• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Saturday, September 13, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home Editorial & Opinion

قومی علامتیں اور مقدس مقامات،ہم آہنگی کا پیغام، تضاد کا نہیں

تحریر:ارشد رسول by تحریر:ارشد رسول
September 7, 2025
in Editorial & Opinion
A A
قومی علامتیں اور مقدس مقامات،ہم آہنگی کا پیغام، تضاد کا نہیں
FacebookTwitterWhatsapp

حضرت بل میں نصب سنگِ بنیاد کی تختی پر بھارت کے قومی نشان (اشوکا ایمبلم) کی موجودگی کو لے کر حالیہ تنازعہ نے وادی میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ جمعے کی نماز کے بعد کچھ نوجوانوں نے مشتعل ہو کر تختی کو نقصان پہنچایا، جسے فوراً مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ یہ کہا گیا کہ کسی درگاہ یا مسجد کے قریب قومی نشان کی موجودگی ”ایمان کے خلاف“ہے۔ لیکن کیا واقعی مذہب اور قومی علامتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں، یا یہ محض ایک منظم سیاسی بیانیہ ہے؟قارئین دنیا کے نقشے پر نگاہ ڈالیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ قومی علامتوں اور مذہبی مقامات کا ایک ساتھ موجود ہونا کوئی نئی یا غیر معمولی بات نہیں ہے۔ بلکہ بیشتر مسلم اکثریتی ممالک میں یہ ایک معمول ہے، اور کسی بھی معاشرتی یا مذہبی بحران کا سبب نہیں بنتا۔انڈونیشیاکی مثال لیجیے، یہ ملک دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی رکھتا ہے۔ جکارتہ کی عظیم مسجد ”استقلال“ ہر سال یومِ آزادی پر قومی پرچم کشائی کی تقریب کی میزبانی کرتی ہے۔ سرکاری تقریب میں صدر اور دیگر حکومتی نمائندے شریک ہوتے ہیں، اور مسجد کے صحن میں قومی ترانہ بلند آواز میں پڑھا جاتا ہے۔ اسی طرح سورابایا سمیت کئی شہروں کی مساجد کی میناروں پر قومی پرچم لہرایا گیا ہے۔ عوام اس منظر کو عقیدت اور قومی یکجہتی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ملیشیامیں اگست اور ستمبر کے مہینوں کو ”نیشنل منتھ“کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دوران قومی پرچم لہرانے کی مہم چلتی ہے جس میں مساجد بھرپور حصہ لیتی ہیں۔ خطبات، تقریبات اور پرچم کشائی کے پروگرام مذہبی مقامات پر بھی منعقد ہوتے ہیں۔ یہاں کسی کو اس بات پر اعتراض نہیں کہ مسجد میں پرچم کیوں لہرایا جا رہا ہے، کیونکہ اس تصور کو ہم آہنگی اور نظم و ضبط کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔قزاکستان میں قومی شناخت کو مساجد کے ڈیزائن اور رنگوں میں سمو دیا گیا ہے۔ آستانہ کی عظیم مسجد کا اندرونی اور بیرونی ڈھانچہ ملک کے پرچم کے رنگوں اور ثقافتی نمونوں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ مذہب اور ریاستی علامتیں ایک دوسرے کے متوازی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔سعودی عرب میں قومی پرچم کو سب سے زیادہ احترام دیا جاتا ہے، کیونکہ اس پر کلمہ طیبہ درج ہے۔ سعودی قوانین کے مطابق پرچم کو زمین پر گرانا یا بے حرمتی کرنا سنگین جرم ہے۔ ہر سال قومی دن کے موقعے پر مکہ اور مدینہ سمیت تمام شہروں میں پرچم کشائی اور سرکاری تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ اس موقعے پر مذہبی مقامات بھی سجائے جاتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ مسجد کے قریب قومی پرچم کیوں لہرایا جا رہا ہے۔یہی نہیں، بلکہ ”امریکہ“ جیسے غیر مسلم اکثریتی ملک میں بھی گرجا گھروں کے اندر قومی پرچم کی موجودگی عام ہے۔ وہاں اسے ”فلیگ کوڈ“کے تحت باقاعدہ عزت دی جاتی ہے۔ اس سے یہ بات اور پختہ ہو جاتی ہے کہ مذہب اور قومی شناخت کے درمیان کوئی تصادم نہیں بلکہ ایک توازن کا رشتہ ہے۔قارئین کو بتادیں کہ اسلامی اخلاقیات بھی اسی بات کی تاکید کرتی ہیں کہ نظمِ اجتماعی اور ریاستی ڈھانچے کا احترام کیا جائے۔ مذہبی اور سماجی زندگی میں انتشار کے بجائے قانون اور نظم کو ترجیح دینی چاہیے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں قومی علامتوں کو احترام کے ساتھ مذہبی زندگی کا حصہ بنایا جاتا ہے، کیونکہ یہ اجتماعی اخلاقیات کا تقاضا ہے۔بھارت میں قومی نشان کے استعمال اور اس کی حفاظت کے قوانین واضح ہیں۔ ”اسٹیٹ ایمبلم آف انڈیا ایکٹ“کے تحت اس نشان کی توہین یا بے جا استعمال سنگین جرم ہے۔ اگر کسی کو حضرت بل میں نصب تختی پر اعتراض تھا تو اس کا راستہ عدالت یا متعلقہ ادارہ ہونا چاہیے تھا، نہ کہ ہجوم کا مشتعل ہو کر پتھروں سے تختی توڑنا۔ یہ عمل نہ صرف غیر قانونی تھا بلکہ معاشرتی نظم کے خلاف بھی تھا۔ اس پورے تنازع میں سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس واقعے کو وقف بورڈ اور اس کی چیئرپرسن ڈاکٹر درخشاں اندرابی کے خلاف ایک ہتھیار بنایا گیا۔ وقف بورڈ نے پچھلے برسوں میں کئی اصلاحات کی ہیں جن سے پرانے مفادات اور جمی ہوئی اجارہ داریاں متاثر ہوئی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ موقع پاتے ہی بورڈ کو بدنام کرنے کی مہم شروع کر دی گئی۔اصل سوال یہ ہے کہ کیا حضرت بل کی تختی پر قومی نشان کی موجودگی واقعی ”ایمان کے خلاف“ تھی یا پھر کچھ سیاسی طاقتیں اس بہانے سے ایک ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانا چاہتی تھیں؟ اگر ہم دنیا کے تجربات دیکھیں تو جواب صاف ہے،یہ معاملہ مذہب کا نہیں بلکہ سیاست کا ہے۔کشمیر کے عوام کے سامنے ایک اہم انتخاب ہے۔ کیا ہم دنیا کے تجربات سے سیکھ کر مذہب اور قومی علامتوں کے درمیان ایک متوازن ہم آہنگی پیدا کریں گے یا پھر جذباتی نعروں اور ہجوم کے فیصلوں کے پیچھے چلتے رہیں گے؟
حضرت بل جیسی متبرک جگہیں ہماری اجتماعی روحانیت کی علامت ہیں۔ ان کی حفاظت صرف اینٹ پتھر یا دیواروں کی نہیں بلکہ ان مقامات کو سیاسی پروپیگنڈے سے بچانے کی بھی ضرورت ہے۔ وقف بورڈ کا کام ان مزارات کی دیکھ ریکھ اور عوامی خدمت ہے۔ اگر ہم ہر اقدام کو سیاست کی عینک سے دیکھیں گے تو ادارے کبھی مضبوط نہیں ہو سکیں گے۔قارئین دنیا کی مسلم اور غیر مسلم دونوں معاشرتوں نے یہ حقیقت قبول کی ہے کہ قومی علامتیں اور مذہبی مقامات ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے تکملے ہیں۔ حضرت بل واقعہ اس حقیقت سے انحراف کی ایک کوشش ہے، جسے عقل و شعور کے ساتھ مسترد کرنا ہوگا۔یہ وقت اشتعال انگیزی یا جذباتی احتجاج کا نہیں، بلکہ سکون، وضاحت اور اعتماد کا ہے۔ کشمیر کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے اداروں پر بھروسہ کرے، قانون کا راستہ اپنائے اور ان تجربات سے سیکھے جنہوں نے دنیا کے دیگر معاشروں کو مذہب اور ریاستی علامتوں کے بیچ توازن سکھایا ہے۔

Previous Post

Develop Nano-Sensors for Early Warning on Landslides, Flash Floods: LG Manoj Sinha to Experts

Next Post

National Symbols and Shrines Coexist Globally, Waqf Board Wrongly Blamed in Hazratbal Incident

Next Post
National Symbols and Shrines Coexist Globally, Waqf Board Wrongly Blamed in Hazratbal Incident

National Symbols and Shrines Coexist Globally, Waqf Board Wrongly Blamed in Hazratbal Incident

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.