وزیراعظم نریندر مودی کا حالیہ تین ملکی دورہ—جس میں اردن، عمان اور ایتھوپیا شامل تھے—محض سفارتی ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں بلکہ بھارت کی خارجہ پالیسی میں ایک واضح اور بامعنی تبدیلی کی علامت ہے۔ یہ دورہ اس امر کا مظہر ہے کہ بھارت اب خلیجی اور عرب دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو رسمی دائرے سے نکال کر اسٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل کر رہا ہے۔ ماضی میں جہاں بھارت کے تعلقات زیادہ تر توانائی اور افرادی قوت تک محدود سمجھے جاتے تھے، وہیں اب یہ تعلقات تجارت، سرمایہ کاری، ثقافت، ٹیکنالوجی اور جیوپولیٹیکل تعاون تک پھیل چکے ہیں۔
اردن کے دارالحکومت عمان میں وزیراعظم مودی کا استقبال نہایت وقار اور احترام کے ساتھ کیا گیا۔ شاہ عبداللہ دوم—جو پیغمبر اسلام ﷺ کے براہِ راست سلسلۂ نسب سے تعلق رکھتے ہیں—نے انڈیااردن بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کی معاشی ترقی کی کھل کر تعریف کی۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ وزیراعظم مودی کی قیادت میں بھارت نے غیر معمولی ترقی کی ہے اور اردن، بھارت کے ساتھ مل کر اس شراکت داری کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔
شاہ عبداللہ کا یہ وژن کہ اردن کے اسٹریٹجک محلِ وقوع اور آزاد تجارتی معاہدوں کو بھارت کی صنعتی اور معاشی طاقت کے ساتھ جوڑ کر ایک ایسا اقتصادی راہداری نظام بنایا جائے جو جنوبی ایشیا کو مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور یورپ سے جوڑ دے—درحقیقت بھارت کو ایک وسیع جغرافیائی کردار دینے کی عکاسی کرتا ہے۔
اس دورے کا ایک یادگار پہلو اردن کے شہزادے کا وہ غیر معمولی اقدام تھا جب انہوں نے خود گاڑی چلا کر وزیراعظم مودی کو اردن میوزیم لے جایا اور بعد ازاں ایئرپورٹ تک الوداع کہنے بھی خود پہنچے۔ سفارتی دنیا میں ایسے اقدامات محض پروٹوکول کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ یہ ذاتی احترام، اعتماد اور تعلقات کی گہرائی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ یہ لمحہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عرب قیادت اب بھارتی قیادت کو محض ایک شراکت دار نہیں بلکہ ایک سینئر عالمی رہنما کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
دورے کے دوران دونوں ممالک نے آئندہ پانچ برسوں میں دو طرفہ تجارت کو پانچ ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف طے کیا۔ ثقافت، قابلِ تجدید توانائی، پانی کے انتظام، ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر اور تاریخی مقامات پیٹرا اور ایلورا کے درمیان جڑواں تعاون جیسے معاہدے اس تعلق کو محض معاشی نہیں بلکہ تہذیبی اور تکنیکی سطح پر بھی مضبوط بناتے ہیں۔
عمان میں وزیراعظم مودی کا استقبال سلطانِ عمان کے بھائی اور نائب وزیراعظم برائے دفاعی امور نے کیا، جو خود اس دورے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ سلطان ہیثم بن طارق کی جانب سے وزیراعظم مودی کو عمان کے اعلیٰ اعزاز سے نوازا جانا نہ صرف دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کا اعتراف ہے بلکہ عالمی سطح پر مودی کی قیادت کی توثیق بھی ہے۔ اس اعزاز کے ساتھ وزیراعظم مودی ان چند عالمی شخصیات کی صف میں شامل ہو گئے ہیں جن میں ملکہ الزبتھ دوم اور نیلسن منڈیلا جیسے نام شامل ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ خلیجی تعاون کونسل کے چھ میں سے پانچ عرب ممالک پہلے ہی وزیراعظم مودی کو اپنے اعلیٰ ترین سول اعزازات سے نواز چکے ہیں، جو خطے میں بھارت کے بڑھتے ہوئے وقار کا واضح ثبوت ہے۔
بھارت اور عمان کے درمیان طے پانے والا جامع اقتصادی شراکت داری معاہدہ (CEPA) تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ تقریباً دو دہائیوں میں یہ عمان کا دوسرا بڑا تجارتی معاہدہ ہے، اور اس سے قبل عمان نے ایسا معاہدہ صرف امریکہ کے ساتھ کیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمان، بھارت کو ایک قابلِ اعتماد اور طویل المدت شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔
اس معاہدے کے تحت عمان کی 98 فیصد سے زائد ٹیرف لائنز پر بھارتی مصنوعات کو صفر ڈیوٹی رسائی حاصل ہو گی، جس سے ٹیکسٹائل، جواہرات، زیورات، انجینئرنگ مصنوعات، دواسازی، زراعت اور آٹوموبائل کے شعبوں کو زبردست فائدہ پہنچے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ معاہدہ روزگار کے مواقع پیدا کرے گا، ایم ایس ایم ایز، کاریگروں اور خواتین کی قیادت میں چلنے والے کاروباروں کو تقویت دے گا، جبکہ حساس شعبوں کو تحفظ دے کر مقامی مفادات کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔
ایک وقت تھا جب یہ خیال عام تھا کہ وزیراعظم مودی کے اقتدار میں آنے سے بھارت اور عرب دنیا کے درمیان فاصلہ پیدا ہو جائے گا۔ مگر حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ آج عرب دنیا نہ صرف بھارت کے ساتھ کھڑی ہے بلکہ وزیراعظم مودی کو غیر معمولی احترام، اعزازات اور اعتماد سے نواز رہی ہے۔ یہ تبدیلی اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت اب محض ایک ابھرتی ہوئی معیشت نہیں بلکہ ایک ذمہ دار، قابلِ اعتماد اور اثرورسوخ رکھنے والی عالمی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے