وادی کشمیر میں صدیوں سے مقامی دستکاری اور کاشتکاری عام لوگوں کےلئے نہ صرف روزی روٹی کا ذریعہ رہی ہے بلکہ خطے کےلئے ایک مضبوط معاش کےلئے ریڑ کی ہڈی کے طور پر بھی دیکھی جارہی ہے ۔ قارئین معاشی استحکام ہر ریاست اور ہر ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ہر خطے کی مقامی معیشت اپنی انفرادی طاقتوں کے ذریعے حصہ ڈالے۔ مضبوط مقامی معیشت نہ صرف روزگار پیدا کرتی ہے بلکہ ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھتی ہے، سماجی توازن قائم کرتی ہے اور دیرپا ترقی کی بنیاد ڈالتی ہے۔ اسی تناظر میں کشمیر بھارت کی معاشی و ثقافتی ساخت میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ فطری حسن سے مالامال اور صدیوں پرانی ہنرمندی کی روایت رکھنے والی یہ وادی ہمیشہ اپنی دستکاریوں اور چھوٹی صنعتوں پر انحصار کرتی آئی ہے۔ کشمیری شال کی نرمی ہو یا ہاتھ سے بنے قالینوں کے پیچیدہ ڈیزائن — یہ سب نہ صرف عالمی سطح پر پہچان رکھتے ہیں بلکہ ہزاروں خاندانوں کی روزی روٹی کا ذریعہ بھی ہیں۔ باغبانی، ریشم سازی اور دیگر چھوٹی صنعتیں آج بھی خطے کی معیشت کو سہارا دیتی ہیں۔ چنانچہ ان صنعتوں کو فروغ دینا صرف ورثے کی حفاظت نہیں بلکہ ترقی کے نئے در وا کرنا، نوجوانوں کو بااختیار بنانا اور مجموعی بھارتی معیشت میں حصہ ڈالنا ہے۔آج بھی لاکھوں افراد اس کشمیری دستکاریوں اور صنعت سے وابستہ ہیں اور نہ صرف اپنے لئے روزگار کا بندوبست کرتے ہیں بلکہ دیگر لوگوں کےلئے روزگار کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ۔ قارئین کشمیر کی دستکاریوں کی روایت کئی صدیوں پر محیط ہے، جس پر وسطی ایشیا اور ایران کے اثرات نمایاں ہیں۔ قارئین کو بتادیں کہ پندرویں صدی میں سلطان زین العابدین کے دور میں ایران و وسطی ایشیا سے ماہر فنکار وادی لائے گئے، جنہوں نے کشمیری ہنرمندی کو نئی جہت بخشی۔ پشمینہ شال، کانی بُنائی، پیپر ماشی، اخروٹ کی لکڑی پر نقاشی اور تانبے کے برتن — یہ سب محض مصنوعات نہیں بلکہ کشمیری تہذیب اور فن کا مظہر ہیں۔ یہ ہنر ماضی میں شاہی درباروں اور اشرافیہ کے گھروں کی زینت بنے اور آج بھی عالمی منڈی میں اپنی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ثقافتی سرمایہ کشمیر کے لیے ایک انوکھا اثاثہ ہے، خاص طور پر ایسے دور میں جب دنیا بھر کے صارفین اصلی، ہاتھ سے تیار اور پائیدار مصنوعات کی تلاش میں ہیں۔اس وقت بھی کشمیری دستکاریاں زرعی اور سیاحتی شعبے کے بعد خطے کی معیشت کا سب سے بڑا ستون ہیں۔ اندازاً ساڑھے تین لاکھ سے زائد دستکار براہِ راست اس شعبے سے وابستہ ہیں، جب کہ ہزاروں دیگر لوگ خام مال، ڈیزائن، پیکجنگ اور مارکیٹنگ میں شریک ہیں۔ پشمینہ شال اپنی نزاکت اور نفاست کے باعث دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ ہاتھ سے بُنے قالین، اپنی باریک کاریگری کے سبب یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور امریکا تک برآمد ہوتے ہیں۔ پیپر ماشی کی رنگین اشیا، اخروٹ کی لکڑی
کے فرنیچر اور تانبے کے برتن اب بھی نہ صرف گھروں میں استعمال ہوتے ہیں بلکہ عالمی خریداروں کو بھی اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سیب، اخروٹ، چیری، زعفران اور ریشم پر مبنی صنعتیں دیہی معیشت کا سہارا ہیں اور کشمیر کے مجموعی معاشی ڈھانچے میں نمایاں حصہ ڈالتی ہیں۔دیہی علاقوں کی آبادی ان ہی دستکاریوں اور کاشتکاری پر انحصار کرتی ہے ۔ ان صنعتوں کی اہمیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ محنت طلب ہیں اور بڑے پیمانے پر افرادی قوت کو سمو سکتی ہیں، خاص طور پر خواتین کو جو گھروں سے ہی ہنرمندی کے ذریعے آمدنی حاصل کرتی ہیں۔ عالمی سطح پر کشمیری مصنوعات کی مانگ موجود ہے، اور اگر برانڈنگ اور مارکیٹ سے بہتر روابط قائم ہوں تو قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ شعبہ کئی مشکلات کا شکار ہے: بیچوانوں کا استحصال، مشینی مصنوعات سے مقابلہ، معیاری خام مال کی کمی، نئی نسل کا دستکاری میں عدم دلچسپی، اور کمزور مارکیٹنگ ڈھانچہ۔ حکومتی اسکیمیں موجود ہیں لیکن اکثر فنکاروں تک براہِ راست فائدہ نہیں پہنچتا۔حکومت نے حالیہ برسوں میں کچھ اہم اقدامات کیے ہیں۔ پشمینہ، کشمیری قالین اور زعفران کو جغرافیائی شناخت (GI) ٹیگ دیا گیا ہے تاکہ ان کی اصل حیثیت محفوظ رہے۔ فنکاروں کے لیے کریڈٹ کارڈ اسکیمیں، ہنر مندی کی تربیتی مراکز، تجارتی میلوں میں شرکت، ای-مارکیٹنگ پورٹل اور کلسٹر ڈیولپمنٹ پروگرام ان میں شامل ہیں۔ تاہم سب سے بڑی ضرورت ان پالیسیوں کی مؤثر عمل درآمد اور نگرانی کی ہے تاکہ اصل فنکار تک براہِ راست فائدہ پہنچے۔
قارئین موجودہ دور ڈیجٹل دور ہے اور آن لائن کاروبار بڑھ رہا ہے کشمیر میں بھی ڈیجیٹل دور نے ان صنعتوں کو نئی راہیں دکھائی ہیں۔ ای-کامرس پلیٹ فارمز جیسے Amazon Karigar اور Flipkart Samarth دستکاروں کو بیچوان کے بغیر عالمی خریداروں تک پہنچنے کا موقع دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کہانی سنانے کا نیا رجحان، موبائل بینکنگ اور ورچوئل نمائشیں — یہ سب نوجوان نسل کو بھی اس شعبے کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ اسی طرح باغبانی اور زعفران کی بہتر برانڈنگ، ریشم سازی کی بحالی، فوڈ پروسیسنگ صنعتوں کا فروغ اور سیاحت سے جُڑی ہنر مندی معیشت میں نئی جان ڈال سکتی ہیں۔کشمیری دستکاریوں اور صنعت کو فروغ دینے کےلئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم موثر ذریعہ ہے ۔کشمیر میں بے روزگاری کے چیلنج کو دیکھتے ہوئے دستکاریاں اور مقامی صنعتیں ایک پائیدار راستہ پیش کرتی ہیں۔ اگر نوجوانوں کو جدید تربیت، مالی سہولتیں اور انکیوبیشن مراکز میسر آئیں تو وہ روایت اور جدت کو ملا کر نئی مصنوعات تخلیق کر سکتے ہیں۔ یہی مصنوعات کشمیر کے ثقافتی سفیر بن سکتی ہیں، بالکل اسی طرح جیسے یوگا نے بھارت کی عالمی شناخت کو نئی وسعت دی۔لھٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جامع حکمتِ عملی اپنائی جائے: فنکاروں کو براہِ راست سہولتیں فراہم کی جائیں، ڈیزائن انوویشن لیب قائم ہوں، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن اور فیشن ٹیکنالوجی جیسے اداروں کے ساتھ شراکت داری ہو، ہنر مند بستیوں اور میوزیمز کا قیام
ہو، اور عالمی سطح پر کشمیری مصنوعات کو متحدہ برانڈ ’’میڈ اِن کشمیر‘‘ کے تحت پیش کیا جائے۔یہ صرف ایک معاشی منصوبہ نہیں بلکہ ایک سماجی و ثقافتی ضرورت ہے۔ یہ صنعتیں صدیوں کے ورثے، فن اور جدت کی عکاس ہیں، جو اگر درست سمت اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھائی جائیں تو نہ صرف کشمیر بلکہ پورے ملک کے لیے ترقی کے نئے در وا کر سکتی ہیں۔ مستقبل اسی میں ہے کہ کشمیری فنکاروں کو بااختیار بنایا جائے، ٹیکنالوجی کو گلے لگایا جائے اور دنیا کے سامنے ایک مضبوط کشمیری شناخت ابھر کر آئے — جو صرف ہنر کی نہیں بلکہ وقار اور خوشحالی کی بھی ضامن ہو۔