً ڈھائی بجے ایک زور دار آواز سنی، پھر ملبہ نیچے آیا اور ہمارا گھر تباہ ہو گیا۔ ہم نے جان بچائی، لیکن سب کچھ ختم ہو گیا۔ اب کسی دوسرے کے گھر میں رہ رہے ہیں۔اسی طرح جنوبی پنجاب کے کئی متاثرہ خاندانوں نے بتایا کہ ان کی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں اور امداد تک پہنچنا ناممکن ہے۔ ہزاروں خاندانوں کو روزمرہ کی ضروریات کے لیے خود کفیل ہونا پڑ رہا ہے۔ بچوں کی تعلیم، خواتین کی صحت، اور بزرگوں کی حفاظت سب شدید خطرے میں ہیں۔تحلیل کار اور ناقدین کہتے ہیں کہ پاکستانی حکمران اکثر ”بھارت کے برابر“یا ”قوم کے ساتھ ہم آہنگی“کے نعروں کے ساتھ عوام کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن خود سادگی اپنانے سے گریزاں ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ ملک کے وسائل چند افراد کے ہاتھ میں مرکوز ہیں، جبکہ عام شہری اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک ایسی ریاست بن چکا ہے جو حکمرانوں کے لیے ہے، نہ کہ عوام کے لیے۔ سیلاب متاثرین بے یار و مددگار ہیں، بیوروکریٹس اربوں کی منتقلی میں مصروف ہیں، جنرلز بیرون ملک دوروں پر ہیں، اور لیڈرز اپنی راحت کے لیے ملک کے بحران کی پرواہ نہیں کر رہے۔ جب تک اعلیٰ سطح پر حقیقی احتساب اور شفافیت نہیں آئے گی، پاکستان میں عوام ہمیشہ مجبور اور محکوم رہیں گے، اور حکمران شاہانہ زندگی گزارتے رہیں گے۔یہ مضمون صرف ایک رپورٹ نہیں بلکہ پاکستان کے معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی تضادات، عوام کی مشکلات، اور حکومتی عیش و عشرت کا مکمل عکس ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ عوام اپنی روزمرہ زندگی میں کس حد تک مشکلات برداشت کر رہے ہیں، جبکہ ملک کے وسائل چند افراد کے لیے وقف ہیں۔