قارئین تعلیم ہر ملک اورقوم کی ترقی کا ایک بنیادی جز ہے ،تعلیم ایک ایسی روشنی ہے جو نہ صرف اندھیروں کو دور کرتی ہے بلکہ زندگیوں میں بھی تبدیلی لاتی ہے اور ترقی کی راہیں ہموار کرتی ہے ۔ خاص کر اگر ہم دور دراز علاقوں اور دیہی آبادی کی بات کریں تو دور افتادہ علاقوں میں بھی تبدیلی آتی ہے ۔ اگرچہ دور دراز علاقوں میں تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کی کمی ہوتی بھی تاہم ایک چھوٹا سا تعلیمی ادارہ ، سکول وغیرہ بھی ایک بہت بڑی تبدیلی کا محرک بن سکتا ہے ۔ تعلیم کے زیور سے نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی اپنے مستقبل کو سنوارتی ہیں اور اپنے آنے والے کل کےلئے خود کو بہتر راہ پر ڈال دیتی ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شہری علاقوں کے بنسبت دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو اس قدر اہمیت نہیں دی جاتی ہے اور یہ سلسلہ آج کا نہیں ہے بلکہ صدیوں سے یہ رویہ ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو مل رہا ہے لڑکیوں کو گھریلوکام کاج میں زیادہ اُلجھایا جاتا ہے جبکہ کم عمر ی میں شادی بیاہ کے بندھن میں باندھ کر ان کے تعلیمی مستقبل پر روک لگادی جاتی ہے ۔ البتہ اب وہ زمانہ نہیں رہا آج کل سوچ میں بھی بہت فرق آئی ہے اور بڑھتی ہوئی بیداری اور حکومتی اقدامات کے ساتھ، دور دراز کے بستیوں میں زیادہ والدین اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیج رہے ہیں۔ اس سادہ قدم نے نہ صرف لڑکیوں کی انفرادی زندگی بلکہ پوری کمیونٹی کی تقدیر بدلنا شروع کر دی ہے۔تاہم آج بھی دور دراز علاقوں میں تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے ۔ محدود تعلیمی وسائل کے باوجود بھی دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی طرف توجہ دی جارہی ہے ۔ ان علاقوں کی لڑکیوں کے لیے، کلاس روم میں قدم رکھنا آزادی کی طرف سفر ہے۔ یہ اسکول بنیادی خواندگی اور اعداد و شمار فراہم کرتے ہیں، لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جہاں لڑکیاں روایتی حدود سے باہر خواب دیکھ سکیں۔ ایسے اسکولوں میں اساتذہ اکثر متعدد کردار ادا کرتے ہیں ، نہ صرف معلم کے طور پر، بلکہ سرپرست، محرک اور بعض اوقات بچوں کے حقوق کے محافظ کے طور پر بھی۔ اسکولوں میں، لڑکیاں سوال پوچھنا، رائے دینا اور خواہشات پیدا کرنا سیکھتی ہیں، جو بااختیار بنانے کی طرف پہلا قدم ہے۔قارئین سرکاری اقدامات سے اگرچہ دیہی علاقوں میں تعلیمی ڈھانچے میں بہتری آرہی ہے البتہ ابھی بھی بہت سارے مسائل موجود ہیں ۔ معاشی کمزوری لڑکیوں کی تعلیم میں سب سے بڑی رُکاوٹ بن رہی ہے ۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی ، بہتر سڑکوں کا فقدان، اور دیگر چلینج لڑکیوں کی تعلیم میں حائل ہے ۔ دور افتادہ علاقوں میں لڑکیوں کو اپنے گھروں سے سکول تک بہت لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے کبھی کبھار تو جنگلاتی علاقوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ جبکہ سکولوں میں بھی بنیادی ضروریات کی سہولیات کا فقدان لڑکیوں کو سکول چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے ۔ اسی طرح دور دراز علاقوں میں سماجی بندھن ، عقائد اور خاندانی بندشیں لڑکیوں کو پڑھانے میں والدین کو پست کرتی ہے جبکہ ایک اور اہم معاملہ یہ کہ والدین کو لگتا ہے کہ لڑکیوںکی تعلیم پرپیسے خرچ کرنا بے سود ہے ۔ کم عمری کی شادیاں، گھریلو ذمہ داریاں اور جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے کے امکانات کو مزید کم کر دیتا ہے۔اس طرح کے رجحانات عام لوگوں کو تعلیم سے دور رکھتے ہیں ۔ ان چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے کمیونٹی کی مضبوط بیداری، حکومتی تعاون اور مقامی رہنماو ¿ں کی فعال شرکت کی ضرورت ہے۔تعلیم لڑکیوں کو شناخت اور مقصد کا احساس دیتی ہے۔ ایک لڑکی جو پڑھ لکھ سکتی ہے اور اپنے آپ کا اظہار کر سکتی ہے اس میں اعتماد اور ہمت پیدا ہوتی ہے۔ وہ ناانصافی کے خلاف کھڑا ہونا، استحصال کے خلاف مزاحمت کرنا اور فیصلے کرنا سیکھتی ہے۔ تعلیم کے ذریعے پیدا ہونے والا اعتماد لڑکیوں کو سائے سے باہر نکلنے اور کمیونٹی لیڈر بننے کے قابل بناتا ہے۔لڑکیوں کو تعلیم کے نور سے منور کرنے سے نہ صرف کنبہ سے جہالت دور ہوجاتی ہے بلکہ سماج بھی مہذہب اور ترقی کی طرف بڑھتا ہے ۔ ایک تعلیم یافتہ لڑکی کے پاس روزگار حاصل کرنے یا اپنا کاروبار شروع کرنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف اس کے خاندان کو غربت سے نکالتا ہے بلکہ اس کے گاو ¿ں کی معاشی ترقی میں بھی حصہ ڈالتا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ جب خواتین کماتی ہیں، تو وہ اپنے بچوں کی صحت، خوراک اور تعلیم میں زیادہ سرمایہ کاری کرتی ہیں، جس سے خوشحالی کا ایک مثبت دور پیدا ہوتا ہے۔تعلیم لڑکیوں کو صحت، صفائی ستھرائی اور غذائیت کی اہمیت کے بارے میں سکھاتی ہے۔ جو لڑکیاں اسکول جاتی ہیں وہ ذاتی حفظان صحت کو برقرار رکھنے، جوانی کے دوران صحت کا انتظام کرنے اور خاندان کے افراد کی دیکھ بھال کے بارے میں زیادہ آگاہ ہوتی ہیں۔ یہ براہ راست بچوں کی شرح اموات میں کمی، صحت مند خاندانوں اور گاو ¿ں میں رہنے کا صاف ستھرا ماحول فراہم کرتا ہے۔اس طرح سے ایک لڑکی کی تعلیم پورے معاشرے میں تبدیلی لاتی ہے اور یہ تبدیلی معاشرے کی بہتری اور ترقی کےلئے رول اداکرتی ہے ۔
قارئین لڑکیوں کی تعلیم میں حائل رُکاوٹوں میں سب سے اہم جو رُکاوٹ بنتی جارہی ہے وہ یہ کہ لڑکیوں کی شادی کم عمر ی میں کی جاتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اس کی جسمانی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں بلکہ ان کے مستقبل پر بھی اثرات ڈالتے ہیں اس کے برعکس شادی میں تاخیر سے نہ صرف لڑکیاں تعلیم کے حصول کی طرف توجہ دیتی ہے بلکہ اس کو اپنا مستقبل بنانے میں بھی وقت دستیاب رہتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بالغ شادی سے اس کی جسمانی ہیت بھی تبدیل نہیں ہوتی اور ناہی اس پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔تعلیم یافتہ لڑکیاں ذمہ دار خواتین بنتی ہیں جو اپنے خاندانوں اور برادریوں کی رہنمائی کر سکتی ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے گاو ¿ں میں اساتذہ، صحت کے کارکنوں یا سماجی رہنما کے طور پر واپس آتے ہیں، دوسرے بچوں کو تعلیم اور مواقع تک رسائی میں مدد کرتے ہیں۔ ایک پڑھی لکھی عورت پڑھے لکھے بچوں کی پرورش کرتی ہے، اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ تعلیم کے فوائد نسل در نسل جاری رہیں۔جب لڑکیاں لڑکوں کے شانہ بشانہ تعلیم حاصل کرتی ہیں تو معاشرے میں مساوات کا تصور جڑ پکڑتا ہے۔ تعلیم یافتہ خواتین دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرتی ہیں، مساوی حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ ذہانت اور قابلیت کی تعریف جنس سے نہیں ہوتی۔ یہ ایک منصفانہ اور زیادہ انصاف پسند معاشرے کی تعمیر میں مدد کرتا ہے۔دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں نے بھی مختلف شعبوں میں اپنی قابلیت کی داستانیں رقم کرلی ہیں البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکار دور دراز علاقوں میں تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کی طرف خاصی توجہ دے ۔
