• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Saturday, September 13, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home Article

مذاہب کے درمیان مکالمہ ، قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کا موثر ذریعہ

تحریر: البرٹ آئن اسٹائن الطاف مير، پی ایچ ڈی جامعہ علیہ اسلامیہ

JK News Service by JK News Service
September 5, 2025
in Article
A A
FacebookTwitterWhatsapp

آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں مذہبی تنوع ہماری زندگی کا ایک فطری حصہ بن چکا ہے۔ ہم اپنے اردگرد مختلف مذاہب کے مانتے والوں کو دیکھتے ہیں – جیسے ہندومت ، اسلام، عیسایت ،بدھ مت ،یہودیت اور دیگر – جن کے عقائد، عبادات اور روایات ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ یہ مذاہب ظاہری طور پر جدا نظر آتے ہیں، لیکن ان میں اکثر مشترکہ اقدار پائی جاتی ہیں۔ جیسے امن، محبت، ہمدردی اور دوسروں کا احترام تاہم، غلط فہمیوں، لاعلمی اور بعد اوقات سیاسی مفادات کی وجہ سے مذہبی تنازعے کا سبب بھی بن جاتا ہے۔یہ ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے اور پرامن طور پر ساتھ رہنے میں مدد دیتا ہے، بین المذاہب مکالمے سے مراد مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان کھلا، باوقار اور باہمی احترام پر مینی تبادلۂ خیال ہے۔ اس کا مقصد کسی مذہب کو برتر ثابت کرنا با بحث و مباحثہ نہیں ہوتا، بلکہ اصل مقصد علماء دیکھنا اور سمجھنا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد باہمی احترام کو فروغ دینا، نفرت کو کم کرنا اور ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا ہے جہاں پر فرد خود کو محفوظ با عزت اور قابل قدر محسوس کری.مذہبی اختلافات نے بعض اوقات باعتمادی، نفرت اور حتی کہ پرتشدد واقعات کو علم دیا ہے۔ ہم اکثر فرقہ وارانہ فسادات محاجی کشیدگی یا نفرت انگیز تقاریر کے بارے میں سنتے ہیں، جن کی بنیاد اکثر دوسرے مذاہب کے بارے میں غلط فہمیوں پر ہوتی ہے، جب لوگ دوسروں کے عقائد سے ناواقف ہوتے ہیں تو جھولی معلومات پر یقین کرنا یا نفرت سے متاثر ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ بین المذاہب مکالم ان فقط فہمیوں کی دیواریں گرانے، مختلف برادریوں کے درمیان دوستی قائم کرتے، ایک دوسرے کے عقائد و اقدار کو سمجھنے، اور تعلیم، ماحولیات اور سماجی انصاف جیسے مشترکہ مقاعد پر مل کر کام کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس طرح کی کوششیں امن، اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں، اور لاعلمی یا خوف کی بنیاد پر پیدا ہونے والے تشدد کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بین المذاہب مکالمے ہے کہ اس سے ہمیں یہ دریافت ہوتا ہے کہ تمام کا ایک اہم فائدمذاہب میں بہت سی تعلیمات ایک جیسی ہیں۔ اکثر مذاہب امن و عدم الشد، بمدردی و خیران، مجالی و دیانت داری، بڑوں کے احترام، غریبوں کی دیکھ بھال، معافی اور انکساری جیسے اوصاف پر زور دیتے ہیں، مثال کے طور پر، ہندو دھرم میں وسودپو کلمیکم” کا تصور پایا جاتا ہے یعنی پوری دنیا ایک خاندان ہے اسلام میں “رحمت” اور سلامتی (سلام) کو بنیادی اہمیت حاصل ہے: عیسائیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کم اپنے پڑوسی سے اسی طرح محبت کرو جیسے اپنے آپ سے کرتے ہو؟ بد من ابلا” (عدم تشدد اور دینی بیداری کی تعلیم دیتا ہے اسکو من “مری دا بھو” – یعنی سب کی بھلائی – کا درسی دیتا ہے؛ جبکہ جین مت “اپریگرام لا تعلقی) اور پرامن زندگی پر زور دیتا ہے۔ جب لوگ مختلف مذاہب کے درمیان مکالمہ کرتے ہیں تو وہ اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے اپنے مختلف نہیں جتنے وہ پہلے مجھتے تھے۔ یہی احساس شرات النسائي فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بنیاد بنتا ہے۔
بين المذاہب مکالمے کو فروغ دینے کے کئی مؤثر طریقے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں طلبہ کو مختلف مذاہب کے بارے میں باوقار اور درست انداز میں تعلیم دی جانی چاہیے، جب نوخیز ذہن تمام مذاہب کے حمل و جمال سے واقف ہو کر پروان چڑھتے ہیں، تو وہ دوسروں سے نفرت کرنے کے بجائے ان کا احترام کرنا سیکھتے ہیں۔ ایسے تہوارہ سیمینارز یا ورکشاپس کا انعقاد جن میں مختلف مذاہب کے افراد شریک
ہوں، باہمی تفہیم کو فروغ دیتا ہے۔ ایک دوسرے کے تہواروں کو مل چل کر منانا خوشی، میل جول اور دوستی کو جنم دیتا ہے۔ مندروں، مساجد، گرجا گھروں، گردواروناور دیگر عبادت گاہوں کے رہنماء بڑی سماجی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ جب مختلف مذاہب کے رہنماء اکٹھا ہو کر الحاد و یگانگت کی بات کرتے ہیں تو لوگ ان کی بات توجہ سے سلتے ہیں، وہ اپنے پیروکاروں کی رہنمائی، رواداری اور امن کی طرف کر سکتے ہیں میڈیا اگر نفرت پھیلانے کے بجائے ہم آہنگی اور باہمی تعاون کی کہانیاں اجاگر کرے تو معاشرے میں مثبت تبدیلی | مکتی ہے۔ فلمیں، مضامین اور سوشل میڈیا پليد فارم اتحاد، مشتركي الدار اور باہمی احترام کی طاقت کو مؤثر انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔ نوجوان معاشرے کا مستقبل ہیں۔ طلبہ اور نوجوانوں کے لیے خصوصی مکالماتی نشستین یا ثقافتی تبادلے کے پروگرام دیرپا روابط قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، جب مختلف مذاہب سے تعلق رکھنےوالے لوگ مل کر کام کرتے ہیں تو وہ اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ دوسروں کی خدمت ایک ایسی قدر ہے جو تمام مذاہب میں مشترک ہے، بھارت، اگرچہ کلی فرقہ وارانہ چیلنجز سے دوچار رہا ہے. لیکن یہاں مذہبی ہم آہنگی کی بے شمار روشن مثالین بھی موجود ہیں مثال کے طور پر کیرالہ میں بندو، مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے کے تہواروں میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ پنجاب میں مسلمانوں اور سکھوں نے مل کر مساجد اور گردواروں کی مرمت و بحالی کا کام انجام دیا ہے۔ عید یا دیوالی جیسے مواقع پر مختلف برادریوں کے لوگ ل صرف ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں بلکہ ملهائیان بهی آیی میں بانٹتے ہیں مختلف مذاہب کے مذہبی رہنماء پرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے امن مارچوں میں شانہ بہ شانہ شامل ہوئے ہیں۔
بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا، ہماری معاشرے میں اب بھی بڑی حد تک جیانت، تعصب اور بد گمانی پائی جاتی ہے، بعضی اوقات سیاسی مفادات مذہب کو لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، کچھ افراد کو یہ خوف ہوتا ہے کہ دوست مذاہب سے بات چیت کرنے سے ان کے اپنے عقائد کمزور ہو جائیں گے تاہم، مکالمے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر بات سے اتفاق کریں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود ہم ایک دوسرے کا احترام کریں ایک مضبوط ایمان کبھی دوسروں کے بارے میں جاننے سے نہیں گھیرانا۔ در حقیقت سچا مذیب وسعت قلب الفاری اور ہمدردی کی تعلیم دیتابين العذاين مالم صرف مذہب تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تعلق ایک ایسے پرامن دنیا کی تشکیل سے ہے جہاں پر فرد کو مزد. مساوات اور شمولیت کا احساس ہو یہ خوف اور نفرت پر قابو پانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ جب مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں، سنتے ہیں اور سیکھتے ہیں، تو وہ ہم آہنگی کے بیچ ہوتے ہیں۔ یہ بیچ وقت کے ساتھ امن اور اتحاد کے مضبوط درخت بن جاتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جیسے بھارت، جو تنوع سے برپور ہے، اور ایک ایسی دنیا میں جو تیزی سے ایک دوسرے سے جڑ رہی ہے، بین المذاہب مکالمہ محلی ایک انتخاب نہیں، بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ آئیے ہم سب مل کر امن کے سفیر بنیں ایک گفتگو سے ابتدا کرتے ہوئے۔امن طاقت کے ذریعے قائم نہیں رکھا جا سکتا؟ اسے صرف باہمی سمجھ بوجھ سے حاصل کیا جا سکتا ہے

Previous Post

AIP Alleges Conspiracy Against Kashmiri MP Er Rashid in Tihar Jail

Next Post

Deliberate, Inconsiderate Move to Hurt People’s Faith: CM Omar Abdullah on Holiday Issue

Next Post
Deliberate, Inconsiderate Move to Hurt People’s Faith: CM Omar Abdullah on Holiday Issue

Deliberate, Inconsiderate Move to Hurt People’s Faith: CM Omar Abdullah on Holiday Issue

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.