قارئین وادی کشمیر جو کہ پُر خطر حالات، سیاسی کشیدگی، گولیوں کی گن گرج ، دھماکوں ، انٹرنیٹ کی بندشوں اور کرفیو، ہڑتال کی وجہ سے پوری دنیا کیلئے توجہ کا مرکز بن رہی تھی وہیں یہ وادی اب سیاحت، کھیل کود اور ترقی کیلئے جانی جاتی ہے اور نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک مثال بن رہی ہے ۔ خاص کر گزشتہ پانچ برسوں کے دوران حالات کی یکسر تبدیلی نے کشمیر کی تصویر کو مزید خوبصورت بنادیا ہے ۔ اگست 2019 میں آئینِ ہند کی دفعات 370 اور 35A کی منسوخی نے جموں و کشمیر کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔ برف سے ڈھکی چوٹیوں، سبز وادیوں اور نیلگوں جھیلوں کے درمیان بسی یہ سرزمین ہمیشہ سے فطری حسن اور ایڈونچرکے امکانات سے مالا مال رہی، مگر برسوں تک شورش، غیر یقینی اور علیحدگی کے بیانیوں نے اس کے امکانات کو دھندلا دیا تھا۔ جب حکومتِ ہند نے اس خطے کو ملک کے مکمل آئینی دائرے میں شامل کیا، تو اس فیصلے نے جہاں سیاسی بحثوں کو جنم دیا، وہیں ایک نئے عہد کی بنیاد بھی رکھی ، ایسا عہد جس میں وادی نے اپنی خاموش خوبصورتی کو کھیلوں کی حرارت میں ڈھال کر عالمی نقشے پر اپنی شناخت ثبت کر دی۔قارئین آج کشمیر صرف ایک جغرافیہ نہیں بلکہ ایک زندہ تجربہ ہے ، ایک ایسا مقام جو کھیلوں، سیاحت اور امن کی علامت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ قومی سطح کے متعدد کھیلوں کی کامیاب میزبانی نے وادی کو اس مقام تک پہنچایا ہے جہاں اس کا ذکر اب میدانِ سیاست سے نہیں بلکہ کھیلوں کے عالمی فورمز پر ہو رہا ہے۔ یہ تبدیلی اس وژن کا ثبوت ہے جو حکومتِ ہند نے اتحاد، ترقی اور کشمیری روح کی بے پناہ توانائی کے امتزاج کے طور پر پیش کیا ہے۔قارئین کو بتادیں کہ دفعات 370 اور 35A کی منسوخی اس یقین سے کی گئی کہ یہی رکاوٹیں خطے کی ترقی کے راستے میں حائل تھیں۔ ابتدا میں خدشات اور تنقیدوں کا شور بلند ہوا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ امن و استحکام نے اس اقدام کے نتائج کو ظاہر کرنا شروع کیا۔ وادی نے اپنی فطری دولت ، پہاڑ، جھیلیں اور دریا ،کو اب ترقی کی نئی بنیاد بنایا ہے۔قومی اور بین الاقوامی سطح کے کھیلوں کے انعقاد نے نہ صرف کشمیر کی انتظامی صلاحیت کو نمایاں کیا بلکہ دنیا کے سامنے یہ پیغام بھی رکھا کہ یہ خطہ اب تصادم نہیں، توانائی، مہارت اور امید کی پہچان ہے۔کشمیر کا قدرتی ماحول کھیلوں کے لیے ایک زندہ اسٹیڈیم کی مانند ہے۔ گلمرگ کی برف پوش ڈھلوانیں، سونمرگ کے گھماؤ دار راستے، جہلم اور لدر کے شفاف پانی ،سب مل کر ایڈونچر اور کھیلوں کے لیے ایک بے مثال پس منظر فراہم کرتے ہیں۔ماضی میں سکیورٹی اور سہولیات کی کمی نے اس صلاحیت کو محدود کر رکھا تھا، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ حکومت نے انفراسٹرکچر پر توجہ دیتے ہوئے جدید اسٹیڈیم، تربیتی مراکز اور کھیلوں کے مراکز قائم کیے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں قومی سطح کے کھیلوں کے انعقاد نے نہ صرف کشمیر کو نیا وقار بخشا بلکہ یہ ثابت کیا کہ وادی بڑے پیمانے کے ایونٹس کی کامیاب میزبانی کر سکتی ہے۔ان مقابلوں میں ملک بھر کے کھلاڑی مختلف شعبوں ،ایتھلیٹکس، باکسنگ، جوڈو، واٹر اسپورٹس ، میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیے۔ یہ صرف مقابلے نہیں تھے، بلکہ ایک زندہ استعارہ تھے ۔ اس وادی کے احیاء کا جو برسوں سے سکوت میں تھی۔دنیا بھر کے صحافیوں، کھیلوں کے ماہرین اور ناظرین نے ان مناظر کو عالمی میڈیا پر دیکھا، جہاں برفانی چوٹیوں کے سائے تلے دوڑتے کھلاڑی تحفظ اور خوشی کااظہار کرتے تھے ۔ کشمیر کے عوام کے لیے یہ کھیل محض ایک تقریب نہیں بلکہ فخر اور تجدیدِ امید کا لمحہ تھے۔ نوجوانوں کے لیے یہ موقع خوابوں کو حقیقت بنتے دیکھنے کا تھا۔ جو نوجوان کبھی سہولیات یا مواقع کی کمی کے باعث حوصلہ ہار بیٹھے تھے، اب وہ اپنے ہی میدانوں میں قومی سطح کے کھلاڑیوں کے شانہ بشانہ کھیل رہے ہیں۔حکومت کے تربیتی پروگراموں، کوچنگ سینٹرز اور اکیڈمیوں نے نوجوانوں کے لیے ایک نیا افق کھولا ہے۔ جن کشمیری کھلاڑیوں نے مختلف کھیلوں میں تمغے جیتے، وہ اب آنے والی نسل کے لیے علامت بن گئے ہیں — ایک ایسی نسل جو یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہے کہ ان کا خواب اب دہلی یا ممبئی تک محدود نہیں، بلکہ سری نگر سے نکل کر عالمی میدانوں تک جا سکتا ہے۔قارئین ان کھیلوں کا اثر صرف کھیل تک محدود نہیں رہا۔ ایونٹس کے دوران آنے والے ہزاروں کھلاڑیوں، افسران اور سیاحوں نے وادی کی معیشت میں جان ڈال دی۔ مقامی گیسٹ ہاؤسز، ہوٹلوں، ریستورانوں، ٹرانسپورٹ، حتیٰ کہ ہنرمند کاریگروں کے بازار ،سب میں نئی رونق لوٹ آئی۔اس طرح سے یہ سرگرمیاں کشمیر کی سیاحت کے لیے بھی نئی توانائی کا باعث بنیں۔ گلمرگ اب عالمی سطح پر سکینگ کا مرکز تسلیم کیا جا رہا ہے، جبکہ پہلگام اور سونمرگ ایڈونچر کے شوقین کے لیے نئی منزلیں بن چکے ہیں۔ ہوائی اڈوں کی توسیع، بہتر سڑکوں اور جدید سہولیات نے کشمیر کو دنیا کے لیے مزید قریب کر دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں مقامی برادریوں میں معاشی خودمختاری کا احساس بڑھا ہے۔ان کھیلوں کی کامیابی کا سب سے مضبوط ستون امن اور نظم و نسق ہے۔ گزشتہ برسوں میں پرتشدد واقعات میں نمایاں کمی نے یہ ممکن بنایا کہ ہزاروں افراد ایک جگہ اکٹھے ہوں اور بغیر خوف کے کھیل کا لطف اٹھائیں۔ منظم سکیورٹی، مربوط پلاننگ اور مقامی تعاون نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ کشمیر اب محفوظ، پْرامن اور خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے۔مقامی خاندانوں کی جانب سے مہمانوں کو دی جانے والی گرم جوشی نے ہر آنے والے کو متاثر کیا۔ سری نگر کے اسٹیڈیموں میں جب کشمیری بچے دوسرے صوبوں کے کھلاڑیوں کے ساتھ قومی ترانے پر کھڑے ہوتے ہیں، تو یہ منظر صرف کھیل نہیں ، ایک نئی اجتماعی شناخت کی جھلک ہوتا ہے۔کشمیر کو برسوں تک دنیا نے تنازع کے آئینے سے دیکھا۔ مگر ان کھیلوں نے یہ تاثر بدل دیا۔ اب وہی وادی جسے کبھی تنازع کی سرزمین کہا جاتا تھا، ایک نئی زبان بول رہی ہے ، دوستی، شمولیت اور اْمید کی زبان جس میں نہ صرف مقامی نوجوانوں کا بڑھ چڑھ کر حصہ ہے بلکہ بیرونی ممالک اور ملکی کھیل شائقین بھی اس کا حصہ بن رہے ہیں ۔ بین الاقوامی میڈیا نے یہاں کے ایونٹس کو نہ صرف کھیل کے لحاظ سے بلکہ ثقافتی رنگوں کی وجہ سے بھی نمایاں طور پر اجاگر کیا۔ کشمیری لوک موسیقی، کھانوں کی خوشبو، اور روایتی لباس نے ان تقریبات کو ایک تہوار کی شکل دے دی۔ اس ثقافتی تبادلے نے وادی کے چہرے پر ایک نئی چمک پیدا کی — ایک ایسی شناخت جو جنگ سے نہیں بلکہ جمال سے بنی ہے۔کشمیر کی کہانی اب رکنے والی نہیں۔ قومی کھیلوں کی کامیابی محض آغاز ہے۔ حکومت کے منصوبے اب بین الاقوامی میراتھن، ایڈونچرفیسٹیولز اور گلوبل ٹورنامنٹس تک پھیل رہے ہیں۔ یہ وہ سفر ہے جس میں کھیل ترقی کا استعارہ بن گئے ہیں — ایک ایسا ذریعہ جو وادی کو عالمی برادری کے قریب لا رہا ہے۔کشمیر کا یہ عروج اس بات کا ثبوت ہے کہ درست سمت میں کی گئی پالیسی اور پائیدار امن کس طرح ایک خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ اب جب برفانی چوٹیوں کے نیچے کھلاڑی دوڑتے ہیں اور ناظرین کے نعرے گونجتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے جیسے وادی اپنی خاموشیوں سے نکل کر نئے مستقبل کی طرف بڑھ رہی ہو — ایک ایسے کشمیر کی طرف جہاں کھیل، امن اور خوبصورتی ایک ساتھ سانس لیتے ہیں۔

