سرینگر، 14 دسمبر: ایک اہم سفارتی پیش رفت میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 2803 (2025) منظور کر لی ہے، جس کے تحت غزہ تنازع کے خاتمے کے لیے امریکی قیادت میں پیش کیے گئے جامع منصوبے کی توثیق کی گئی ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے پہلی مرتبہ غزہ کے مستقبل کی حکمرانی کو ایک منظم، بین الاقوامی حمایت یافتہ فریم ورک کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ قرارداد کے حق میں 13 ووٹ پڑے جبکہ روس اور چین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، جس سے عالمی سطح پر وسیع مگر متفقہ نہیں، حمایت ظاہر ہوتی ہے۔
یہ قرارداد بین الاقوامی حکمتِ عملی میں ایک واضح تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔ عارضی جنگ بندیوں یا صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وقفوں پر توجہ دینے کے بجائے، یہ ایک طویل المدتی استحکام اور حکمرانی کے ماڈل کو آگے بڑھاتی ہے، جس کا مقصد غزہ کے سیاسی خلا، سکیورٹی چیلنجز اور تعمیرِ نو کی ضروریات کو یکجا طور پر حل کرنا ہے۔
اس فریم ورک کا مرکزی ستون مجوزہ بورڈ آف پیس (BoP) ہے، جسے غزہ کی تعمیرِ نو، استحکام اور عبوری انتظامی امور کے لیے مرکزی رابطہ ادارہ تصور کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ سلامتی کونسل نے باضابطہ طور پر BoP کے قیام کا خیر مقدم کیا ہے، تاہم اس کی ساخت، قیادت اور فیصلہ سازی کے اختیارات سے متعلق اہم تفصیلات کو بعد کے مرحلے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ کونسل نے BoP اور اس سے وابستہ نظام کو 31 دسمبر 2027 تک کام کرنے کی اجازت دی ہے، جس میں نظرِ ثانی یا توسیع کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
حکمرانی کے اس ڈھانچے کے ساتھ ساتھ قرارداد میں ایک عارضی بین الاقوامی استحکامی فورس (ISF) کی تعیناتی کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ اس فورس کو غیر ریاستی مسلح گروہوں کی غیر فوجی کاری، ہتھیاروں کی ضبطی، محفوظ انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے اور بین الاقوامی نگرانی میں شہری انتظامیہ کی منتقلی میں معاونت کا مینڈیٹ دیا گیا ہے۔ ایک ہی مینڈیٹ میں سکیورٹی، انسانی امداد اور حکمرانی کے عناصر کی شمولیت اس بڑھتے ہوئے اتفاقِ رائے کی عکاس ہے کہ غزہ کا دیرینہ عدم استحکام الگ الگ اقدامات سے حل نہیں ہو سکتا۔
امریکی سفیر مائیک والٹز نے اس قرارداد کو “تاریخی اور تعمیری” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ “غزہ، اور اسرائیلیوں و فلسطینیوں دونوں کے لیے ایک نیا راستہ متعین کرتی ہے۔” واشنگٹن کے مطابق اس فریم ورک کا مقصد ایسے ادارہ جاتی اور سکیورٹی حالات پیدا کرنا ہے جو طویل المدتی سیاسی پیش رفت کے لیے ضروری ہوں۔
قرارداد میں مؤثر استحکام کو آئندہ سفارتی روابط کے امکان سے بھی جوڑا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ بامعنی حکمرانی اور سکیورٹی اصلاحات فلسطینی سیاسی امنگوں پر مستقبل کی بات چیت کے لیے بنیاد فراہم کر سکتی ہیں۔ انسانی امدادی اداروں نے محفوظ اور مسلسل امداد کی فراہمی کے عزم کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا ہے، تاہم اس بات پر زور دیا ہے کہ عملدرآمد کا دارومدار قابلِ اعتماد سکیورٹی انتظامات اور زمینی سطح پر تمام فریقوں کے تعاون پر ہوگا۔
اسرائیل نے سلامتی کونسل کے اس فیصلے کو ایک اہم سفارتی موڑ قرار دیا، اور اس امر کو اجاگر کیا کہ عالمی برادری غزہ میں عسکریت پسند صلاحیتوں کے خاتمے کی ضرورت پر بڑھتی ہوئی ہم آہنگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اسرائیلی حکام نے فوری ترجیحات میں یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی امداد و ہتھیاروں کے غلط استعمال کو روکنے کے مضبوط نظام قائم کرنے پر زور دیا۔
اگرچہ قرارداد نہایت جامع ہے، تاہم سفارت کاروں اور علاقائی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس پر عملدرآمد انتہائی پیچیدہ ہوگا۔ غزہ کا منقسم سیاسی منظرنامہ، جڑ پکڑے مسلح نیٹ ورکس اور علاقائی مفادات اس راہ میں بڑے عملی اور سیاسی چیلنجز پیدا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود قرارداد 2803 حالیہ برسوں میں بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی ان سب سے جامع کوششوں میں سے ایک ہے، جو سکیورٹی، انسانی امداد اور حکمرانی کو ایک ہی کثیرالجہتی فریم ورک کے تحت یکجا کرتی ہے۔
اگر یہ مجوزہ حکمرانی کے نظام مؤثر انداز میں نافذ ہو گئے تو غزہ کے ساتھ بین الاقوامی تعامل کی نوعیت بدل سکتی ہے—یعنی بحران کے عارضی انتظام سے نکل کر تعمیرِ نو، نظم و نسق اور بالآخر سیاسی انتقال کے ایک زیادہ پائیدار ماڈل کی جانب پیش رفت ممکن ہو سکے گی

